• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی بنیاد پرمعاف کرائے گئے قرضے وصول کرینگے، سپریم کورٹ، ڈالرز کی بیرون ملک منتقلی کا ریکارڈ طلب

اسلام آباد(رپورٹ : رانا مسعود حسین )عدالت عظمیٰ نے ’’بااثر افراد کی جانب سے مختلف قومی مالیاتی اداروں سے سیاسی بنیادوں پر لئے گئے 54ارب روپے کے قرضے معاف کرانے‘‘ سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران گورنر اسٹیٹ بنک کو آئندہ سماعت تک سپریم کورٹ کی جانب سے بنائے گئے جسٹس ریٹائرڈ جمشید کمیشن کی رپورٹ کا خلاصہ تیار کرکے عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 2ہفتوں کے لئے ملتوی کردی ہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سیاسی بنیادوں پر معاف کرائے گئے قرضے واپس کرائے جائیں گے،چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس سید سجاد علی شاہ پر مشتمل بنچ نے جمعرات کے روز کیس کی سماعت کی تو نیشنل بنک کے وکیل خواجہ محمد فاروق نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ کی انکوائری کے لئے جسٹس ریٹائرڈ جمشید علی پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دی تھی،اس کی رپورٹ پر کچھ بنکوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں، اس کیس میں مرکزی پارٹی اسٹیٹ بنک ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے ہمیں رپورٹ کا جائزہ تو لینے دیں ؟جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ انہیں وہ رپورٹ نہیں ملی ہے اور اس وقت سپریم کورٹ میں ہے ، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کتنے قرضوں کا معاملہ ہے تو انہوںنے جواب دیا کہ 54ارب روپے کے قرضوں کی معافی کا معاملہ ہے، انہوںنے بتایا کہ یہ ایک مرا ہوا معاملہ ہے، اس لئے اسے نہیں کھولا جا سکتا ہے ،لیکن اگر فاضل عدالت مناسب سمجھے تو کھول بھی سکتی ہے ،بنک آف خیبر کے وکیل ذوالفقار نقوی نے موقف اختیار کیا کہ اسٹیٹ بنک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور بنکوں نے قرضے معاف کیے ہیں،اگرچہ نیشنل بنک کمیشن کا کہنا ہے کہ قصہ ماضی کا ہے، لیکن میرا موکل بنک اس پیسے کی واپسی میں گہری دلچسپی رکھتا ہے ،خواجہ فاروق نے کہا کہ اس کیس میں تمام بنکوں کا موقف سنا جانا ضروری ہے ، اسٹیٹ بنک کے گورنر طارق باجوہ نے موقف اختیار کیا کہ ان کی جانب سے جسٹس جمشید کمیشن کی رپورٹ پر جواب داخل کرادیا گیا ہے ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ بہت پرانے مقدمات ہیں جو سپریم کورٹ میں ڈمپ ہوگئے تھے، جوکہ ڈھونڈ کر نکلوائے گئے ہیں،انہوں نے گورنر اسٹیٹ بنک کو کہا کہ آپ کا جواب بہت ہی الجھا دینے والا اور طویل ہے،اسے آسان پیرائے میں بیان کریں، تاکہ ہمیں بھی کچھ سمجھ آسکے ،ہماری سمجھ کے مطابق کچھ بیمار یونٹس تھے جن میں مالکان اور بنکوں کے مابین معاملات طے ہوگئے تھے ،باقی جو قرضے سیاسی بنیادوں پر معاف ہوئے تھے ان کی تفصیلات کہاں ہیں؟اس نوعیت کے 222 مشکوک کیس ہیں ، انہوںنے کہا کہ نیشنل بنک نے بہت زیادہ رقوم کے قرضے مختلف ٹیکسٹائل ملوں کو معاف کیے ہیں یہ رپورٹ آنے کے بعد بھی تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے ، سپریم کورٹ میں یہ معاملہ 2007 سے زیر التوا ہے، ہمیں رپورٹ اور اس کی سفارشات کا خلاصہ چاہئے ذمہ داری کس پر ڈالی ہے؟ جنہوں نے بھی سیاسی بنیادوں پر قرض معاف کرائے ہیں انہیں نوٹس جاری کرکے ان سے قرضے وصول کرائے جائیں گے ، اگر ان کے پاس رقم نہیں ہے تو ان کے اثاثے فروخت کرکے رقم وصول کریں گے،دوران سماعت وطن پارٹی کے وکیل بیرسٹرظفر اللہ نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو، یوسف رضا گیلانی ، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور چوہدری برادران نے بھی قرضے معاف کرائے تھے، یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ نے بھی 20ملین روپے کے قرضے لیکر معاف کرائے تھے ،جس پر فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جنہوں نے غیرقانونی قرض معاف کرائے ان سے وصول کریں گے، اگر رقم نہیں ہے تو ان کی جائیدادیں یا شیئرز فروخت کرواکے رقم وصول کی جائے گی ۔
تازہ ترین