• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ پارلیمنٹ اگر اپنی مدت مکمل کرتی ہے تو عام انتخابات ہفتہ 28 جولائی کو ہوسکتے ہیں تاہم اتوار 29 جولائی کو بھی ممکنہ آپشن سمجھا جارہا ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدت یکم جون 2018ء کو مکمل کررہی ہے، اگر اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل نہ کی گئیں تو 60 روز کیلئے مرکز اور صوبوں میں حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے عبوری حکومتیں بنائی جائیں گی جو جولائی کے آخر تک عام انتخابات کرائیں گی۔ اس طرح موجودہ حکومت کی مدت میں اب صرف ایک ماہ باقی ہے اور تمام سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مہم میں سرگرم ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے باعث کچھ سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلزپارٹی کو طالبان نے انتخابی مہم کی آزادی نہیں دی تھی جس کے باعث پی پی قائدین بڑے جلسوں کے بجائے صرف اپنے اپنے علاقوں میں بمشکل کارنر میٹنگز کرسکے جس سے پارٹی کا ووٹ بینک متاثر ہوا لیکن اب امن و امان کی بہتر صورتحال کے باعث تمام سیاسی جماعتیں بلاخوف و خطر ملک بھر میں انتخابی جلسے کررہی ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی ملک گیر انتخابی مہم میں نہایت سرگرم ہیں اور گزشتہ روز 29 اپریل کو ٹنکی گرائونڈ لیاقت آباد کراچی جو ایم کیو ایم کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، میں ہونے والا کامیاب جلسہ بھی اِسی سلسلے کی کڑی تھا۔
قارئین! شہر کراچی پاکستان کا انڈسٹریل، کمرشل، فنانشل اور معاشی حب ہے جہاں سے حکومت کو ملک کے مجموعی ریونیو کا تقریباً 65 فیصد حاصل ہوتا ہے۔ اس غریب پرور شہر میں ملک بھر کے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور پھر یہیں کے ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ 30 سالوں میں اس شہر کو دہشت گردی، بھتہ غوری، اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ چڑھادیا گیا جس سے یہاں کی صنعتیں پنجاب منتقل ہوگئیں جبکہ بے شمار بزنس مین اپنا سرمایہ لے کر بیرون ملک منتقل ہوگئے اور پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے اس شہر کی Ownership نہیں لی اور نہ ہی شہر کے مسائل حل ہوسکے۔ کراچی کی موجودہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں ایم کیو ایم کئی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور کوئی بھی دھڑا کراچی کے ووٹرز کا واضح نمائندہ نہیں۔ اس سیاسی خلا کو پر کرنے کیلئے آئندہ انتخابات میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے کراچی میں اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں جن میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور شہباز شریف پیش پیش ہیں اور ان سب کی توجہ کراچی کی بزنس کمیونٹی پر ہے۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میرا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے، مجھے فخر ہے کہ میں بینظیر بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں سے ہوں اور اُن ہی کے کہنے پر میں نے دو مرتبہ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ 2002ء کے الیکشن میں بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے اس حلقے سے الیکشن لڑنے کو کہا جس کیلئے میں بالکل تیار نہ تھا لیکن بی بی، مخدوم امین فہیم اور سینیٹر رضاربانی کے اصرار پر میں محترمہ کو انکار نہ کرسکا۔ یہ الیکشن میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ بی بی نے مجھے پیپلز بزنس فورم اور سفارتی تعلقات عامہ کی کمیٹی فارن لائژن کی ذمہ داریاں دیں جس کا کام بزنس کمیونٹی، سفارتکاروں اور پیپلزپارٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا تھا۔ 2008ء کے انتخابات میں، میں نے ریکارڈ ووٹ حاصل کئے کیونکہ میرا اور پارٹی کارکنوں کا عزم تھا کہ بلاول ہائوس کے حلقے کی یہ نشست پیپلزپارٹی کی ہو مگر ایم کیو ایم نے طاقت کے زور پر بیلٹ باکس خالی بیلٹ پیپرز سے بھرکر عوامی مینڈیٹ کا جو مذاق اڑایا، وہ دنیا کے سامنے تھا۔ بعد میں ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مرحلے پر مفاہمت کے تحت شریک چیئرمین کی ہدایت اور پارٹی ڈسپلن کے باعث اپنی پٹیشن واپس لینا پڑی جس کا آج بھی مجھے سخت افسوس ہے۔میں پیپلزپارٹی کے صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے 2018ء کے انتخابات میں NA-250 جو اب NA-247 ہوگیا ہے، سے پارٹی کا ٹکٹ دیا ہے لیکن اس بار مجھے الیکشن قوانین کے تحت اپنی دہری شہریت کو چھوڑنا ہوگا اور میں نے بینظیر بھٹو اور پارٹی قیادت سے کئے گئے وعدے کے تحت اپنی دہری چھوڑنے کیلئے اپلائی کردیا ہے لیکن ہائی کمیشن سے موصول ہونے والے خط کے مطابق دہری شہریت منسوخ ہونے کے عمل میں تقریباً 6 ماہ درکار ہوں گے جو باعث تشویش ہے اور اس بارے میں، میں نے پارٹی قیادت کو آگاہ کردیا ہے۔
گزشتہ دنوں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI)کے حکمراں گروپ کے سیکریٹری جنرل ہونے کے ناطے میں نے اپنے گھر پر پیپلزپارٹی کے قائدین اور حالیہ سینیٹ میں منتخب ہونے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر شیری رحمن کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا تھا جس میں پیپلزپارٹی شعبہ خواتین کی صدر فریال تالپور، سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی، وزیر تعلیم جام مہتاب ڈھر، اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور لیبر کے وزیر ناصر حسین شاہ، پلاننگ اور منصوبہ بندی کے وزیر سعید غنی، رکن قومی اسمبلی نوید قمر نے اپنی بیگمات کے ساتھ شرکت کی۔ بزنس کمیونٹی کی جانب سے ایس ایم منیر، خالد تواب، نوید بخاری، میاں محمد عبداللہ، سہیل وجاہت، بشیر علی محمد، خالد اعوان، طاہر خان، ارشاد قاسم، مجید عزیز، طارق حلیم، سمیع خان، حنیف گوہر، شاہد ٹاٹا، پرویز مدراس والا، راشد صدیقی، فیصل کچیلو، اشرف مایو، رونق لاکھانی، غفران میمن اور ندیم حسین کے علاوہ امریکہ، جاپان، اومان، بنگلہ دیش، ملائیشیا کے سفارتکاوں اور ملک کے ممتاز بزنس مینوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔پیپلزپارٹی کی قیادت سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ملکی معیشت ابتری کا شکار ہے، بڑھتا ہوا مالی، کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی حکومت کو درپیش سنگین چیلنجز ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور روپے کی گرتی ہوئی قیمت جو ڈالر کے مقابلے میں 117 روپے کی کم ترین سطح تک پہنچ گئی ہے، پر بزنس کمیونٹی کو تشویش ہے۔ میں نے بتایا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت بحران کا شکار ہے اور 100 سے زیادہ ٹیکسٹائل ملز بالخصوص فیصل آباد میں بند ہوچکی ہیں۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل کے مطابق بینکوں کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو دیئے گئے قرضوں کا 25 فیصد نادہندہ ہوچکا ہے۔ حکومت نے ایکسپورٹرز کے 160 ارب روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈ کی 3 سال سے ادائیگیاں نہیں کی ہیں جس کی وجہ سے ایکسپورٹرز کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور صنعتی سرگرمیاں سکڑ رہی ہیں۔ شیری رحمن نے اپنی تقریر میں ایک کھرب روپے سے زائد جمع ہوجانے والے گردشی قرضوں اور نقصانات میں چلنے والے حکومتی اداروں کے نقصانات کو حکومت کے سر پر لٹکی ہوئی تلوار قرار دیا۔ سلیم مانڈوی والا نے بزنس کمیونٹی سے وعدہ کیا ہے کہ اگر ان کی پارٹی حکومت میں آتی ہے تو وہ پہلے مہینے میں ایکسپورٹرز کے تمام ریفنڈ واپس کردیں گے۔ انہوں نے ملک کی گرتی ہوئی ایکسپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر فریال تالپور نے میری خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ ایک طویل عرصے سے بزنس کمیونٹی اور پیپلزپارٹی کے مابین ایک پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پیپلزپارٹی نے ڈاکٹر اختیار بیگ کو حلقہ NA-250 جو اب NA-247 ہے، سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ آنے والے انتخابات کیلئے آفر کیا ہے اور وہ اس سلسلے میں اپنی کاغذی کارروائیاں مکمل کررہے ہیں۔ ایس ایم منیر نے اعلان کیا کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کے ساتھ ہے اور آنے والے الیکشن میں ایف پی سی سی آئی اور یو بی جی بیگ صاحب کو سپورٹ کریں گے۔ انہوں نے ڈاکٹر بیگ کی بزنس کمیونٹی اور ملکی معیشت کیلئے گراں قدر خدمات کی تعریف کی جبکہ خالد تواب نے کہا کہ اختیار بیگ اپنے معاشی کالم اور ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے بزنس کمیونٹی کی ایک طویل عرصے سے خدمت کررہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر اختیار بیگ کو پیپلزپارٹی اور بزنس کمیونٹی کیلئے سرمایہ قرار دیا۔ سیاسی جماعتوں کے بزنس کمیونٹی کے ساتھ اس طرح کے تبادلہ خیال خوش آئند ہیں تاکہ بزنس کمیونٹی کو سیاسی جماعتوں کے منشور اور ان کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں آگاہی ہوسکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین