• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سیاسی حالات میں فیصلہ کن مثبت اشارے موجود ہیں۔ ہمیں ان پر اک نگاہ ڈال کر آگے بڑھنا چاہئے۔ مثبت آغاز آپ کو ذہنی شکست خوردگی اور انتشار سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایک مثبت اشاریہ، پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ منتخب حکومت کی طرح ن لیگ کی منتخب حکومت بھی اپنا آئینی دورانیہ مکمل کرنے جارہی ہے ، یہ بیتے 71برسوں میں دوسری منتخب حکومت ہو گی جو عام قومی انتخابات کے بعد آئینی طور پر مستقبل کی منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرے گی۔
پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیادوں پر منتخب آئینی اقتدار کی یہ منتقلی اپنے باطن میں عوام کے ووٹ کی فیصلہ کن فتح ہے ۔اور اس کے باطن میں ہی آخری نتیجے کے طور پر ان تمام ریاستی ، صحافتی ، سیاسی اور مذہبی قوتوں کی ناقابل تلافی ہار پوشیدہ ہے۔ جو منتخب حکومت کو اس کی آئینی مدت مکمل کرنے سے پہلے گھر بھیجنے کے خواہاںتھے۔ آئندہ کے منتخب مثبت نمائندوں کو اقتدار کی یہ آئینی منتقلی، آئین کی بالادستی ، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کا فاتح اعلامیہ ہو گی!
ایک مثبت اشارہ پاکستانی عوام کا ذہناً اور عملاً ووٹ کے ذریعے اقتدار منتقل کرنے کا خاموش اصرار ہے۔پیپلز پارٹی ہی کی طرح ن لیگ کی موجودہ منتخب حکومت کے بارے میں بھی اس کی پانچ برس کی آئینی مدت کے دوسرے روزسے ہی یہ اس کی رخصتی کی تاریخیں شروع ہو گئی تھیں۔
ان گزرے پانچ برسوں (اب پانچویں برس کا صرف ایک ماہ ہی تو باقی ہے) ن لیگ کی منتخب حکومت کون سے مراحل سے نہیں گزری، وہ عمران خان اور طاہر القادری صاحبان کے دھرنے ہوں، خادم حسین رضوی کی مذہبی تحریک ہو، شیخ رشید کی پیش گوئیوں کا کاروبار ہو، وزیر اعظم سے لے کر خواجہ آصف تک کی تاحیات نا اہلیاں ہوں۔ کراچی کی بدامنی اور فسادات کے نام پر پھیلنے ، پھیلائے جانے والی افواہیں ہوں، بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کا گرایا جانا ہو، ن لیگ کے قومی بحرانوں کے دوران میں چودھری نثار علی خان جیسے طاقتور، ن لیگی رہنما کی سیاسی جنگ کے اس دورانیے میں نقصان دہ غیر جانبداری ہو، مطلب یہ کہ روز و شب ہر لمحے درپیش ایسے معاملات کا جارحانہ چلن جاری رہا، جاری رکھا گیا جس سے ن لیگی اقتدار کے منتخب تختے پر ہر وقت لرزہ طاری رہا، اب ٹوٹا کہ اب ٹوٹا، اب تڑخا کہ اب تڑخا!
پھر آپ الیکٹرانک میڈیا کے اس واقعے کو یاد کریں جس نے پیپلز پارٹی کی گزشتہ مثبت حکومت یا ن لیگ کی موجودہ منتخب حکومت کو حضرت آدمؑکے بعدپیدا شدہ تمام’’ انسانی گناہوں ‘‘کا مجموعہ ثابت کرنے میں اپنا تن ، من اور دھن قربان کرتے رہے۔واقعات کے گمراہ کن، شر انگیز، اور تباہ کن اطلاق کے ذریعے لوگوں کو منتخب حکمران کے ہر قسم میں جرم اور ڈکیتی کے موجود منصوبوں جیسی تہمت تراشیوں سے پاکستان کے قومی ماحول کو خوف اور ناکامی کے اندیشوں کی آماجگاہ بنائے رکھا۔
الیکٹرانک میڈیا جمہوری اصولوں کی اصل سچائی سے لاعلمی یا جان بوجھ کر فتنہ انگیزی کے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر منتخب حکمرانوں کے بارے میں مبالغہ آرائیوں اور ’’ہدایت یافتہ‘‘ سنسنی خیز واقعات کی تھرتھریاں پیدا کر کے ان کے حکومتی فرائض ادا کرنے کی تمام راہیں بند کرنے کی کوشش میں بے وجہ مصروف رہا ۔ن لیگ کے اس منتخب حکمرانی کی مدت کےدوران میں یہ راہیں مسدود بھی رہیں۔الیکٹرانک میڈیا کے اسحصےنے ووٹ کے تسلسل سے ملکی اور سماجی مسائل، مشکلات اور برائیوں کے حل کے بجائے’’افراد‘‘ کی ذات کو موضوع بنایا اور ہر گھڑی جمہوری تسلسل کا بوریا بستر لپیٹ کر کسی مسیحائی نظام کا نقشہ بروئے کار لانے کے غیر فطری اور ناقابل عمل فلسفے کا پرچار کرتے رہے، مقصد لوگوں کا بھلا کرنا نہیں بلکہ جمہوری تسلسل کے نتیجے میں چند برسوں بعد جو بھلا ہونے جارہا ہے اس کی بھی قبر کھودنا تھا، یہ حضرات نتیجے کے طور پر پاکستان کی بقا کے لئے سرخ بتی کا اشارہ تھے جس کو باطل ثابت کرنےکےلئےدونوں منتخب حکومتوں کے نمائندوں کو شاید اپنی سیاسی زندگیوں میں سب سے زیادہ قہر آلود رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑا اور وہ عبور کر گئے۔
آج پیپلز پارٹی کے بعد دوسری منتخب حکومت اپنے آئینی اقتدار کی مدت مکمل کرنے میں صرف ایک ماہ دو دن پیچھے ہے! یہ تیسرا مثبت منتخب اشاریہ ظاہری اور باطنی غیر جمہوری قوتوں کو بیچ میدان ترک کرنے کےمترادف ہے ۔ پاکستان عوام کا آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل پر خاموش ایمان رات کو چودھویں کے چاند اور دن کو سوا نیزے پر سورج بن کر چمک رہا ہے جس کے صدقے پاکستان نے عزت مآب چیف جسٹس ثاقب نثار اعلان کرتے ہیں’’کس کی جرأت ہے مارشل لاءلگائے،ہم سب گھر چلے جائیں گے‘‘، یہ ظاہری اور باطنی وہ لوگ ہوں یا الیکٹرانک میڈیا کا وہ حصہ ہو جس نے پاکستانی عوام اور پاکستان کی حوصلہ شکنی میں ذہنی زوال کی آخری حدیں بھی پار کر لیں، یہ سب دیکھیں گے، فیصلہ ان کی گمراہی سے نہیں عوام کے ووٹ سے ہو رہا ہے ، اس لئے جیسا کہ شروع میں عرض کیا، پاکستان میں اب جمہوریت کے تسلسل کا مثبت اشاریہ غیر آئینی ارادوں کی راہ میں رکاوٹ کی سطح تکطاقتور ہو چکا ہے،اب یہاں چاہے کیسے ہی شر اور ڈر کے مینا بازار لگا لیں، ریاستی نظام ، انسانی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل، کی بنیادوں پر ہی چلے گا۔ اور اس کے تسلسل ہی سے ہمارے ریاستی اور سماجی مسائل کا71برس پر مشتمل ملبہ اٹھایا جا سکے گا۔
آپ ملکی بے رحم غیر جانبداری کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی گزشتہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ منتخب حکومت کے ادوار میں جمہوری تسلسل اور منتخب حکمرانوں کی کردار کشی سے لے کر ان پر عدالتی ، صحافتی اور سیاسی طوفان انگیز یوں کا ریکارڈ مرتب کریں۔اور پھر پی پی کی منتخب حکومت سے لے کر ن لیگ کی مثبت حکومت تک پاکستان کے انفراسٹرکچر، اقتصادیات،عورتوں اور بچوں کے حقوق کی قانون سازی ، دہشت گردی کے خاتمے، سی پیک اور اورنج ٹرین جیسی تاریخی چھلانگوں کا ریکارڈ سامنے رکھیں، انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے ، منتخب نمائندوں نے شب و روز کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کے باوجود پاکستان میں اس معیار کی ترقی کا ریکارڈ قائم کیا جو ایسے ماحول میں کامیاب ہوتا ممکن ہی دکھائی نہیں دیتا تھا جیسا ماحول منتخب حکومتوں کے لئے بطور عذاب جاں، نہ برقرار رکھا جاتا رہامگر ایک طرح ان کا ’’مقدر‘‘ بنا دیا گیا۔ تکالیف جمہوری تسلسل سے دور ہوں گی ایک روز کی تلاش مسیحا سے نہیں!جمہوری تسلسل میں ہی پاکستان کی بقا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین