• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہورہائیکورٹ کی سابق ایڈیشنل جج کو مستقل نہ کرنے کیخلاف درخواست خارج

اسلام آباد،لاہور (جنگ رپورٹر،نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے لاہور ہائی کورٹ کی ایک سابق ایڈیشنل جج ،ارم سجاد گل کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مستقل نہ کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ ہی کی ایک سابق جج ،مسز جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست خارج کردی ہے جبکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک امیدوار کس طرح اہلیت کا دعویٰ کرسکتا ہے؟اگر چیف جسٹس اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ امیدوار جج بننے کا اہل نہیں ہے تو کیا وہ امیدوار اپنے حق میں جواز پیش کرتا رہے گا؟چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کی تو درخواست گزار کی جانب سے شاہ خاور ایڈووکیٹ پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے زمرہ میں آتا ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرریوں سے متعلق آئین کے آرٹیکل 175اے کی تشریح کی جانی ضروری ہے۔انہوں نے سپریم کورٹ کے منیر حسین بھٹی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیاکہ عدالت نے قرار دیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور ججز کی تقرری کی پارلیمانی کمیٹی نے آئین کے آرٹیکل 175اے کی کوکھ سے جنم لیا ہے ،آئین میں 18ویں ترمیم اور منیر حسین بھٹی کیس کے فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ اگرپارلیمانی کمیٹی کے فیصلے پر عدالتی نظرثانی کی جاسکتی ہے تو جوڈیشل کمیشن کے فیصلے پر کیوں نہیں کی جاسکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے عدالت کی معاونت کے لئے اٹارنی جنرل کو نوٹس کیا جائے تاہم فاضل عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک امیدوار کس طرح اہلیت کا دعویٰ کرسکتا ہے؟اگر چیف جسٹس اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ امیدوار جج بننے کا اہل نہیں ہے تو کیا وہ امیدوار اپنے حق میں جواز پیش کرتا رہے گا؟بعد ازاں عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھوایا کہ چیف جسٹس / جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین کے مشاہدہ کے مطابق کنفرمیشن کی امیدوار وسابق ایڈیشنل جج لاہور ہائی کورٹ ارم سجاد گل مستقل جج بننے کی اہلیت نہیں رکھتی تھیں اس لئے انہیں مستقل نہیں کیا گیا ہے جبکہ درخواست گزار ناصرہ اقبال کی یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3)کے زمرہ میں نہیں آتی اس لئے اسے خارج کیا جاتا ہے ، یاد رہے کہ درخواست گزار ناصرہ اقبال نے 12اکتوبر 2017کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دائر کی گئی درخواست میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو اس کے سیکرٹری کے ذریعے فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کی سابق ایدیشنل جج، ارم سجاد گل نے دو سال تک ہائی کورٹ میں خدمات سرانجام دی ہیں، لیکن 4مئی 2017کو جب ان سمیت متعدد ججز کو مستقل کرنے کا موقع آیا تو انہیں کنفرم نہیں کیا گیا۔ درخواست گزار کا موقف تھاکہ ارم سجاد گل ایک اہل جج تھیں جنہیں نامعلوم وجوہات کے باعث مستقل نہیں کیا گیا ہے۔جوڈیشل کمیشن کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 25کی واضح پامالی ،پاکستانی خواتین کے لئے ایک دھچکہ اور خواتین وکلاء کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے کہ شاید وہ اعلیٰ عدلیہ میں خدمات دینے کے اہل ہی نہیں ہیں، درخواست گزارنے مزید کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے ایک نوٹ دیا تھا کہ جتنے بھی ایڈیشنل ججز کی مستقلی کا معاملہ کمیشن میں آیا ہے ان سب کو مستقل کردیا جائے گالیکن فاضل چیف جسٹس نے اس نوٹ کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی پارلیمانی کمیٹی نے بھی متفقہ طور پر ارم سجاد گل کی مستقلی کا معاملہ دوبارہ غور کے لئے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو بھجوایا ہوا ہے۔
تازہ ترین