• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ کے ہاتھوں تو نیولبرل اکنامک آرڈر تلپٹ ہوا جاتا ہے، لیکن ہمارے نابینا حافظ نیولبرل اکنامکس یا آزاد منڈی کے مغنی ہونہار مفتاح اسماعیل نے تو کمال ہی کر دکھایا ہے۔ کارپوریٹ سرمایے کے اس منیجر نے ایسے ہاتھ دکھائے ہیں کہ مارکیٹ کے بڑے کھلاڑی بھی خوش اور متعین آمدنی والے مڈل کلاسیئے بھی شاداں۔ ٹیکسوں میں رعایتوں کی بہار اور ایسے وقت میں جب انتخابات سر پر ہیں اور حکومت کے فقط 32 روز باقی۔ جاری غیرپیداواری اخراجات (مثلاً، قرض کی ادائیگی پر 1620ارب روپے، دفاع و دیگر غیرپیداواری (کرنٹ) اخراجات (1100+1458 ارب روپے) کے بعد پبلک سیکٹر میں ترقیاتی پروگرام کے لیے فقط 1030 ارب روپے بچ رہیں گے۔ ہوشیاری دیکھیے کہ اگلی حکومت کے پاس ترقیاتی کاموں کے لیے صرف 100 ارب روپے ہوں گے۔ اور اس کا ہنی مون پرائی برات میں عبداللہ دیوانے کا سا ہوگا۔ اس پر اپوزیشن نے تو آپے سے باہر ہونا ہی تھا۔ لیکن حزبِ اختلاف کی شکایات معاشی کم اور سیاسی زیادہ تھیں۔ وہ بیچارے مفتاح کی وزارت کے سطحی مسئلے میں الجھ کر رہ گئے اور تحریکِ انصاف کے کلچرل رول ماڈل مراد سعید نے وہ طوفانِ بدتمیزی بپا کیا کہ ایوان کا تقدس پھر سے ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ ایسے میں مسلم لیگ ن کے بدزبانی میں لاثانی عابد شیر علی کہاں چپ سادھنے والے تھے۔ لیکن اگر وہ بیچ میں نہ پڑتے تو شاید چھٹے بجٹ کے مصنف کو چھٹی کا دودھ تو یاد آنا ہی تھا، انھیں شاید اسٹریچر پہ اسپتال لے جانا پڑتا۔ بھئی اپنی حکومت کا گزشتہ برس کا تخمینہ تو جاتی حکومت کو پیش کرنا ہی تھا اور ٹیکسوں اور جاری اخراجات کے معاملات عبوری حکومت پر بھی نہیں چھوڑے جا سکتے تھے۔ ہاتھ کی صفائی بس یہ دکھائی گئی کہ ترقیاتی بجٹ کا 90 فیصد جاری اسکیموں کے لیے وقف کر دیا گیا۔ اور اگلی حکومت کے لیے چھوڑا بھی تو ٹھینگا!!
یقیناًخوش آئند پہلو تو یہ ہے کہ مجموعی قومی نمو (GDP) 5.8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن پرانی پریشانی وہیں کی وہیں ہے۔ بجٹ خسارہ یعنی آمدن و خرچ کا فرق تقریباً وہیں ہے جہاں تھا یعنی 5.5 فیصد۔ فکر کی بات تجارتی خسارہ ہے جو تقریباً دوگنا ہے اور کل کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک فیصد (2015) سے بڑھ کر تقریبا 5 فیصد ہو گیا ہے، جس کے باعث ہمارے زرِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور نادہندگی سے بچنے کے لیے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے (آئین میں دی گئی (شق 62/63) کے صداقت و امانت کے پیمانوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے) ایمنسٹی اسکیم جاری کی گئی ہے۔ لیکن، حالات کی ستم ظریفی کہیے یا پھر دست نگر معیشت کا دائمی وصف کہ اگلی حکومت پھر سے عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) اور ورلڈ بنک کے در پہ پہلے سے بھی بڑا کاسۂ گدائی لے کر حاضر ہوگی۔ پہلے ہی قرض کا پھندہ اور تنگ ہوا جاتا ہے اور ترقی کے شریف ماڈل کے تحت داخلی و خارجی قرضہ خیر سے 60فیصد بڑھ کر 14کھرب سے بڑھ کر 23 کھرب ہو چلا ہے۔ یعنی جی ڈی پی کا 66 فیصد سے زائد۔ البتہ نواز شریف نے 12,230 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کا انتظام کر کے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اور آئندہ برس تک لوڈ شیڈنگ یقیناًختم کی جا سکے گی۔ لیکن کوئی مفتاح بھائی سے پوچھے کہ ایک ہزار ارب روپے کا سرکلر قرضہ اگلی حکومت کیسے ادا کرے گی، عوام کو لوہے کے چنے چبوا کر!
ہمارے نومولود وزیرِ خزانہ نے ٹیکسوں میں چھوٹ کی خوب دھوم مچائی ہے۔ لیکن کوئی اُن سے پوچھے کہ ٹیکس کہاں سے آئیں گے اور ان کے لیے کوئی ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس دائرے کو بڑھانے کے لیے کوئی ٹھوس اصلاحات یا اقدامات کا کہیں دور دور تک نشان نہیں۔ سہارا اگر اُنھوں نے لیا بھی ہے تو عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا کر۔ اب تمام پیٹرولیم مصنوعات پر موجودہ 3/10 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 30 روپے فی لیٹر کیا جا رہا ہے اور یوں 300 ارب روپے کے محاصل حاصل کیے جائیں گے۔ معلومات اور ابلاغ پر ٹیکسوں کا اضافہ 786 فیصد ہے۔ اسی طرح ’’دوسرے محاصل‘‘ کی مد میں اضافہ 114 فیصد ہوگا۔ جبکہ ٹیکسوں میں چھوٹ 541 ارب روپے دی گئی ہے۔ بونس شیئرز ہوں یا سپرٹیکس ختم یا بتدریج ختم کیے جا رہے ہیں۔ کسی بھی بجٹ کو دیکھنے کے لیے عوام کے نقطۂ نظر سے بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ کن لوگوں پہ ٹیکس لگایا جا رہا ہے اور کہاں اور کن لوگوں پہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس اُصول پر یہ امرا اور سرمایہ داروں کا بجٹ ہے جس میں ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ بالواسطہ اور براہِ راست عوام پر ہے اور اخراجات غیرپیداواری شعبوں کی بھینٹ کیے گئے ہیں۔ ہماری مقتدرہ پر کل 2,558ارب روپے خرچ کیے جائیں گے، جبکہ ترقیاتی بجٹ آخر میں ایک تہائی سے بھی کم رہ جائے گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ بھی فقط 10 فیصد بڑھائی گئی ہے۔ جبکہ کم از کم اُجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ اُوپر سے روپیہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں گرتا جا رہا ہے اور اُس کی قوت خرید کم ہونے سے بچتوں اور خرچوں پہ بڑا دباؤ پڑنے والا ہے۔ بھلا جی ڈی پی کے ناطے 16فیصد سرمایہ کاری، 12فیصد شرح بچت اور کم شرح ٹیکس کے ساتھ 21کروڑ لوگوں کے ملک نے کہاں چلنا ہے۔ اوپر سے ہمیں چوتھی اور پانچویں پیڑھی کی جنگ بازی کی فکر لاحق ہے اور کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ایک چوتھی پیڑھی کا صنعتی انقلاب بھی برپا ہو چکا ہے۔
صوبوں کے پاس البتہ کافی پیسے ہوں گے یعنی 2,590ارب روپے۔ اگر ماضی کے صوبائی بجٹ دیکھے جائیں تو اس بار بھی غریبوں، محنت کشوں کو کچھ زیادہ ملنے والا نہیں۔ خواندگی کی شرح ہو یا صحت کا انتظام، پینے کا صاف پانی ہو یا خوراک کی فراہمی، غریب عوام کی حالت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی۔ اب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم اور استحصالی نظام کے ہاتھوں دو پاکستان اپنی انتہاؤں پہ نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں دولت مندوں اور محنت کشوں اور غریبوں کی دو انتہائی مختلف دُنیائیں وجود میں آ گئی ہیں اور یہ فرق ہے کہ بڑھتا جاتا ہے۔ ایک طرف اُمرا اور افسروں کی عالمی معیار کی پُرآسائش ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں اور دوسری جانب غربت اور استحصال کے ماروں کا انبوہِ کثیر۔ عجیب الخلقت سرمایہ داری و زمینداری (Hybrid Capitalism) سے نہ تو ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ عجیب الخلقت جنگ (Hybrid Warfare) لڑی جا سکتی ہے۔ بھئی! اگر شمالی و جنوبی کوریا حالتِ جنگ ختم کر کے بات چیت پہ راضی ہو سکتے ہیں تو برصغیر کے ممالک ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ آخر کب تک ہم جنگی ذہنیت اور تصادم کی راہ اپنائے رکھیں گے۔ بجائے اس کے کہ چوتھی نسل کے صنعتی انقلاب اور پائیدار و شراکتی ترقی اور علاقائی امن کا ماڈل اختیار کیا جائے، ہمارے تزویراتی ماہرین ہوائی خدشات کو بنیاد بنا کر جانے کیسی خوفناک فسطائی اور عسکریت پسند ریاست بنانے اور شہری معاشرے اور انسانی ترقی کا گلا گھونٹنے پہ مائل نظر آتے ہیں۔ ایسے میں میدان میں اُترے ہیں ہمارے کپتان جو فقط دو کی بجائے ایک پاکستان بنانے کا مطلق العنان نعرہ لے کر آج لاہور میں جلسہ سجائیں گے۔ کیا وہ غریبوں، محکوموں اور استحصال زدہ لوگوں کی نجات کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں یا پھر ایک ایسی مطلق العنان (Totalitarian) ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں، جیسی کہ ہم یورپ میں فسطائیت کے زمانے میں دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان ایک کثیر الطبقاتی، کثیر النسلیاتی، کثیر المذاہب اور کثیر الخیال لوگوں کا ملک ہے۔ یہاں قومی اتحاد و اتفاق کثرت ہی کی بنیاد پر ہو سکتا ہے۔ اور یہ پائیدار مملکت صرف اور صرف عوامی شراکت داری، جمہوریت، انسانی برابری، وفاقیت اور پائیدار ترقی کا شراکتی ماڈل اختیار کر کے ہی بن سکتی ہے ۔ جنگ و جدل کی بجائے، امن و آشتی، فرقہ واریت اور عصبیت پسندی کی جگہ عوام دوستی، عوامی بدحالی کی بجائے انسانی ترقی و خوشحالی ۔ ہمارے کارپوریٹ دانشور نے تو سرمایہ داروں کا بجٹ پیش کر دیا۔ دیکھتے ہیں پیپلز پارٹی کا عوامی بجٹ بھی کہیں ہے کہ نہیں۔ اور رہے ہمارے کپتان، دیکھتے ہیں وہ ہمیں ایک مطلق العنان پاکستان کا خوفناک منظر دکھاتے ہیں یا پھر ایک عوامی جمہوری وفاقی پاکستان کا جہاں 95 فیصد لوگوں کے لیے زندگی راحت کا باعث بن سکے۔ صدر ٹرمپ کے ہاتھوں تو نیولبرل اکنامک آرڈر تلپٹ ہوا جاتا ہے، لیکن ہمارے نابینا حافظ نیولبرل اکنامکس یا آزاد منڈی کے مغنی ہو نہار مفتاح اسماعیل نے تو کمال کر ہی دیا ہے، دیکھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے عمران خان اور بلاول بھٹو کیا گل کھلاتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین