• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ نے جغرافیے کو گود لے لیا ہے۔ سرحدیں کھلکھلانے لگی ہیں۔ ایٹمی ہتھیار کروٹ بدل کر سوگئے ہیں۔ شکر ہے زندہ تھے یہ منظر دیکھ لیا کہ ایک دوسرے کی جان کے در پے اس سرحد کو پار کرکے ہاتھ ملارہے ہیں۔ جو کتنے انسانوں کا لہو چاٹ گئی۔ کتنے بچھڑے ہوئے آپس میں نہ مل سکے۔ کتنے ملنے کی جستجو میں جنگلوں کی خوراک بن گئے۔ یہ اکیسویں صدی کی بڑی خبر ہے۔ بیسویں صدی خون آشام تھی۔ جگر دو لخت کرتی رہی۔ خاندانوں کو تقسیم کرتی رہی۔ ہتھیاروں کی فصلیں اُگاتی رہی۔ سروں کی فصلیں کاٹتی رہی۔ بچپن میں ہم نے کوریا کو بٹتے دیکھا۔ بڑھاپے میں ان کو ملتا دیکھ رہے ہیں۔ دُنیا بھر میں جنگجوئی سے اربوں ڈالر کمانے والے سر پیٹ رہے ہیں۔ شمالی کوریا۔ جنوبی کوریا دونوں کے سربراہ لائق تحسین ہیں۔ انہوں نے انسانیت کی لاج رکھی ہے۔ سرحد بھی ان کے قدم چوم رہی تھی۔ دونوں طرف کوریائی عوام کے لبوں پر پھول کھل رہے ہیں۔ کوریا سے کینیڈا تک امن سے محبت کرنے والے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ یہ ملاپ 65سال سے منقسم خاندانوں کی آرزوئیں پوری کرنے کی بنیاد بن جائے۔
اس ہفتے اس تاریخ ساز واقعے کے ساتھ ساتھ ایک اور امن بھری خبر بھی سننے میں آئی ہے کہ ستمبر میں روس کی سر زمین پر شنگھائی تعاون کے تحت ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں پہلی بار پاکستان اور بھارت کے فوجی دستے بھی حصّہ لیں گے۔ اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں تو کئی ملکوں میں دونوں اکٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن مشترکہ فوجی مشقوں میں پہلی بار یکجا ہوں گے۔ یہ بھی امن اور محبت کی طرف بڑھتا قدم ہے۔ دہشتوں۔ وحشتوں اور نفرتوں کے تسلسل کے سیاق میں یہ کوشش یقیناََ جنوبی ایشیا کے ناداروں۔ مفلسوں۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے چہروں پر ہلکی سی مسکراہٹ لے آئے گی۔ یہاں بھی خلق خدا کی دُعا ہوگی کہ یہ فوجی مشقیں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے پُر امن تصفیے کی بنیاد بن جائیں۔
آئیے اب آپ میرے ساتھ کراچی یونیورسٹی کے آرٹس آڈیٹوریم میں چلیں۔ یہ شگفتن گل ہائے ناز کا لمحہ ہے۔ حجاب اندر حجاب طالبات۔ ہمہ تن گوش طلبہ۔ پُر جوش اساتذہ۔ موضوع ہے۔ ’’علامہ اقبال فکری اور عصری تناظر‘‘۔ عام تاثر تو یہ ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں بانجھ ہوگئی ہیں۔ سیاست میں اُلجھی ہوئی ہیں۔ ایک دَور تھا کہ فکری تحریکیں جامعات سے ہی چلتی تھیں۔ معاشرے میں تبدیلیاں ان ہی تحریکوں سے رُونما ہوتی تھیں۔ یونیورسٹیاں قیادت کی نرسریاں تھیں۔ یونینیں مستقبل کے لیڈر پیدا کرتی تھیں۔ انہیں بولنا۔ سمجھنا فیصلے کرنا سکھاتی تھیں۔ یونینوں پر پابندی لگانے والی قومیں یہ نرسریاں یہ گملے اٹھاکر لے گئی ہیں۔ امریکہ میں تھنک ٹینکوں کو کہا جاتا ہے ۔’یونیورسٹیاں طالب علموں کے بغیر‘۔میں پاکستان میں کہتا ہوں کہ ہماری یونیورسٹیاں تھنک ٹینک بن سکتی ہیں۔ طالب علموں کے ساتھ۔ اور یہ زیادہ طاقت ور ہوں گی زیادہ توانا۔ ہمارا مستقبل یہاں پرورش پارہا ہے۔ کتابیں ہاتھوں میں اٹھائے یا کمر پر بیگ لٹکائے پاکستانی نوجوان۔ بیٹے بیٹیاں ہمیں ایک مضبوط اور مستحکم مستقبل کی بشارت دیتے ہیں۔
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کرے
ہم اس وقت جس خلفشار سے گزر رہے ہیں اس کی بنیاد فکر کا قحط ہے۔ حکمرانی بھی کسی فلسفے کے بغیر ہے سیاست بھی کسی فکری نظام سے عاری ہے۔ ایسے میں اقبال سے رجوع بہت ضروری ہے۔ اقبال صرف ایک شاعر ہی نہیں۔ ایک فلسفی بھی ہیں۔ ماہر نفسیات بھی۔ اور اپنے عہد کی نبض پر انگلیاں بھی رکھتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ ایک عرصے سے اقبالیات کے سمندر میں غواصی کررہے ہیں۔ صدف اور گہر تلاش کرکے نئی نسل کے حوالے کررہے ہیں۔ دھیمے لہجے میں ان کی گہری گفتگو ایک نعمت غیر مترقبہ ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ شعبۂ اُردو کی مسند نشیں پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس کے چہرے پر سرخی مچل رہی ہے۔ کیوں نہ ہو۔ آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ زیادہ تعداد بیٹیوں کی ہے جن کے سر ڈھکے ہیں۔ مگر ذہن کھلے ہیں۔بہت غور سے سنتی ہیں۔ لیکن جب مقرر اپنی بات کو ضرورت سے زیادہ طول دیتا ہے تو وہ تالیاں بجاکر اسے مائیک چھوڑنے کا احساس بھی دلاتی ہیں۔ بعض اساتذہ یہ اشارہ سمجھ جاتے ہیں۔ بعض اسے ادائے تحسین سمجھ کر اپنی بات کو اور بڑھادیتے ہیں۔ ایک طویل عرصے بعد مجھے فلسفیانہ اصطلاحات سننے کا اتفاق ہورہا ہے۔ کمال کررہے ہیں ڈاکٹر عبدالوہاب سوری۔ فکر کی جدید و قدیم اصطلاحات کا دَور حاضر پر اطلاق کررہے ہیں اور ایسے کہ ہر جملے پر سامعین بے ساختہ تالیاں بجاتے ہیں۔ انتہائی مشکل مفہوم۔ معروضی نکات۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ بیان کررہے ہیں۔ ہال میں بیٹھی تینوں نسلیں قائل ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم خیال کی تفہیم نہیں کرتے۔ اسکی تجسیم کرتے ہیں۔ پھر اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ خیالی اور ذات میں تفریق نہیں کرتے۔ مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اقبال کا نور بصیرت عام ہورہا ہے۔ ڈاکٹر راشد حمید کہتے ہیں میری مادری زبان تو اُردو نہیں ہے۔ لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ میرے بچوں کی مادری زبان اُردو ہو۔ یہ رمز کچھ توقف کے بعد سامعین تک پہنچ رہی ہے۔ ڈاکٹر خالد امین جواں سال استاد ہیں۔ ان کی علامہ اقبال اور علامہ محمد اسد کے فکری ارتباط پر تحقیق بھی دلچسپ ہے۔ اور انداز بیاں بھی۔ڈاکٹر انصار احمد۔ ڈاکٹر افتخار شفیع۔ ڈاکٹر شہلا سلیم نوری۔ امریکہ سے آئی ہوئی صدف اکبانی سب کی باتیں دل میں اُتر رہی ہیں۔مسئلہ وقت کا ہوجاتا ہے۔ وقت منتظمین کی گرفت میں نہیں رہتا۔ پھر مقالہ نگاروں سے درخواست کی جاتی ہے کہ بات مختصر کرلیں۔ مقالات بعد میں مجلّے میں چھپ جائیں گے۔ پروفیسر حمزہ فاروقی جیسے جیّد حصرات کے تفصیلی لیکچر الگ سے ہونے چاہئیں۔ اپنی عمریں تحقیق اور تخلیق کی نذر کرنے والے اساتذہ کو ہمیں پورے غور اور توجہ سے سننا چاہئے۔
میرے مقالے کا عنوان ہے ۔ ’اقبال کی فکری روایت ا ور دین ملّا‘۔ اپنی تعریف تو کرتے اچھا نہیں لگتا۔ دیکھیں شروع میں بھی کتنی تالیاں بج رہی ہیں۔ اور آخر میں بھی۔ رئیس کلیہ فنون و سماجی علوم پروفیسر محمد احمد قادری کے افتتاحی اور اختتامی خطبات بہت ہی برجستہ۔ فی البدیہہ۔ مگر بہت پُر مغز بہت ہی بر وقت۔ میری تو یونیورسٹیوں سے مایوسی دور ہورہی ہے۔ معلوم نہیں آپ کے محسوسات کیا ہیں۔ہم یہاں اکیسویں صدی کے اقبال سے روشناس ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی اسی پہلو پر زور دے رہے ہیں کہ اقبال کی بیسویں صدی کی تشریح کرنے والوں کو اب نوجوان نہیں سنتے۔ بات یہ ہونی چاہئے کہ اکیسویں صدی میں مسلمانوں کو مرد متحرک بنانے کے لئے اقبال کیا پیغام دیتا ہے۔
ہم اپنی کشت ویراں سے نا اُمید نہیں ہیں۔ ذرا نم کی ضرورت ہے۔ اور یہ یونیورسٹیاں فراہم کررہی ہیں ۔ یونیورسٹیوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی شروع کردی ہیں۔ کیا واقعی یہ معجزہ رُونما ہورہا ہے۔ آپ بتائیں کہ آپ کا کیا خیال ہے۔؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین