• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار شعبہ تعلیم خصوصاً میڈیکل ایجوکیشن پر خاصے گرم نظر آئے۔ انہوں نے تمام سرکاری میڈیکل یونیورسٹیوں اور دو دیگر سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے فوری استعفیٰ لے لیا۔بلکہ لاہور کالج یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی کو معطل بھی کردیا۔
دلچسپ اور افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ یہ تمام وائس چانسلرز میرٹ پر نہیں لگے ہوئے تھے بلکہ ہر کسی کے پیچھے کوئی سفارش اور خفیہ ہاتھ تھا۔ ویسے یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ان وائس چانسلرز کا انتخاب بھی سرچ کمیٹیوں نے کیا تھا۔ جس زمانے میں لوگ سرچ کمیٹیوں کے بغیر خودبخود اپنی باری اور سنیارٹی پر ترقی پاتے تھے تب اس قسم کے گھپلے کبھی سامنے نہیں آتے تھے۔ یہ وہ اساتذہ ہیں جنہوں نے آنے والی نسلوں کی تربیت کرنی ہے اور یہ خود دو نمبری کرکے میرٹ سے ہٹ کر اور دوسروں کا حق مار کر وائس چانسلرز اور پرنسپل لگے ہوئے تھے۔ ابھی بھی کچھ طاقت ور میرٹ سے ہٹ کر اپنی سیٹوں پر براجمان ہیں ۔ دوسری جانب پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا یہ دعویٰ کہ پنجاب میں کوئی بھی کام میرٹ سے ہٹ کر نہیںکیا گیا۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ شاید ہی کوئی کام میرٹ پر ہواہو۔ آپ پولیس کے محکمہ کو ہی دیکھ لیں سب سے زیادہ تقرریاں میرٹ سے ہٹ کر پولیس کے محکمے میں ہوتی ہیں۔ ذاتی پسند اور ناپسند اور کون آنے والے الیکشن میں پولیس آفیسر صحیح ’’خدمت‘‘ سرانجام دے گا، اس کو لگایا جا رہا ہے اور شاید اب بھی ایساہو۔ ہر محکمے میں بیوروکریسی مخصوص مفادات اور سفارش کی بنیاد پر لوگ لگاتی ہے۔ بیوروکریٹس کو حکمرانوں کی مرضی اور ذاتی پسند پر لگایا جاتا ہے۔ ان اساتذہ نے یقیناً اس معاشرے کو نہ تو اچھی اقدار دیں اور نہ خود کوئی اچھی اقدار سیکھیں۔ البتہ نئی نسل کو ضرور یہ سبق دیا ہے کہ ہر کام میرٹ سے ہٹ کرکرو۔ ذرا دیر کو سوچیں کیا یونیورسٹیوں کے اندر اساتذہ اور طلبا کو پتہ نہیں ہوتا، کون سینئر ہے، کس کی سنیارٹی ہے اور کس کا حق ہے کہ وہ وائس چانسلر / پرنسپل بنے، کس کو ڈین لگنا چاہیے۔ جب ڈین اور ہیڈ سفارش پر لگیں گے تو پھر وائس چانسلرز کیوں نہیں؟۔ایک استاد کا کیا خواب ہوتا ہے۔ وہ زندگی کے تیس، چالیس برس ایک تعلیمی ادارے کو دیتا ہے ، محنت کرتا ہےکہ ایک روز اگر میرٹ پر فیصلہ ہوا تو وہ ضرور اس یونیورسٹی/ کالج کا وائس چانسلر/پرنسپل بنے گا۔ مگر حضور والا! یہاں تو یونیورسٹیوں کے اندر جونیئر اساتذہ کو اوپر لایا جاتا ہے، پھر باہر سے بھی اساتذہ/ نان ٹیچرز کو لاکر وی سی اور پرنسپل لگا دیا جاتا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں جس طرح اس حکومت نے اڑائیں شاید کبھی ماضی میں ایسا ہوا ہو۔ ان اساتذہ کو شرم نہیں آتی جو کسی کا حق مار کر کس منہ سے یونیورسٹیوں کے اندر میرٹ، نیکیوں اور اچھے کاموں کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ایک ایسے وی سی صاحب بھی ہیں جو کہ ہر وقت درس اور اسلام کی باتیں کرتے ہیں۔ خود میرٹ سے ہٹ کر سفارش کراکے وی سی بن گئےتھے۔ وہ تو عدلیہ کا بھلا ہو کہ ایسے میرٹ خوروں کو ہٹا دیا۔
ارے بابا کبھی ایک دفعہ تو میرٹ اور سنیارٹی پر لوگوں کو لگا کر دیکھو۔ یقین کریں ان تعلیمی اداروں میں امن اور تعلیمی فضاءبہتر ہو جائےگی۔ آج کیا ہے؟ ہر سرکاری میڈیکل یونیورسٹی، لاہور کالج یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی بغیر مستقل وائس چانسلروں کے چل رہی ہیں۔ کئی یونیورسٹیوں میں پرووائس چانسلرز نہیں، حالانکہ اگر ان تمام یونیورسٹیوں میں پرووائس چانسلرز ہوتے تو خودبخود نظام میرٹ پر چلتا رہتا۔
گزشتہ دنوں چھوٹے میاں صاحب نے کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ کرڈالا اور کہا کہ اگر موقع ملا تو کراچی کو نیویارک بنا دیں گے ۔ اب کوئی میاں صاحب سے پوچھے پنجاب کے کتنے شہراب تک نیویارک بن چکے ہیں۔ نیویارک تو دور کی بات امریکہ کے کسی دیہاتی علاقے کا مقابلہ بھی پاکستان کا کوئی شہر نہیں کرتا۔ ہم تو اپنے شہریوں کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کرسکے۔ کراچی کچر ے کا گودام ہے۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ (اب تو وہ بھی پرانے ہو چکے ہیں) نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ چھ ماہ میں کراچی کا کچرا صاف ہو جائے گا۔ الٹا کراچی مزید گندا ہو گیا۔ آج کراچی کے لوگ پینے والے پانی کے لئے رو اور ترس رہے ہیں۔ پاکستان کا کوئی شہر نیویارک تب ہوگا جب کرپشن نہیں ہوگی، جب حکمران خود لالو کھیت، لیاری اور غریب آباد کا پانی پئیں گے۔
کیا اب لوگ نیو یارک، ہانگ کانگ، لندن، ڈنمارک ،سوئیڈن اور پیرس کے نام پر ووٹ لیا کریں گے۔ لاہور کو پیرس بنانے والے کئی آئے مگر لاہور پیرس نہ بن سکا۔ لاہور کی نہر اور راوی دریا کو ہم سیوریج سے پاک نہ کر سکے اور چلے ہیں کراچی کو نیویارک بنانے۔ لاہور کا ہر حلقہ گندگی کا ڈھیر ہے،فلٹریشن پلانٹس خراب ہیں، آلودہ پانی لوگ پی رہے ہیں۔ کراچی کو چھوڑیں پنجاب کے دور دراز کے علاقوں میں وہی صورتحال ہے جو کراچی کی پسماندہ اور غریب بستیوں کی ہے۔
تیرے ہاتھوں جل اٹھےہم، تیرے ہاتھوں جل بجھے
ہوتے ہوتے آگ اور پانی کا اندازہ ہوا
آنے والے چند برسوں میں پورے ملک میں پانی کا بڑا خوفناک بحران آنے والا ہے اس کا اندازہ نہ تو حکمرانوں کو ہے اور نہ عوام کو۔
اس وقت پورے ملک کی جیلوں میں ہیپاٹائٹس بی /سی، ایڈز اور جلدی امراض کے مریضوں کی بھرمار ہے۔ جیلوں میں جو پانی پینے کے لئے دیا جارہا ہے اس سے پیٹ کے پیچیدہ امراض جنم لے رہے ہیں۔ ذرا حکومت جیلوں کے قیدیوں کا میڈیکل معائنہ تو کرائے تو اتنی خوفناک صورتحال سامنے آئے گی کہ آپ کویقین نہیں آئے گا۔ ابھی تک کئی جیلوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ ہی نصب نہیں کئے گئے۔ انگریز کے دور میں قیدیوں کا باقاعدہ میڈیکل چیک اپ ہوتا تھا۔ اب کوئی بیمار ہے یا مرے، کسی کو کیا؟
لو لیجئے پی آئی اے کی پیپلز یونٹی نے انتخابات جیتنے پر بھارتی گانوں پر وہ ڈانس کیا، کیا کہنے؟کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ انسان اپنی بربادی کے بھی جشن مناتا ہے اور اس کی واضح مثال قومی ایئرلائن کے ورکرز، ایئر ہوسٹس اور دیگر عملے کی وہ ویڈیو ہے جو وائرل ہو چکی ہے جس میں ایک محترم اور محترمہ بھارتی گانے پر پی آئی اے کی تباہی اور نجکاری کا جشن منا رہے ہیں اور بہت سارے دیر تک ڈانس اور رقص کی محفل سجاتے رہے۔
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
ہر فکر دھواں میں اڑاتا چلا گیا
وہ قومی ایئر لائن جو اب تباہ ہو چکی ہے جس کا سالانہ خسارہ 400ارب تک پہنچ چکا ہے، کئی ملکی اوربین الاقوامی روٹ بند ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اربوں روپے سے نیا اسلام آباد ایئر پورٹ بنایا جار ہا ہے جہاں پر ٹوٹے پھوٹے، گندے اور کرائے کے جہاز اتریں گے۔ لاہور سے اسلام آباد کبھی ایک اور کبھی تین فلائٹ بھی جاتی ہیں، ملتان روزانہ کی فلائٹ نہیں، رحیم یار خاں کی لاہور سے روزانہ فلائٹ نہیں، لاہور سے پشاور فلائٹ نہیں۔ کس کس کا رونا روئیں، آئے دن فلائٹس جہازوں کی کمی کی بنا پر کینسل کر دی جاتی ہیں۔ فلائٹوں کا لیٹ ہونا معمول بن چکا ہے۔ جو جہاز فروخت کرکے بھاگ گئے انہیں کچھ نہیں کہاگیا۔ جن ممالک سے جہاز کرائے پر لیتے ہیں ان کو لاکھوں ڈالرز ادا کئے جا رہے ہیں۔ اکانومی کلاس میں ہائی کلاس اور وائی کلاس، پتہ نہیں کون کون سی کلاسیں بنا کر عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ اگر آپ سول ایوی ایشن میں فضائی مسافروں کے حقوق پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ فضائی مسافروں کو کیا کیا سہولتیں حاصل ہیں مگر یہاں کون پوچھتا ہے۔ آج بھی ایئر پورٹ پر وی وی آئی پی اور وی آئی پی کے لئے علیحدہ لائونج اور علیحدہ راستے ہیں۔ جس قوم کے لیڈروں کا یہ حال ہے ان سے کراچی کو نیویارک بنانے کی توقع کرنا لاحاصل ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین