• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا ،بلاشبہ انسان منصوبہ بندی کچھ اور کرتا ہے لیکن جومشیت ایزدی کی صورت میں سامنے آتا ہے وہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ دوسال قبل جب پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت ایک اہم سنگ میل کے طور پر پہلی بار اپنا چوتھا بجٹ پیش کرنے جا رہی تھی تب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ چھٹا بجٹ بھی مسلم لیگ ن کی حکومت ہی پیش کرے گی۔مسلم لیگ ن نے ایسا کر تو دیا لیکن آج دعویٰ کرنے والے اسی اسحاق ڈار کو مفرور قرار دیا جاتا ہے۔ دو سال قبل اسی موقع پر بطور وزیر اعظم نواز شریف دل کی تکلیف کی وجہ سے لندن میں زیر علاج تھے اور ان تاریخی لمحات کا حصہ بننا مسلم لیگ ن کے قائد کو تب بھی نصیب نہ ہوا تھا اور اس بار جبکہ ان کی جماعت 27 اپریل کو مسلسل چھٹا بجٹ پیش کر کے ایک تاریخ رقم کرنے جا رہی تھی تب بھی وہ اس ایوان کا حصہ نہیں تھے جس نے انہیں پانچ سال قبل اپنا قائد منتخب کیا تھا۔ اس سے زیادہ بے بسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اپنی ہی جماعت کے دور اقتدار میں نواز شریف نہ صرف وزارت عظمی سے نا اہل قرار دے دئیے گئے بلکہ ان سے پارٹی صدارت کا استحقاق بھی چھین لیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے جس منشور پر عمل درآمد کے ذریعے معاشی ترقی کا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا انہیں اس کی تعبیر دیکھنےکا موقع بھی نہ مل سکا۔ نواز شریف زندگی کے اس نشیب و فراز کو قسمت کی ستم ظریفی سے زیادہ ستر سالہ ملکی تاریخ کا تسلسل قرار دیتے ہیں اور تاریخ کے اس دھارے کا رخ ووٹ کی عزت کے پشتوں سے موڑنے کیلئے اس قدر پر عزم ہیں کہ انہیں اب جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری کا خوف باقی رہا ہے اور نہ ہی اٹک قلعے کی صعوبتوں کی یادیں ان کا راستہ روک پا رہی ہیں۔ جاننے والے یہ بھی جانتے ہیں کہ نواز شریف کو اب اپنی زندگی سے زیادہ اپنی صاحبزادی مریم نوازکا سیاسی مستقبل عزیز ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی ان کیلئے بنے گئے خواب بکھرتے نہیں دیکھ سکتے۔ انگلش لٹریچر میں پوسٹ گریجویشن کرنے اور کیمبرج سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کرنے میں مصروف شریف خاندان کی سیاسی وارث سمجھی جانے والی مریم نواز کو اپنے والد پر گزرنے والی مشکلات کے سبب قبل از وقت وہ کردار نبھانا پڑ گیا جس کیلئے ابھی وہ پوری طرح خود کو تیاربھی نہ کر پائی تھیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شہید ذوالفقار بھٹو کی آمریت کے ہاتھوں المناک موت نے نازو نعم میں پلی بینظیر بھٹوکو بھی اپنے عظیم والد کی وہ میراث سنبھالنے پہ مجبور کر دیا تھا جس کا نہ صرف انہوں نے خود کو اہل ثابت کیا بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا منصب سنبھال کر ناقدین کے منہ بند کر دئیے تھے۔ کہتے ہیں تاریخ کسی نہ کسی شکل میں خود کو دہراتی ہے شاید اسی لئےپر آسائش زندگی بسر کرنیوالی مریم نواز نے بھی اپنے لئےاسی راستے کا انتخاب کیا ہے جو نہ صرف پر خطر ہے بلکہ اس میں قدم قدم پر قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند ماہ میں سیاسی محاذ پر مریم نواز نے وہ سب کردکھایا ہے جو شاید کرنے کیلئے برسوں درکار تھے۔
مسلم لیگ ن جیسی جماعت جس کی تاریخ میں مزاحمت نام کا کوئی لفظ ڈھونڈنے کو نہیں ملتا تھا آج مریم نواز کی بدولت ان کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑی ہو گئی ہے جن کے سائے میں پروان چڑھنے کے الزامات آج بھی نواز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ یہ کریڈٹ بھی مریم نواز کو ہی جاتا ہے کہ وہ جماعت جس کی پہچان اس کے بزرگ رہنما ہی ہوتے تھے اور جس کا نام سنتے ہی رجعت پسند تشخص ابھر کر سامنے آتا تھا آج اس کے جلسوں اور کنونشنوں میں نوجوانوں کی اکثریت نظر آتی ہے۔ وہ جماعت جسے دقیانوسی سوچ کی عکاس تصور کیا جاتا تھا آج سوشل میڈیا کے استعمال میں اس قدر آگے نکل چکی ہے کہ یوتھ کی جماعت کہلانے کی دعویدارتحریک انصاف بھی اس کی پیروی کرنے پر مجبور ہو چکی ہے ، یقیناً اس انقلاب کی بانی بھی سابق وزیر اعظم نوازشریف کی صاحبزادی ہی ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کا اصل اثاثہ اس کے کارکنان ہی ہوتے ہیں اور ان میں جس قدر سیاسی شعور ہو گا وہ کسی بھی فورم پر پارٹی کا مقدمہ اتنے ہی موثر انداز میں لڑسکتے اور دوسروں کو قائل کر سکتے ہیں ،سوشل میڈیا کے ذریعے ملک کی نوجوان نسل خصوصا ًمسلم لیگ ن کے کارکنان کی جو تربیت مریم نواز اور ان کی ٹیم نے کی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اس جماعت کے نظریے،اس کی پالیسیوں اور کامیابیوں سے لے کر اس کو درپیش چیلنجز اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں تک سب کچھ لیگی کارکنان کو ایسے از بر ہو چکا ہے کہ وہ میرے جیسے خود کو ارسطو سمجھنے والے جغادری صحافیوں کو بھی مدلل بحث سے لاجواب کر دیتے ہیں ،نتیجہ جھوٹی انا رکھنے والوں کی طرف سے بلاک کر دئیے جاتے ہیں۔ ابھی ان صفوں میں چند ایسے بھی موجود ہیں جنہیں مزید اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ سوشل میڈیا پر وہ ان کی قیادت یا پالیسیوں پر تنقید کا جواب گالی یا نامناسب الفاظ کے بجائے دلائل سے دیں تاکہ انہیں کوئی غلط تربیت کا طعنہ دے کر بلاک نہ کرے۔ اس سے بھی مفر نہیں کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے جس بیانیے کو لے کر پنجاب ہاوس اسلام آباد سے جی ٹی روڈ پرنکلے تھے اس کیلئے ان کی بیٹی نے انہیں وہ قوت اور توانائی فراہم کی کہ آج یہ بیانیہ ہر جمہوریت پسند کی آواز بن چکا ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی اہلیہ کی بیماری کے دوران دل گرفتہ ہوگا اور اگر خدانخواستہ بیماری بھی جان لیوا ہو تو بندہ حوصلہ بھی ہار جاتا ہے لیکن اس ضمن میں بھی بطور بیٹی مریم نواز نے نہ صرف اپنے والد کی ڈھارس بندھائی بلکہ والدہ کی تیمارداری کیلئے احتساب عدالت سے استثنی نہ ملنے کے باوجود خود بھی اس ہمت کا مظاہرہ کیا کہ نواز شریف کے دل میں بھی مضبوطی پیدا کر دی۔ یہ تبدیلی بھی کسی معجزے سے کم نہیں کہ جس مسلم لیگ ن کی قیادت بالخصوص نواز شریف تک جماعت کے کارکنان تو کیا ارکان پارلیمنٹ کی رسائی بھی ممکن نہ ہوا کرتی تھی آج سوشل میڈیا کے انتہائی موثر استعمال کے ذریعے وہ صرف ایک ٹویٹ کی دوری پر ہیں، جو کارکنان صرف خود کو پارٹی کیلئے ایندھن سمجھتے تھے آج وہ خود کو شراکت دار سمجھنے لگے ہیں ،جن سے صرف نعرے لگانے کا کام لیا جاتا تھا آج وہ پارٹی قیادت کی غلط پالیسیوں پرنکتہ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔ جو معاملات بند دروازوں میں صرف کچن کیبنٹ کے ذریعے طے پاتے تھے ان میں اب عام کارکنوں کی امنگوں کا بھی عمل دخل ہے۔پارٹی کی جو کامیابیاں صرف وزیر اعظم ،وزیر اعلی کے خطاب یا کسی پریس کانفرنس کے ذریعے معلوم ہو پاتی تھیں آج کارکنان سوشل میڈیا کے ذریعے خود ان کی تشہیر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن جس کے جلسے میں لوگوں کو لانے کیلئے پٹواریوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں اور جہاں سے جماعت کے حمایتیوں کیلیے پٹواری کی اصطلاح نے جنم لیا آج اس جماعت کا سوشل میڈیا یا ورکر کنوشن بھی کارکان کے جم غفیر کے باعث جلسے کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے اس نئے تشخص کی روح رواں وہی مریم نواز ہیں جنہیں نواز شریف کا سیاسی وارث سمجھا جاتا ہے۔ ان کی یہی اہلیت دن بدن اتنی مضبوط ہوتی جا رہی ہے کہ روکنے والے اب نواز شریف کے بجائے حقیقت میں مریم نواز کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ میرا ارادہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے چھٹے اور آخری بجٹ پر کالم لکھنے کا تھا لیکن بات بجٹ سے نواز شریف اور مریم نواز کی طرف نکل گئی جس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول پھریادآ گیا کہ میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین