• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 بلوچستان کا بجٹ تیاری کی آخری مراحل میں

بلوچستان میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کےحوالےسے تیاریاں جاری ہیں،بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس حوالےسےتیاریاں آخری مراحل میں ہیں تو بھی غلط نہ ہوگا۔

اس حوالےسےصوبائی حکام کی جانب سے اعلان کیاگیا ہے کہ صوبےکا آئندہ مالی سال کا بجٹ 8 مئی کو پیش کیا جائے گا۔

صوبےکابجٹ مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی پیش کریں گی، وہ صوبے کی پہلی خاتون ہیں جنہیں صوبائی بجٹ پیش کرنے اعزاز حاصل ہوگا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کےبجٹ کےحجم کا تخمینہ 350 ارب روپے سے زائد ہوگا،نئے سال کابجٹ بھی خسارے کا ہی ہوگا،خسارہ لگ بھگ 50 ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے، جسے اخراجات میں کمی اور سادگی سمیت مختلف اقدامات کے زریعے پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

بجٹ کی تیاریوں کےحوالےسے متعلقہ محکموں کے زیر اہتمام گزشتہ ہفتے پری بجٹ مشاورتی ورکشاپ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، جس میں متعلقہ صوبائی حکام کے علاوہ،سول سوسائٹی اور ماہرین منصوبہ بندی اور خزانہ نے شرکت کی تھی۔

اس موقع پر صوبائی مشیر خزانہ ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ مخلوط حکومت کاحصہ ہوتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقوں تاجروں،زمینداروں،ڈاکٹرز،انجینئرزسے لے کر ریڑھی بانوں تک کو بجٹ میں شامل کیا جائے۔

بجٹ کےحوالےسے صوبائی مشیر خزانہ نے جیو نیوز کو بتایا کہ بجٹ کے حوالے سے مخلوط حکومت میں شامل اراکین سے مشاورت جاری ہے اور اس سلسلے میں صوبےکےمختلف طبقوں کے افراد سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں ترقیاتی پروگرام کا حجم 90 ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے جبکہ رواں سال کےبجٹ کا ترقیاتی پروگرام تقریبا 86 ارب روپے پر مشتمل تھا، اگر ترقیاتی بجٹ کا حجم 90 ارب روپے سے بڑھ جاتا ہے تو پھر قرض لینا پڑے گا۔

مشیر خزانہ نے مزید کہا کہ آئندہ سال کا بجٹ ٹیکس فری ہوگا اور اس میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا جا رہا ہے جبکہ بجٹ میں پہلے کی طرح تعلیم،صحت اور امن و امان کو زیادہ ترجیح دی جائے گی، تاہم اس بار کوشش کی گئی ہے کہ بجٹ میں اجتماعی نوعیت کی اسکیموں کو ہی شامل کیا جائے گا اور انفرادی اسکیموں کو بجٹ میں شامل نہ کیا جائے۔

مشیر خزانہ ڈاکٹررقیہ سعیدہاشمی نےیہ بھی بتایا کہ رواں سال کےترقیاتی بجٹ کےحوالےسےبیشتر رقم جاری کی جا چکی ہے، بلوچستان کے رواں مالی سال2017-18کے بجٹ میں 2 ہزار780 ترقیاتی منصوبوں کیلئے تقریبا 86ارب روپے مختص کئے گئے تھے۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق صوبائی حکومت کو بجٹ پیش کرنے اور منظور کرانے کےحوالےسےمشکلات کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے، ایسا اس لئے ہے کہ ایوان میں حکومتی اراکین کی تعداد کم جبکہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔

اس حوالےسے مشیرخزانہ ڈاکٹررقیہ سعید ہاشمی پر امید ہیں کہ اس حوالے سے حکومت کو کوئی مشکل نہیں ہوگی،بلوچستان اسمبلی میں اس سے پہلے نواب اکبر بگٹی کےدورمیں بھی یہی صورتحال تھی۔

صوبائی حکومت کی بجٹ کی تیاریاں اپنی جگہ مگر دوسری جانب صوبے میں عام افراد کی بجٹ سےکافی امیدیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت بجٹ پیش کررہی ہے بہت اچھی بات ہے مگر اس کےاثرات عام افراد تک پہنچنا چاہئیں،بجٹ صرف اعداد و شمار کاہیر پھیر نہیں ہوناچاہئے۔

اس میں صحت،تعلیم اور امن وامان کے ساتھ مختلف سماجی شعبوں کے لئے مختص کی گئی بھاری رقوم واقعتا عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی پرخرچ ہونی چاہئیں،نہ کہ ترقیاتی منصوبے اور اسکیمیں صرف کاغذوں تک محدود رہیں۔

تازہ ترین