• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی تبدیل ہوتی معیشت

پاکستان کی معیشت کو درپیش کئی چیلنجز اور نامساعد حالات کے باوصف معاشی ترقی و استحکام کی گواہی دینے والا ہمارا روایتی دشمن پڑوسی بھارت بھی پاکستان کے معاشی استحکام اور تبدیل ہوتی معیشت پر انگشت بہ دنداں ہے کہ کیسے تعمیراتی صنعت، آئی ٹی انڈسٹری اور سی پیک نے پاکستان کی سیاسی معیشت کو سنبھالا دیتے ہوئے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا رکھا ہے،جس کا بھارت کو لازماً نوٹس لینا چاہیے۔

سائوتھ ایشین یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ میں پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر مونیکا ورما بھارتی انگریزی جریدے’’سوراجیہ‘‘ میں رقم طراز ہیں:

مثبت اعشاریے

2013میں پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے کے کنارے پر کھڑی تھی۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر خشک ہوچکے تھے۔ مالیاتی خسارہ اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ معاشی سرگرمیوں کی رفتار بہت سست پڑگئی تھی۔ ان مشکل حالات میں آئی ایم ایف نے ملک کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے 7.6بلین ڈالر کی امداد ی رقم فراہم کی۔ اس تین سالہ آئی ایم ایف حمایت پروگرام نے ملک کو نہ صرف غیر ملکی زرمبادلہ کے بحران سے بچالیا بلکہ ملک میں بڑے پیمانے پر معاشی و مالیاتی استحکام کی بنیاد رکھی۔ ماہرین کے مطابق پاکستان مستحکم معیشت کہلائی جانے لگی جس کی مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو 2016میں 4.7فیصد دیکھی گئی جب کہ مالیاتی خسارہ 8.8فیصد سے کم ہوکر 4.6فیصد ہوگیا جب کہ 2016میں اسٹاک مارکیٹ میں 50فیصد تیزی دکھائی دی۔

تعمیراتی صنعت

تعمیراتی صنعت پاکستان کی معیشت کے لیے خوشگوار مظہر بن کر ابھری۔ حکومت پاکستان نے اسے معاشی ترقی کا اہم محرک جانا۔ اس کی ترقی سے انفرااسٹرکچر اور لوگوں کو مکانات دینے کے حوالے سے بڑے بڑے پروجیکٹس شروع ہوئے۔ جس سے روزگار میں بہتری آئی اور تیل بجلی کوئلے کی قیمتوں میں کمی آئی۔

آئی ٹی صنعت

کنسٹرکشن کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر پاکستانی معیشت کے لیے وفا پرست شعبہ کے طورپر ابھر کر سامنے آیا۔ 2015میں پاکستان کے آئی ٹی سیکٹر سے 2.8بلین ڈالر کی خطیر رقم موصول ہوئی جن میں بیرون ملک دی جانے والی خدمات کے عیوض رقم کا حجم 1.6بلین ڈالر رہا۔ عالمی طورپر 3.2بلین ڈالر کے مجموعی شئیر کے مقابلے میں یہ رقم درخورِ اعتنا نہیں لیکن پاکستانی حکومت کی کمٹمنٹ سے آئی سیکٹر کے بڑھنے کے واضح امکانات ہیں۔ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری ماڈل سے کرپشن، بیوروکریٹک فیتے اور سیکورٹی چیلنجز جیسے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملی ۔ ملک کے سافٹ ویئر پروفیشنلز نے معروف فری لانس ہائرنگ سائٹس مثلاً ای لانس، اپ ورک اور فیور کا استعمال کرتے ہوئے کثیر سرمایہ حاصل کیا ۔ اس وقت پاکستان کی رجسٹرڈ آئی کمپنیز کی تعداد 1500 سےزائد ہے۔ پاکستان میں ٹیکنالوجیز کمپنیوں نے دنیا بھر میں اپنی موجودگی منوائی۔ ان میں نمایاں i2cمعروف پے منٹ پروسیسنگ سلوشنز ہے جس کی بنیاد عامر وحید وائین نے 2001میں رکھی اور اب یہ 200سے زائد ممالک میں کام کررہی ہے۔ ایک اور کمپنی نیٹ سول جس کے بانی نجیب غوری ہیں، کا ریونیو 51ملین ڈالر سے زائد ہے جس کے کلائنٹس میں مرسڈیزینیز ، وولکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، نیسان اور ہیڈائی جیسی مشہور کمپنیاں شامل ہیں۔ ایک انٹرویو میں غوری نے اعتراف کیا کہ پاکستانی نوجوانوں کے آئی ٹی اسکلز سے دنیا اتنی واقف نہیں جتنی ہندوستانی نوجوانوں سے ہےتاہم وہ پاکستان کی وسیع آئی ٹی انڈسٹری کا پوشیدہ اثاثہ ہیں۔ حکومت پاکستان بھی ٹیلنٹ کی حوصلہ افزائی کررہا ہے۔ اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی آرٹ کثیر المقاصد آئی ٹی پارک کی تعمیر کے لیے جنوبی کوریا بھی پاکستان کو 9.2بلین روپے کا قرضہ دے رہا ہے۔

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری

چین کی طویل المدت سرمایہ کاری سے متاثر ہوکر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی ظاہر کررہے ہیں جو کچھ عرصہ قبل امن و امان کی مخدوش صورت حال ، بجلی کے بحران اور عدم سیاسی استحکام کے باعث تذبذب کا شکار تھے۔ اس کی عکاسی فارن کریڈٹ نرخوں سے بھی ملتی ہے اور ایس اینڈ پی اور موڈیز جیسی ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی B-سے Bاور B3کیٹگری سے نوازا ہے۔ چین کے علاوہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک چین، مصر، نیدر لینڈ، ترکی، امریکا، متحدہ عرب امارات، جاپان، جرمنی شامل ہیں۔ پاکستان کی تیزی سے ابھرتی مارکیٹ نے بھی غیر ملکی کمپنیوں کو اس جانب مائل کیا ہے کہ وہ بھی سرمایہ کاری کریں جیسے ڈچ کمپنی نے اینگرو خوراک کی مصنوعات اور ترکی نے ڈائولینس کے آرڈر لیے ہیں۔پاکستان میں ابھرتی مڈل کلاس صارف آبادی کے باعث ملک کی معیشت میں اہم تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔

تبدیلی ہوتی سیاسی معیشت

پاکستان میں کنزیومر کے خرچ کرنے کے رجحان میں ایشیا پیسفک خطے میں 48.7کے مقابل 83.4فیصد اضافہ واقع ہوا ہے۔ یہ کسی ایسے ملک کے لیے اہم نکتہ اور امید کی کرن ہے جسے دیوالیہ ہوجانے کے کنارے پر مانا جاتا تھا۔ بڑھتی مڈل کلاس سے اشیا کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے۔بالائی و درمیانی طبقات پر مشتمل صارفین کی یہ تعداد 84ملین کے مضبوط عدد پر مبنی ہے جو جرمنی اور ترکی کی کل آبادی سے زائد ہیں۔ پاکستانیوں کی اکثر یتی آبادی دیہات میں مقیم ہے جب کہ 60فیصد دیہی آبادی ایسی ہے جن کی آمدنی کا ماخذ زرعی نہیں ہے بلکہ انہیں ترسیلات زر اور خدمات کی صورت میں معاوضے کی رقم ملتی ہے۔ اسی مڈل کلاس کی وجہ سے پاکستان کی موبائل مارکیٹ نے کامیابی سے اپنے جھنڈے گاڑھے اور اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان اہم ترین ممالک میں ہوتا ہے جو اسمارٹ فون کی کثیر تعداد لگ بھگ 2کروڑ کے حامل ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد ان آلات کے ذریعے آن لائن کاروبار کررہی ہے۔

تازہ ترین