• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پُرسکون زندگی کے پانچ اصول

دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں، ایک کامیاب اور دوسرے ناکام۔ کامیاب لوگ ناکام لوگوں کو اپنی کامیابی کی وجوہات اور طریقے بتاتے ہیں اور ناکام لوگ انہیں سچ سمجھ کر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ناکام ہی رہتے ہیں۔ سیلف ہیلپ کی کتابیں اِس ضمن میں بہت دلچسپ ہیں، ان میں آپ کو بارہ مسالے کی چاٹ مل جاتی ہے، محنت سے لے کر قسمت تک کامیابی یا ناکامی کی ہر وجہ ِان میں بیان کر دی جاتی ہے اور پھر ناکام لوگوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ناکامی کی وجہ تلاش کرکے اسے دور کر لیں ۔جیسے کہ یہ بہت ہی آسان کام ہو۔ سیمیناروں میں کامیاب زندگی کا گُر بتانے والے گرو بھی اسی قسم کی دل لبھانے والی باتیں کرتے ہیں، جیسے اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کامیاب لوگوں کی عادتیں اپنا لیں ،محنت کریں، لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں، اپنے اندر عاجزی پیدا کریں، وقت کی پابندی کریں، اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں وغیرہ وغیرہ۔ لطیفہ مگر یہ ہے کہ اپنے ہاں کوئی کامیاب آدمی ایسا نہیں جس کی گردن میں سریا نہ ہو اور عاجز شخص کو ہم لوگ بیوقوف سمجھتے ہیں کیونکہ ہمیں یہ بات ہضم ہی نہیں ہو سکتی کہ کوئی شخص خلوص نیت اور بلا کسی مفاد کے خوش اخلاق ہو سکتا ہے چنانچہ یا تو وہ بہت کایاں ہوگا یا بالکل ہی معصوم ۔کامیاب زندگی کی ضمانت تو دینا مشکل ہے البتہ پر سکون زندگی گزارنے کے لئے چند باتیں پلے باندھ لیں، خدا نے چاہا تو آپ کی زندگی پُرسکون ہو جائے باقی دنیا جائے جہنم میں۔
انکار کرنے کی عادت اپنا لیں۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے مجھے کسی تقریب میں شرکت کے لئے ایک صاحب کا فون آیا، تقریب میں مجھے تقریر کرنا تھی، موضوع بھی میری پسند کا تھا مگر جس شخص نے مجھے دعوت دی تھی وہ مجھے پسند نہیں تھا، اس کے اصرار پر البتہ میں نے نیم دلی سے آنے کی ہامی بھر لی، اندر سے میں راضی نہیں تھا۔ جس روز تقریب تھی اس روز اُس شخص کے فون اور میسج آئے مگر میں نے جواب نہیں دیا اور یوں خود کو تقریب میں جانے سے بچا لیا۔ کچھ عرصے بعد جب میں نے اپنا ......’’کڑا احتساب‘‘ کیا تو خود پرملامت کی، رو پیٹ کر اگر میں نے اسے کہہ ہی دیا تھا کہ میں کوشش کروں گا کہ پہنچ جاؤں تو پھر مجھے یہ کوشش ضرور کرنی چاہئے تھی اور اگر مجھے نہیں جانا تھا تو میں شائستہ طریقے سے انکار کردیتا۔ لیکن یہ دونوں باتیں آسان نہیں۔ ہمارے معاشرے میں کسی بات سے انکار کرنا اِس بات سے زیادہ معیوب سمجھا جاتا ہے کہ کوئی شخص ہامی بھرنے کے باوجود کیوں نہیں آیا۔ منہ پر انکار کرنے والا شخص منہ پھٹ، بدتمیز، خود سر اور مغرور سمجھا جاتا ہے اور چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجا کر جھوٹا وعدہ کرنے والے کو لوگ عاجز اور خوش اخلاق سمجھتے ہیں۔ اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ ان دونوں میں سے کس بات کا انتخاب کرتے ہیں۔ انکار کی عادت آپ کو بہت سی بدعتوں سے بچا سکتی ہے، آپ وعدہ خلافی کے مرتکب نہیں ہوتے، ایک مرتبہ کا انکار باقی زندگی کا سکون ہے، لوگوں کو بھی علم ہو جاتا ہے کہ آپ زبان کے پکے ہیں۔ ہاں کا مطلب ہاں ،ناں کا مطلب ناں۔
توہمات، فریب اور مغالطوں کی دنیا سے باہر نکلیں۔اپنے ہاں لوگوں کو پہلی نظر میں پیار ہوتا ہے، ایک ہفتے میں شادی ہوتی اور تیسرے ہفتے اُن پر آشکار ہوجا تا ہے کہ جس لڑکی کو وہ حسینہ عالم سمجھتے تھے اُس سے زیادہ خوبصورت لڑکی تو چار گھر چھوڑ کر دائیں ہاتھ والی گلی میں رہتی تھی جس پر کبھی نظر ہی نہیں پڑی۔وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان کا دماغ اسے وہی دکھاتا ہے جو وہ دیکھنا چاہتا ہے، اگر آپ delusionکا شکار ہو ں تو ایسی صورت میں آپ کی نظروں کے آگے پردہ آ جاتاہے اور آپ سچائی اور حقیقی تصویر تک پہنچ ہی نہیں پاتے، اپنے ہاں تو ویسے بھی سچائی جاننے کا رواج ختم ہو چکا ہے، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس delusionکا شکار ہیں اور ہر وقت مغالطوں کی دنیا میں ہی رہتے ہیں ۔اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے فیصلے ایک ایسی دنیا میں رہتے ہوئے کرتا ہے جو حقیقت سے دور ہوتی ہے اور جب ان فیصلوں کا نتیجہ امید کے بر خلاف آتا ہے تو اسے یقین نہیں آتا کہ یہ کیسے ہوگیا۔ہمارے ہاں لا تعداد عورتیں تمام عمر اس وہم میں گزار دیتی ہیں کہ مرد کے سہارے کے بغیر وہ معاشرے میں کچھ نہیں کر پائیں گے، ان کے خیال میں مرد انہیں شادی کی صورت میں تحفظ فراہم کرے گا جبکہ حقیقت میں اِس نام نہاد تحفظ کی قیمت وہ روزانہ اذیت بھری زندگی کاٹ کر ادا کرتی ہیں اور بیس تیس برس بعد اسی اذیت میں فوت ہو جاتی ہیں۔ تحفظ ایک مغالطہ تھا، اذیت ناک زندگی حقیقت تھی۔
اپنے گرد فضول لوگوں کا جمگھٹا نہ لگائیں۔وقت کم ہے اور زندگی میں مقابلہ سخت۔ ناکارہ، مطلبی، خود غرض، لالچی اور مفاد پرست لوگوں کو پہچانیں ۔اپنے ملنے جلنے والوں کی ایک فہرست بنائیں جن میں آپ کے دوست احباب، رشتہ دار، دفتر میں کام کرنے والے، ہمسائے، جان پہچان کے لوگ شامل ہوں اور پھر اُس فہرست میں ان تمام لوگوں کو گریڈ دیں جیسے بچوں کو امتحانا ت میں دیا جاتا ہے، اے پلس، اے، بی پلس۔ شاندار، مخلص، مفید اور محبت کرنے والے لوگوں کو اے پلس دیں اور اسی طرح فضول لوگو ں کو نیچے لے آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آپ خود غرض بن جائیںاور’’کام کے بندوں‘‘ کو اپنی فہرست میں شامل کرکے باقیوں کو نکال باہر کریں۔
اگر ان میں سے کسی کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے تو ضرور کریں مگر پہلے اِن سے اپنا بچاؤ کر لیں ۔جس شخص کے بارے میں ایک مرتبہ آپ کو ذاتی تجربہ ہو جائے کہ وہ دھوکے باز یا منافق ہے اسے دوسرا چانس نہ دیں، عموما ایسے لوگ اپنی فطرت نہیں بدلتے، آپ بھی اپنی روش نہ بدلیں۔فہرست بنانے کے بعد آ پ کو اندازہ ہوگا کہ جن لوگوں کو آپ نے ڈی گریڈ دیا ہے وہ آپ کے وقت کا پچاس فیصد ضائع کر رہے ہیں، ان سے جان چھڑائیں، قطع تعلق نہ کریں ،بس اپنے وقت کا ضیاع کم کردیں، لیکن اُن لوگوں سے بات نہ کریں جو آپ کا احترام نہیں کرتے اور اس کے مقابلے میں اے گریڈ والوں کے ساتھ وقت گزاریں۔کام میں رکاوٹ ڈالنے والی چیزوں کو زندگی سے ختم کریں۔ہم میں سے وہ لوگ جو بہت چوکس اورشوخے ہیں، جوروزانہ صبح ترو تازہ اٹھ کر نئے ولولے کے ساتھ دن کا آغاز کر تے ہیں ،اُن کی زندگی بھی اکثر پُرسکون نہیں ہوتی، سُست اور نا امید لوگوں کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارا دن اُن چیزوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے جو distractionکا باعث بنتی ہیں اور یوں ہم زندگی میں اپنے متعین کردہ ہدف سے دھیرے دھیرے دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا۔ ایسی تمام چیزوں کی فہرست بنا کر ان کو بھی کوڑے دان میں پھینک دیں، کافی افاقہ ہوگا۔
سنہری اصول۔اگر آپ پاکستان میں پُر سکون رہنا چاہتے ہیں تو گمنامی کی زندگی بسر کریں، کسی ہول سیل مارکیٹ میں موٹروں کی دکان کھول لیں، کسی چھوٹے سے شہر میں آٹے کی مل لگا لیں یا کاغذ اور گتے کا کام شروع کردیں۔ پیسے کمائیں مگر کوئی برینڈ نیم نہ ہو، گھر میں بیٹھ کر ٹاک شو دیکھیں، لوگوں کو گالیاں دیں مگر اپنا کوئی نظریہ نہ ہو، جو کوئی ملے اس سے ملک کے حالات پر تبصرہ کرکے ٹسوے بہائیں مگر خود آٹے کی مل کا ٹیکس بچائیں، عیاشی کریں، کوئی نہیں پوچھے گا۔ جونہی آپ مشہور ہوئے، نظریاتی طور پر کسی کا ساتھ دیا،نیک نیتی سے کوئی موقف اپنایا جو کسی طاقتور کو پسند نہیں آیا تو اس کے بعد آپ کو اِس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ اگر آپ یہ قیمت چکانے کو تیار ہیں تو بسم اللہ، نہیں تو فورا یہ کالم پڑھنے کے بعد برانڈ رتھ روڈ جائیں اور موٹروں کی کسی دکان کا سودا کرکے زندگی میں چین ہی چین لکھیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین