• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ آصف کے خلاف عدالتی فیصلہ مختصر اور لفاظی سے عاری

خواجہ آصف کے خلاف عدالتی فیصلہ مختصر اور لفاظی سے عاری

اسلام آباد (تجزیہ / طارق بٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کو بھی نااہل قرار دے دیا۔عدالتی فیصلہ مختصر اور لفاظی سے عاری رہا۔ الفاظ سے کھیلنے کے بجائے معاملے کو متعلقہ حقائق اور مطلب تک محدود رکھا گیا تاہم رولنگ کا آخری پیراگراف سیاسی نوعیت کے مقدمات لئے جانے پر ججوں کے تحفظات سے متعلق ہے۔ جج صاحبان نے نوٹ کیا:ہم نے فیصلہ بڑے بھاری دل سے کیا ہے۔ نہ صرف اس لئے چونکہ ایک کہنہ مشق اور جید سیاسی شخصیت نااہل قرار پائی بلکہ ان کے حلقہ انتخاب کے342125رجسٹرڈ ووٹرز کے ارمانوں کو بھی دھچکا لگا ہے۔ بہتر ہے ایشوز عدالتوں میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں اٹھائے جائیں۔ تحریک انصاف کے عثمان ڈار جو خواجہ آصف کو انتخابی میدان میں شکست دینے میں ناکام رہے، مختلف عدالتی فورمز پر5 سال کی طویل جدوجہد کے بعد انہیں اپنی نشست سے محروم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ این اے۔110سیالکوٹ قومی اسمبلی کی ان چار نشستوں میں شامل ہے جن پر تحریک انصاف نے2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا لیکن ایک جوڈیشل کمیشن نے عمران خان کے الزامات کو رد کر دیا تھا۔ پہلے عثمان ڈار نے الیکشن ٹریبونل کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن ناکام رہے پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا، وہاں سے بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ خواجہ آصف جنہوں نے عثمان ڈار کو 21275ووٹوں کے فرق سے ہرایا تھا۔ انہیں اس حلقے سے تمام عام انتخابات منعقدہ 1993، 1997، 2002، 2008اور 2013ء میں کامیابی کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا جمعرات کو فیصلہ معزول وزیراعظم نواز شریف کے اس بیانیہ کو تقویت دے گا کہ ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ خواجہ آصف معزول وزیراعظم کے معتمد ترین رفقاء میں سے ہیں، ان کی نااہلی سے یقیناً نواز شریف کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ ان کی وزارت خارجہ سے علیحدگی سے حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جس کی معیاد میں ابھی تقریباً 5ہفتے رہتے ہیں ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے خلاف کارروائی کے دوران خواجہ آصف نے کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ وہ سماعتوں کے موقع پر کبھی عدالت نہیں گئے اور معاملہ اپنے وکیل کی صوابدید پر چھوڑا۔ فیصلے کے آخری پیراگراف میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ آبزرویشن دی کہ یہ کسی عدالت کے لئے خوشگوار فریضہ نہیں کہ وہ عدالتی نظرثانی میں جائے جس کے نتیجے میں ایک منتخب نمائندہ نااہل قرار پائے تاہم جب سیاسی قوتیں اپنے تنازعات سیاسی فورم پر حل کرنے کے بجائے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں تو نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نہایت قابل احترام ہے اور عوامی اعتماد کا انحصار منتخب ارکان پارلیمنٹ کے اپنے رویوں پر ہے۔ بہتر ہوتا ایشوز عدالتوں کے بجائے پارلیمنٹ میں لائے جاتے۔ 

تازہ ترین