• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت نے مسلسل چھٹا بجٹ پیش کیا ہے لیکن بجٹ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ملکی معاشی صورت حال خوش آئند نظر نہیں آتی ۔ حکومت پاکستان کی مجموعی آمدنی میں سے ہمیشہ کی طرح بجٹ کا زیادہ تر حصہ قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے لئے مختص ہے ۔باقی جو بچے گا ، وہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو چلا جائے گا ۔ اس کے بعد بجٹ میں کچھ نہیں ہے ۔ آمدنی یہیں ختم ہو جاتی ہے ۔ وفاقی حکومت باقی اپنے تمام اخراجات اس بجٹ سے پورے کرے گی ، جو بجٹ خسارے کی مد میں آتے ہیں ۔ ان اخراجات میں غیر ترقیاتی اور ترقیاتی اخراجات شامل ہیں ، جو قرضوں سے پورے کیے جائیں گے ۔ ہر سال قرضے بڑھتے جاتے ہیں اور قرضوں کی ادائیگی میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ یوں بجٹ خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے ، جس پر وفاقی حکومت نے خود کو چلانا ہوتا ہے اور پھر پہلے سے زیادہ قرضے لئے جاتے ہیں ۔ بس یہی پاکستان کے بجٹ کا مختصر تجزیہ ہے ۔
مسلسل بڑھتے ہوئے قرضوں والی معیشت کو چلانے والی حکومتیں اور ان کے حامی ماہرین معاشیات اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں سے ملکی معیشت کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ ایک بھوکہ انسان بھی اپنے جسم میں نقاہت کا سبب کھانا نہ ملنے کو نہیں بلکہ اپنی کمزور قوت ارادی کو قرار دیتا ہے ۔ بجٹ سے قبل وفاقی حکومت نے رواں مالی سال 2017-18 کا جو اقتصادی سروے جاری کیا ہے ، اس میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مہنگائی ، بیرونی قرضوں ، بے روزگاری اور تجارتی و مالی خسارے میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے باوجود بھی یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملکی معیشت نے ترقی کی ہے ۔ لہذا اس حکومت کی معاشی کارکردگی پر بحث محض خود کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھانے کے مترادف ہو گی ۔
صرف موجودہ حکومت ہی ایسی نہیں ہے ، جسے ملک کی معیشت کو خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا ئے بلکہ 1980 ء کے عشرے کی ابتدا سے اب تک تمام حکومتیں اس طرح کا بجٹ بنانے پر مجبور ہیں ، جس میں عوام کو ریلیف دینے کی گنجائش بہت محدود رہی ہے اور یہ گنجائش وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے ۔ کسی حکومت کی کارکردگی کو جاننا ہو تو صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے قرضے کتنے کم لئے ۔ موجودہ حکومت نے تو قرضے لینے کے تمام ریکارڈز ہی توڑ دیئے ہیں۔ جہاں تک جی ڈی پی اور شرح نمو میں اضافے کا تعلق ہے ، اس میں حکومت کی اعلیٰ یا ناقص کارکردگی کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ انتہائی ناقص حکمرانی میں بھی بعض اوقات ملک کی معیشت اجتماعی طور پر ترقی کرتی ہے لیکن اس کے اسباب اور عوامل کچھ اور ہوتے ہیں ۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی قرضے بڑھ رہے ہیں ، بے روزگاری ، مہنگائی اور غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ بڑے قومی ادارے معاشی بوجھ بن گئے ہیں اور سبسڈیز پر چل رہے ہیں ۔ تجارتی خسارہ کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کی انتہائی پسماندہ اور غریب معیشتوں میں ہوتا ہے ۔ حکومتی بجٹ کا خسارہ بھی سال بہ سال بڑھتا جا رہا ہے ۔صنعتی شعبے کی کارکردگی صرف کاغذوں پر ہے کیونکہ چین کی صنعتی بالادستی کے بعد پاکستانی صنعتوں میں نمو اور مقابلے کی صلاحیت تقریباً ختم ہو گئی ہے ۔ پاکستانی زراعت ایک ایسا شعبہ ہے ، جو پاکستان کو ’’ فوڈ اینڈ اکنامک پاور ‘‘ بنا سکتا ہے لیکن اس شعبے پر کوئی توجہ نہ دی گئی اور دنیا کی جدید زراعت یہاں رائج ہی نہیں ہوئی ۔ اس کے باوجود جی ڈی پی اور شرح نمو میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس طرح کے مرحلے پہلے بھی آتے ہیں اور یہ سب کچھ عارضی ہے ۔پاکستان بہت بری طرح معاشی بحران سے دوچار ہے اور اس کا اندازہ عام آدمی کی زندگیوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔
پاکستان وسائل کے اعتبار سے دنیا کے ان چند ملکوں میں شامل ہے ، جس میں اقتصادی طاقت بننے کی قدرتی صلاحیت موجود ہے لیکن پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسے شروع دن سے سیکورٹی ایشوز میں الجھا دیا گیا ۔ حالیہ اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے دوران دہشت گردی کی وجہ سے 2 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا جبکہ گزشتہ 17 سال کے دوران 126.79 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا ہے ۔ جن لوگوں نے نقصان کا یہ تخمینہ لگایا ہے ، انہوں نے شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت جو ترقی کر سکتی تھی ، وہ زرمبادلہ کی شکل میں اس نقصان سے بھی 100 گنا زیادہ ہے ۔ اگر اس نقصان کو بھی شامل کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا پر معاشی بالادستی حاصل کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ملک اب صرف مقروض معیشت کا ملک بن گیا ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی صرف 2001 ء کے نائن الیون کے واقعہ سے شروع نہیں ہوئی بلکہ 1980 ء کے عشرے کی ابتدا سے دہشت گردی ہو رہی ہے ۔ اس کے بعد پاکستان صرف سیکورٹی ایشوز میں الجھا رہا اور آج تک الجھا ہوا ہے ۔ اس سے پہلے پاکستان سیٹو ( SEATO ) اور سینٹو ( CENTO ) کا رکن رہا اور امریکی اور اس کے سرمایہ دار بلاک کے لئے فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طو رپر کام کرتا رہا ۔ اس وقت سے ہی پاکستان ایک ترقی یافتہ فلاحی ریاست کی بجائے ایک سیکورٹی ریاست بنا رہا اور آج دہشت گردی کی وجہ سے ایک سیکورٹی اسٹیٹ ہے ۔ جب تک یہ صورت حال رہے گی ، پاکستان اپنی قدرتی صلاحیت کے مطابق ترقی نہیں کر سکے گا ۔ اگر اس صورت حال سے ملک کو نہیں نکالا گیا تو بجٹ ایسے ہی آتے رہیں گے ، جیسا آیا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین