• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں غیر منظم محنت کش طبقہ یعنی کہ بھٹہ مزدور اپنے امتیازی خدوخال کی وجہ سے ریاستی،سیاسی اور سماجی اداروں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ۔بھٹہ مزدوروں کو اس قدر قلیل معاوضہ دیا جاتا ہے کہ وہ بمشکل اپنی روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھ سکتے ہیں۔ان کا سب سے بڑا مسئلہ ایڈوانس یا پیشگی رقم کی ادائیگی کا ہے جو کہ ان کے استحصال کا باعث بن رہاہے حالانکہ جبری مشقت کے خاتمے کے ایکٹ1992ء اور پی ایل ڈی1990اور سپریم کورٹ513ء درشن مسیح فیصلے کے مطابق بھٹہ مزدوروں کو کسی قسم کی پیشگی یا ایڈوانس کی ممانعت کی گئی ہے۔ان قوانین کے ہوتے ہوئے بھی پنجاب حکومت نے 2016ء میں بڑی چالاکی کے ساتھ ایک آرڈینس جاری کردیا جس کے سیکشن 4 کے ذریعے پیشگی کو دوبارہ نافذ کردیا گیا حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ آرڈینس بچوں کی جبری مشقت کے بارے میں تھا اور پیشگی کی شِق کو اس آرڈینس میں شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں تھالیکن جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔پاکستان میں موجو د 105صنعتوںمیں کام کرنے والے منظم مزدوروں کوتو سرمایہ دار ایک ہزار روپے ایڈوانس دینے کو تیار نہیں تو پھر بھٹہ مزدوروں کو ان کے مالکان ایڈوانس دینے پر کیوں بضد ہیں؟اس پیشگی کی ادائیگی کی وجہ سے مالکان ان مزدوروں کا بے حد استحصال کرتے ہیں۔پہلے تو قانونی دستاویز پر دستخط کروا کر آدھی مزدوری دی جاتی ہے اور پھر ان کی مزدوری کو ایڈوانس کے ساتھ مشروط کردیا جاتاہے اور جس کا حساب کتاب بھی بھٹہ مالکان اور جمعدار کرتا ہے ۔یوں کوئی بھی خاندان لاکھوں روپے کی پیشگی کے بوجھ تلے دبتا چلا جاتا ہے وہ جتنی زیادہ محنت کرتا ہے اتنی ہی پیشگی کی رقم بڑھتی جاتی ہے اور یوں مزدوراحساسِ بیگانگی کا شکار ہوجاتا ہے۔پیشگی کی رقم نہ ادا کرنے کی وجہ سے وہ نہ صرف جبری مشقت پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ کام ختم ہونے پر انہیں خاندان سمیت اگلے بھٹے پر بیچ دیا جاتاہے یا پھر حبس بے جا میں رکھ کر ان کے ساتھ غلاموں سے بھی برا سلوک کیا جاتاہے ۔ایڈووکیٹ ایاز جوبھٹہ مزدوروں کی فلاح کے لیے کام کرتے ہیں نے ایسے ہزاروں بھٹہ مزدور دیکھے ہیں جن کے گردے اس ایڈوانس رقم یعنی پیشگی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔زیادہ تر مزدوروں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوتے کیونکہ یہ مزدورجگہ کی بار بار تبدیلی کی وجہ سے کسی اسپتال یایونین کونسل سے پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرواسکتے اور یوں وہ اپنے بنیادی حقوق کی فراہمی سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ بھٹوں پر مزدور اپنے بیوی بچوں سمیت کام کرتے ہیںاور آئی ایل او کی 2013ء کی رپورٹ کے مطابق ان بھٹوں پر کام کرنے والے زیادہ تر بچوں کے جسموں پر زخموں کے نشان ملتے ہیں ۔ان مزدوروں کے سوشل سیکورٹی کارڈ بھی نہیں بنوائے جاتے حالانکہ 1935ء کے فیکٹری ایکٹ کے مطابق بھٹہ مزدور بھی ان 105صنعتوں میں شامل ہیںجن کے لیے سوشل سیکورٹی کا کارڈ قانونی طور پر بنا نا ضروری ہے ۔یہاں پر بھی سوشل سیکورٹی کا عملہ اور بھٹہ مالکان مل کر بہانہ بازی کرتے ہیں۔بھٹہ مالکان یہ جواز دیتے ہیں کہ سوشل سیکورٹی کے عملے کو بار بار کہنے کے باوجود بھی وہ سیکورٹی کارڈجاری نہیں کررہے جبکہ سوشل سیکورٹی کا عملہ یہ جواز پیش کرتا ہے کہ یہ بھٹہ مالک بیس سال کا ڈیفالٹر ہے اس لیے جب تک وہ بیس سالوں کا حساب نہیں دے گا ہم نئے مزدوروں کا اندراج نہیں کریںگے یوں ریاست کے نہ ہونے کی وجہ سے ان مزدوروں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔کیونکہ بھٹہ مزدوروں کی اپنی کوئی املاک نہیں ہوتیں اسی وجہ سے وہ بھٹے پر رہنے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔وہاں ان کی خواتین کے ساتھ ہر قسم کی زیادتی کی جاتی ہے اور ان کی خواتین بے بسی کی تصویر بنے ظلم سہتی رہتی ہیںاگر کوئی عورت ہمت کرکے رپورٹ درج بھی کروادیتی ہے تو کوئی ڈاکٹر ان ظالم بھٹہ مالکان کے خلاف رپورٹ جاری نہیں کرتا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو ان کی مزدوری الگ سے ادا کی جائے اور ان کو بچے کی پیدائش پر وہی مراعات مہیا ہوں جو دوسری 105صنعتوں کے مزدوروں کو حاصل ہیں۔اس سلسلے میں ملتان میں عورتوں کا ایک فوری بحرانی مرکز کام کر رہاہے جہاں ایک ہی چھت تلے مظلوم عورتوںکو پولیس ،میڈیکل افسر، رہائش، ایف آئی آر رجسٹریشن ،وکیل اور مجسٹریٹ کی سہولتیں میسر ہیں۔ اس سینٹر میں عورتوں کے کیسوں کا فیصلہ تین ماہ میں کیا جاتاہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام اضلاع میں ایسے بحرانی مراکز تعمیر کرائے جائیں۔اس طبقے کی کسمپرسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 70سال گزرنے کے باوجود کوئی حکومت بھٹہ مزدوروںکی تعداد کے بارے میں سروے نہیں کراسکی اور حد تو یہ ہے کہ مردم شماری والے بھی انہیں کسی خانے میں نہیں رکھتے ۔حکومت پنجاب نے 2014ء میں 5ارب روپے سے ایک اسکیم کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق پہلے سال میں ان مزدوروں کے بھٹوں اور ان کی تعداد کا سروے کروایا جانا تھا۔ دفتر، بڑی بڑی گاڑیاں اور لمبی تنخواہوں پر عملہ تو بھرتی کرلیا گیا لیکن آج تک اس پروجیکٹ کا سروے تو دور کی بات اس کی کوئی ویب سائٹ بھی موجود نہیں ہے۔بھٹہ مالکان کے مطابق 22ہزار بھٹوں میں کم ازکم 45لاکھ سے 55لاکھ مزدور کام کرتے ہیںجبکہ مزدور رہنما بھٹہ مزدوروں کی تعداد70لاکھ کے لگ بھگ بتاتے ہیں۔
سیاسی پارٹیوں نے بھی بھٹہ مزدوروں کے ساتھ مظالم کو کبھی سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔اس کی مثال تو ایک بڑی پارٹی کے لیبر ونگ کے صدر سے دی جاسکتی ہے جو کہ نہ صرف لاہور میںتین بھٹوں کا مالک ہے بلکہ بھٹہ مزدوروں کے ساتھ ہونے والے مظالم میں بھی پیش پیش رہتا ہے اور جس کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلے بھی صادر کیے ہیں۔کیونکہ ان مزدوروں کا تعلق سماج کے سب سے پسے ہوئے طبقے اور محکوم ذاتوںسے ہوتا ہے اس لیے ریاستی ادارے بھی کھل کر ان کا استحصال کرتے ہیں۔کوئی پولیس افسر،کوئی لیبر افسر،کوئی میڈیکل افسر ان کے حق میں رپورٹ بنانے کو تیار نہیں ہے اورصاف ظاہر ہے کہ عدالتی احکامات ان رپورٹوں کی بنیاد پر ہی جاری کیے جاسکتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بھٹہ مزدوروں کی اجرت ان کے بینک اکائونٹ میں جمع کروائی جائے اور اس سلسلے میں ایک الگ محتسب کا ادارہ قائم کیا جائے تاکہ سرکاری محکموں،سیاستدانوں،جاگیرداروں اور اشرافیہ کی ملی بھگت سے بھٹہ مزدوروں کو نجات دلوائی جاسکے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں محنت کش طبقے نے صرف اور صرف اپنی محنت کی بدولت تہذیب و تمدن کو بڑھانے میں حصہ لیا۔ جب کوئی سماج اپنے مزدوروں اور کسانوںکا احترام نہیں کرتا اوران سے حاصل شدہ فوائد کو برابری کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتا توایسا سماج نہ صرف ذہنی پسماندگی کا شکار رہتا ہے بلکہ اس نامناسب تقسیم کی وجہ سے کسان،کاریگر،ہنر منداور دستکار طبقہ ملک و قوم کی خوشحالی میں شریک بھی نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے مزدوروں کی حالت زار پر مرحوم اقبال ساجد نے کیا خوب کہا ہے!
رات فٹ پہ دن بھر کی تھکن کام آئی
اس کا بستر بھی کیا سر پہ بھی اوڑھے رکھا
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین