• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خواتین چلارہی ہیں، ریسٹورنٹ ارو ڈھابہ

ہمارے ہاں خواتین کے فرائض میں کھانا پکانا اہمیت رکھتاہے اور وہ اسے بڑے جذبے ، اپنائیت اور خلوص سے انجام بھی دیتی ہیں لیکن اگر کبھی ان کو باہر بنے ریسٹورنٹس سے منگوانا ہو یا جاکر کھانا ہوتو سماج کی روایات اور شرم و حیا بھی آڑے آتی ہے ۔ چونکہ زمانہ بدل رہاہے اور خواتین بزنس کے شعبے میں آگے بڑھ رہی ہیں اسی لئے کوئٹہ کی حمیدہ نے سوچا کہ کہ کیوں نہ خواتین عملے پر مشتمل ریسٹورنٹ کھولاجائے۔

ہزارہ کمیونٹی سے سے تعلق رکھنے والی حمیدہ علی کوئٹہ میں ’حرمت نسواں فاؤنڈیشن‘ بھی چلاتی ہیں۔حقوق نسواں کی علمبردار یہ خاتون جہاں رہتی ہیں وہاں عورتوں کا گھروں سے نکلنا عام نہیں ہے بلکہ بہت سی عورتوں کو گھر وں سے باہر جانے کی اجازت ہی نہیں تھی، وہ چاہتی تھیں کہ عورتوں کو گھروں سے باہر نکالیں اور انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کردیں۔

حمیدہ کیلئے ’ہزارہ ریسٹورنٹ‘ کا آغازآسان نہ تھا۔ وہ کافی عرصے سے پیسے جمع کر رہی تھی۔انہیں دھمکیاں بھی دی گئیںلیکن تمام تر مسائل کے باوجودانہوں نے ہمت نہ ہاری اور رریسٹورنٹ قائم کرکے دکھایاجہاں کُل سات خواتین کام کر رہی ہیں، جو کھانا پکاتی بھی ہیں اور گاہکوں کو کھانا پیش بھی کرتی ہیں۔ حمیدہ نے نے اشیائے خورد ونوش خریدنے کے لیے دو مردوں کو ملازمت دی ہوئی ہے۔جہاں صرف خواتین نہیں بلکہ مرد بھی کھانا کھانے آسکتے ہیں۔

اس ریسٹورنٹ میں خانسامہ خواتین مختلف طرح کے کھانے پکاتی ہیں۔ اس ریسٹورنٹ کی سب سے زیادہ پسند کی جانی والی ڈش ہزارہ کمیونٹی کی روایتی ڈش ’آعش‘ ہے۔ اس کھانے میں آٹے کے نوڈلز کے ساتھ دالیں، لوبیا، پالک اور دہی ڈالا جاتا ہے۔ یہ ہزارہ کی ایک ایسی خاص ڈش ہے، جسے بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں۔

حمیدہ بتاتی ہیں کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے جب لوگوں نے یہاں کام کرنے والی خواتین کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کھانا پیش کرنے والی خواتین کو زیادہ ٹپ بھی دی۔ لیکن ان خواتین کو مشکل حالات کا بھی سامنا کرنا پڑااورکھانا پیش کرنے والی خواتین کو تلخ جملے بھی سننے کو ملےلیکن انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ ’بہت سی عورتیں جو شام میں خریداری کرنے بازار آتی ہیں وہ اکثر اس ریسٹورنٹ میںچلی جاتی ہیں۔ اسی طرح طالبات بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ یہاں دیر تک بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔ ’حرمت نسواں فاؤنڈیشن‘ عورتوں کی کھیلوں میں شمولیت، تعلیم اور صحت کے حوالے سے کام بھی کرتی ہے۔ حمیدہ کا کہنا ہے کہ جب تک آپ خود قدم نہیں بڑھائیں گی تو کوئی آپ کا ساتھ نہیں دے گا۔

کراچی میں ویمن ڈھابہ

کوئٹہ کے ہزارہ ریسٹورنٹ کی طرح کراچی کے نہایت ہی پسماندہ اور تمام سہولیات سے محروم علاقے ماڑی پور میں ایک ایسا ڈھابہ قائم کیا گیا ہے جو صرف اور صرف خواتین کے لیے ہے۔پاکستان میں ڈھابوں پر خواتین کے کام کرنے کا تصور کچھ عرصہ قبل سامنے آیا جب پوش علاقوں کی خواتین نے ڈھابوں پر بیٹھ کر اس جگہ سے صرف مردوں کے لیے مخصوص ہونے کا لیبل ہٹا دیا۔ سوشل میڈیا پر شروع کی جانے والی ’گرلز ایٹ ڈھابہ‘ نامی یہ تحریک خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک قدم تھا۔

کراچی میں ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن نامی ایک تنظیم کی جانب سے قائم کیا گیا یہ ڈھابہ ماڑی پور میں ان خواتین کا مرکز بن چکا ہے جنہیں یا تو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی، یا گھر سے باہر نکلنے کے لیے ان کے ساتھ کسی مرد کی موجودگی لازم ہے، یا پھر وہ خواتین جنہیں کچھ آزادی تو میسر ہے، لیکن ان کے لیے پورے علاقے میں کوئی تفریحی مرکز نہیں۔دراصل اس طرف کبھی توجہ ہی نہیں دی گئی کہ گھروں میں رہنے والی خواتین کو بھی ذہنی سکون و تفریح کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

ڈھابے پر آنے والی خواتین کیلئے یہ ڈھابہ تفریح کا موقع تو فراہم کرتا ہے، لیکن اس ڈھابے سے اپنائیت کا احساس اس لیے بھی ہوتا ہے کہ یہ صرف ان کیلئے ہی قائم کیا گیا ہےیعنی کسی کو تو خیال آیا کہ عورتوں کو بھی تفریح کی ضرورت ہے۔

ویمن ڈھابے یا خواتین ڈھابے پر چائے اور کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ ساتھ لوڈو اور کیرم بھی رکھا گیا ہے جسے کھیل کر خواتین اپنے فرصت کے لمحات کو گزارتی ہیںاوریہاں لڑکیوںکو سلائی کڑھائی بھی سکھائی جاتی ہے۔ساتھ ہی خواتین کی انفرادی کوششوں کے علاوہ ڈھابے کی انتظامیہ کی جانب سے بھی ایسی صحت مند سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں جن سے ان خواتین کی تعلیم و تربیت کا سامان بھی ہوجاتا ہے، جیسے دستاویزی فلمیں دکھانا، کسی کتاب کا مطالعہ، یا انہیں ہنر مند بنانے والی کسی سرگرمی کی کلاسیں وغیرہ۔

ویمن ڈولپمنٹ فاؤنڈیشن کی صدر صبیحہ شاہ کے مطابق اس ڈھابے کو قائم کرنے کا مقصد ان خواتین کو سکون کے چند لمحات فراہم کرنا ہےجو کوئی تفریحی سرگرمی نہ ہونے کے باعث ایک گھٹن زدہ زندگی گزار رہی تھیں۔ ’گھروں میں کام کاج اور اپنے گھر والوں کے آرام کا خیال رکھنے کے بعد ان خواتین کو بھی ضرورت تھی کہ ان کی تفریح طبع یا ذہنی سکون کے لیے کوئی مقام ہو جہاں وہ جا سکیں۔

مزید ان کا کہنا تھا کہ و قت بدلنے کے ساتھ ساتھ ماڑی پور میں بھی حالات بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔ ’اب لڑکیاں اسکول بھی جاتی ہیں، اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد اگر چاہیں تو چھوٹی موٹی ملازمت بھی کر سکتی ہیں، جس کا تصور بھی صرف چند سال پہلے تک ناممکن تھا۔ڈھابے کی رو ح رواں صبیحہ اور ان کی ٹیم نے ڈھابے کے ساتھ ریڈنگ کارنر بھی قائم کیا ہے جہاں اسکول کے بچے اور بچیاں نہ صرف مطالعہ کر سکتے ہیں بلکہ وہاں موجود کمپیوٹر اور مفت انٹرنیٹ کی سہولت سے وہ ترقی یافتہ دنیا سے بھی جڑ سکتے ہیں۔

تازہ ترین