• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہوگیا۔ مسلم لیگ(ن) چند ہفتوں کی مہمان حکومت کی یہ خواہش پچھلے سال سے تھی کہ کسی طرح وہ بھی اپنے پانچ سالہ دور میں چھٹا بجٹ پیش کرے۔ اس خواہش کا اظہار سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پچھلے سال اسلام آباد میں جنگ گروپ کے پری بجٹ سیمینار کے اختتام پر افطار ٹیبل پر کیا تھا۔ بہرحال قدرت کا اپنا نظام ہے کہ اس خواہش کا اظہار محمد اسحاق ڈار نے کیا اور اب اس کی تکمیل چند روز قبل وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق جس حکومت کی مدت چند ہفتے ہے، اسے جاتے جاتے ایک اور بجٹ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی، تاہم اس سے قبل حکومت کے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے میں تو وزارت خزانہ کے بابوئوں نے اعداد و شمار کی جادوگری کا کمال ہی دکھادیا اور بڑی مہارت سے یہ ثابت کردیا کہ رواں مالی سال میں اقتصادی ترقی کی رفتار 13 سالوں کے مقابلہ میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ترقی ا سلام آباد چونکہ پہاڑی علاقہ ہے پہاڑ کے اوپر سے یہ ترقی زیادہ اور بھوک، بے روزگاری کے باوجود زندہ رہنے والے لوگ انہیں کم نظر آتے ہوں۔ جہاں تک بجٹ کا معاملہ ہے یہ پیش تو کردیا گیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ یکم جون 2018کے بعد آنے والی حکومت اس پر کیا قانونی پوزیشن لیتی ہے۔ اس لئے کہ یہ شاید پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے باوجود جاتے جاتے چھٹا بجٹ پیش کیا ہو۔ یہ کوئی بڑی بات بھی نہیں ہے، ہر حکومت کو یہ حق ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کے لئے قانون کیا کہتا ہے۔
بہرحال جاتے جاتے حکومت نے بجٹ تو پیش کردیا ہے ۔ مسئلہ یہ پیدا ہوگا کہ اسے پاس کون کرائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو کوئی غیبی قسم کی امید ہو کہ نگران حکومت اس حوالے سے کوئی اعتراض نہیں کریگی اور فنانس بل کے اہم نکات کے لئے صدارتی آرڈیننس سے کام چل جائے گا لیکن اس وقت مسلم لیگ (ن) کے سیاسی حالات جو مستقبل کا حال بتارہے ہیں ان کے مطابق تو معاملات کوئی اچھے نظر نہیں آتے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بار بار بڑے ا سمارٹ انداز میں اپنے اوپر کرپشن کے صحیح اور غلط الزامات کی بنیاد پر اپنی سیاست مزید چمکانےمیں کامیاب ہوچکے ہیں مگر اس کے باوجود نیب عدالت نے کچھ تو فیصلہ کرنا ہے جس کے یقینی طور پر بڑے گہرے اثرات مسلم لیگ(ن)کی سیاست اور آنے والے انتخابات کے نتائج پر مرتب ہونگے۔ اس لئے کہ نئے بجٹ کو مسلم لیگ (ن) کے منشور کا غیر اعلانیہ ڈرافٹ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں ہر شعبہ زندگی کو مطمئن کرنے اور نئے نئے سہانے خواب دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان کے عوام یہ خواب تو70-72سال سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ پتہ نہیں ان خوابوں کی تکمیل کب اور کیسے ہوگی کم از کم پاکستان میں باشعور عوام جب تک ہر الیکشن میں صحیح نمائندوں کو نہیں لائیں گے اس وقت تک معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ نئے بجٹ میں ٹیکسوں کے حوالے سے کچھ اصلاحات کا خصوصی تذکرہ کیا گیا ہے جو یہ حکومت چاہتی تو اپنے پانچ سالہ دور میں کرسکتی تھی مگر جب بھی ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا تو سیاسی مفادات حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کی راہ میں رکاوٹ بنتےگئے بلکہ ایک بار تو پنجاب ہائوس اسلام آباد میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے درمیان تاجروں کی بڑی تعداد کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر اختلاف رائے بھی پیدا ہوگیا تھا۔ یہ ہوتی ہے سیاسی مفادات کی بالادستی معاشی فیصلوں پر جب تک اس رجحان کی قومی سطح پرحوصلہ شکنی نہیں کرتے۔ اس وقت تک اس طرح کے رسمی اور غیر فطری قسم کے بجٹ پیش ہوتے رہیں گے اور عوام بے چارے یہ سب برداشت کرتے رہیں گے جبکہ پارلیمنٹ میں حکومتی اراکین بجٹ دستاویزات پڑھے بغیر تالیاں بجاتے رہیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین