• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو زبان کے شیکسپئر کہلائے جانے والے عظیم ڈراما نویس آغا حشر کاشمیری کی برسی ہر سال اپریل کی اٹھائیس تاریخ کوہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی مناتا نہیں۔ اپنے اکابرین کو بھول جانے میں ہم لوگ دیر نہیں لگاتے۔ زیڈ اے بخاری کے زمانے تک ریڈیو اور ٹیلی وژن پر آغا حشر کے ڈرامے اور ان کے تھیٹر کے نغمے نشر ہو جاتے تھے۔ اب وہ بھی نہیں ہوتے۔ اردو کی درسی کتابوں میں کبھی کبھار ان کے اقتباس شامل ہوجاتے تھے، اب نہیں ہوتے۔ میرے ساتھ عجب اتفاق یہ ہوا کہ لندن کی ایک ادبی نشست میں ، جہاں احباب اپنی فالتو کتابیں رکھ دیتے ہیں اور اپنے مطلب کی کتابیں اٹھا لیتے ہیں، وہیں مجھے بابائے صحافت چراغ حسن حسرت کی لکھی ہوئی کتاب ’مردمِ دیدہ‘ مل گئی۔اس چھوٹی سی کتاب میں چھ سات اکابرین کے ایسے دلچسپ خاکے شامل ہیں کہ پڑھا ہی کیجئے۔ اسی میں ایک خاکہ آغا حشر کاشمیری کا بھی ہے۔(یہ کتاب سنہ 1939ء کی ہے، اُس وقت چراغ حسن حسرت بھی اپنے نام کے ساتھ کاشمیری لکھا کرتے تھے)۔ میں زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے اپنے قارئین کے لئے آغا حشر کی شخصیت کے بارے میں مضمون کے کچھ اقتباس یہاں نقل کر رہا ہوں۔ ان کی زبان اور لب و لہجہ سراسر حسرت صاحب کا ہے:
یہ جس زمانے کا ذکر ہے، ہندوستان میں فلموں کا رواج نہیں تھا۔ جو کچھ تھا تھیٹر ہی تھیٹر تھا اور اس دنیا میں آغا حشر کا طوطی بول رہا تھا۔ یوں تو اور بھی اچھے اچھے ڈراما آرٹسٹ موجود تھے۔ احسن، بیتاب، طالب،مائل، سب کے سب لنکا کے باون گزے تھے لیکن آغا کے سامنے بونے معلوم ہوتے تھے۔ سنہ 1921ء میں جب مجھے پہلی مرتبہ لاہور آنے کا اتفاق ہوا تو یہاں آغا حشر کی شاعری کی دھوم تھی۔ان کی نظموں’ موجِ زمزم‘اور ’شکریہ یورپ‘ کے اکثر اشعار لوگوں کو زبانی یاد تھے اور لوگ انہیں آغا کی طرح مٹھیاں بھینچ کر گونجیلی آواز میں پڑھنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ آغا اپنے عروج شباب کے زمانے میں صرف ایک مرتبہ پنجاب آئے لیکن ان کا یہ آنا عوام و خواص، دونوں کے حق میں قیامت تھا۔ انہوں نے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں ایسی نظم پڑھی کہ روپے پیسے کا مینہ برس گیااور جو کام بڑے بڑے عالموں سے نہ ہوسکا، آغا نے کر دکھایا۔
میں سنہ 1925 میں کلکتہ گیا۔ وہاں ان کے ہزاروں مدّاح موجود تھے۔ ان کی زبانی آغا کی زندگی کے اکثر واقعات، ان کے لطیفے، اشعار اور پھبتیاں سنیں۔ کوئی سال بھر کے بعد میں نے ا ن کے ایک مداح سے کہا کہ آغا صاحب سے کب ملوائے گا۔ وہ کہنے لگے’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ابھی چلو‘۔ ہم بخط مستقیم آغا کے ہاں پہنچے۔صحن سے ملا ہوا ایک وسیع کمرہ تھا۔ اس میں ایک چارپائی اور دو تین کرسیاں پڑی تھیں۔ چارپائی پر آغا صاحب صرف لنگی باندھے اور ایک کرتا پہنے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی اٹھ بیٹھے۔ سر پر انگریزی فیشن کے بال، داڑھی منڈی ہوئی،چھوٹی چھوٹی مونچھیں، دہرا جسم،سرخ و سپید رنگ، میانہ قد، ایک آنکھ میں نقص تھا۔ محفل میں بیٹھے ہوئے ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ میری طرف ہی دیکھ رہے ہیں۔ بڑے تپاک سے ملے اور ادبی ذکر و اذکار چھڑ گئے۔ آغا صاحب نے اگرچہ ہزاروں کمائے اور لاکھوں اڑائے لیکن ان کی معاشرت ہمیشہ سیدھی سادی رہی۔ مکان میں نہ نفیس قالین تھے نہ، صوفے نہ کوچ نہ ریشمی پردے نہ غالیچے۔ گھر میں ہیں تو لنگی باندھے، ایک بنیان پہنے کھرّی چارپائی پر بیٹھے ہیں۔ باہر نکلے تو ریشمی لنگی اور لمبا کرتا پہن لیا۔ میں نے پہلی مرتبہ انہیں اسی وضع میں دیکھا۔
آغا بڑے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص تھے۔ جس محفل میں جا بیٹھتے، سب پر چھا جاتے۔ جب شام کو صحبت گرم ہوتی،تین تین چارچار آدمی مل کر آغا پر پھبتیوںکا جھاڑ باندھ دیا کرتے تھے، لیکن آغاچومکھی لڑنا جانتے تھے۔حریف دم بھر میں ہتھیار ڈال دیتا لیکن آغا کی زبان نہ رکتی تھی۔ جس شخص سے بے تکلفی بڑھانا منظور ہوتا اسے اِس بے ساختگی سے گالی دے بیٹھتے تھے کہ بیچارا حیران رہ جاتاتھا۔لیکن آغا کنجڑے قصابوں جیسی گالیاں تھوڑے ہی دیتے تھے۔ انہوں نے گالی کو شعر و ادب سے ترکیب دے کر خوش نما چیز بنا دیا تھا۔ پھر انہوں نے تھیٹر کی طرف توجہ کی ۔اس پر مطالعہ کا شوق سونے پر سہاگہ ہوگیا۔ وہ ہر قسم کی کتابیں پڑھتے تھے۔ اد نیٰ قسم کے بازاری ناولوں ، اخباروں او ررسالوں سے لے کر فلسفہ اور مابعدالطبیعات کی اعلیٰ تصانیف تک سب پر ان کی نظر تھی۔ بازار میں چلتے چلتے کتابوں کی دکان نظر آگئی۔ کھڑے ہوگئے ۔ اچھی اچھی کتابیں چھانٹ کے بغل میں دبائیں اور چل کھڑے ہوئے۔ راستہ میں کسی کتاب کا کوئی گرا پڑا ورق دکھائی دیاتو اسے اٹھا لیا اور وہیں کھڑے کھڑے پڑھ ڈالا۔ نوکر بازار سے سودا سلف لے کر آیا ہے، بنئے نے اخباروں اور کتابوں کے اوراق میں پڑیاں باندھ کے دی ہیں۔ یکایک آغا صاحب کی نظر پڑگئی۔ نوکر سے کہہ رہے ہیں کہ پڑیا خالی کر کے لاؤ۔ یہ بڑے کام کی چیز معلوم ہوتی ہے مجھے اس پر شبلی کا نام لکھا نظر آیا ہے۔
ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ کوئی کتاب پڑھ لیتے تھے تو اسے دوسری مرتبہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ یہ اسی مطالعہ کی برکت تھی کہ ان کی معلومات پر لوگوں کو حیرت ہوتی تھی۔ طب ہو یا فلسفہ، شاعری ہو یا ادب، کسی موضوع میں بند نہیں تھے۔ بازا ر سے نئی جوتی منگوائی ہے کسی نے پوچھا آغا صاحب کتنے کو مول لی ہے؟بس آغا صاحب نے جوتی کے فضائل اور محاسن پر تقریر شروع کردی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد سننے والوں کو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس جوتی کو سچ مچ تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ آغا جوانی سے شراب کے عادی اور روز کے پینے والے تھے۔ دن ڈھلتے ہی پینا شروع کردیتے تھے اور بہت مدت گئے تک یہ محفل جمی رہتی تھی۔وہ چھپ کے پینے کے قائل نہیں تھے۔ سب کے سامنے ، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بیچ کھیت پیتے تھے اور بوتلوں کی بوتلیں خالی کردیتے تھے لیکن موت سے کوئی تین سال پیشتر شراب ترک کردی۔ یوں دفعتاََ شراب چھوڑ دینے سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ رنگت سنولا گئی۔ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ ہڈیاں نکل آئیں اور ایسا روگ لگا جوآخر ان کی جان لے کر ہی ٹلا۔ ڈاکٹروں نے ہر چند کہا کہ تھوڑی مقدار میں روز پی لیا کریں لیکن انہوں نے نہ مانا ۔مرتے مرگئے،شراب نہ پی۔
ایک صبح میں ان کے پاس جانے کے لئے کپڑے پہن رہا تھا اتنے میں خبر ملی کہ آغا کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں کا خیال تھا جنازہ شہر میں لایا جائے گا۔ اخباروں میں یہ خبر بھی چھپی کہ نیلے گنبد میں نماز جنازہ ہوگی لیکن پھر خدا جانے کیا ہواکہ یہ ارادہ ترک کردیا گیا۔ جنازہ کے ساتھ صرف سو سوا سو آدمی تھے۔ انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیاہے۔ افسوس ہے کہ آج تک کسی کوان کی قبر پختہ بنوانے یا لوحِ مزار تک نصب کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔ (1935ء)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین