• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ (ن) کےمرکزلاہور میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سےطاقت کا مظاہرہ کرنے کےبعداب صورتحال واضح ہے کہ الیکشن 2018ءکامیدان جنگ پنجاب ہوگا اور مقابلہ دو طاقتورسیاستدان رہنمائوں میاں شہباز شریف اور عمران کے درمیان ہوگا، جبکہ دیگر پارٹیاں اور رہنماصرف بگاڑنےوالوں کا کردار اداکریں گے۔ گزشتہ 10برسوں میں خاص طورپ پربےنظیربھٹوکی شہادت اور پنجاب میں پی پی پی کےزوال کےبعد عمران خان شریفوں کیلئےایک طاقت ور چیلنجر کے طور پرسامنےآئےہیں۔2013ءمیں ان کی کارکردگی 2008ءکے مقابلے میں بری نہیں تھی لیکن ان کی امیدوں کے مطابق بھی نہیں تھی، لیکن پی ایم ایل (ن) کو ہلانےکیلئےکافی تھی۔ اس بارانھیں ایک فائدہ حاصل ہے کہ ایک شریف یعنی نوازشریف برطرف ہوچکےہیں اوروہ شہباز شریف کو برطرف کرنےکاارادہ رکھتے ہیں، جسے وہ ایک اچھا چیلجنرسمجھتے ہیں۔ یہ ’تبدیلی اور تسلسل‘کےدرمیان، پنجاب میں خیبرپختونخوا میں کارکردگی کے درمیان، آزمائے گئے اورنہ آزمائےگئےلوگوں کےدرمیان ایک دلچسپ مقابلہ ہوگا۔ یہ ایسے دو رہنمائوں کے درمیان بھی مقابلہ ہوگا جو غالباًمحسوس کرتےہیں کہ ان کےپاس پاکستان کا وزیراعظم بننےکایہ آخری اوربہترین موقع ہے۔ یہ ایسے دو رہنمائوں کے درمیان مقابلہ ہوگا جو کچھ اختلافات کےباوجودہمیشہ اپنی متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی پر زور دیتے ہیں۔ دونوں جارح مزاج اور محنتی ہیں اور متعلقہ حکومتوں پرنظررکھتے ہیں ایک وزیراعلیٰ پنجاب ہے تو دوسرا خیبرپختونخوا کی حکمران پارٹی کاسربراہ ہے۔ یہ یقیناًمثبت علامت ہےکہ اگرپارٹیاں اور رہنما اپنی کارکردگی کی بنیاد پرایک دوسرےسےمقابلہ کریں گے۔ مثال کے طور پر اگر عمران خان دعویٰ کرتےہیں کہ وزیرِ اعلیٰ پرویزخٹک کی زیرِقیادت ان کی حکومت پولیس، صحت، اور تعلیم کے شعبے میں بڑی تبدیلیاں لائی ہے، مقامی حکومتوں کو مضبوط کیا ہے اور ’ایک ارب درختوں‘ کا کریڈٹ لیتےہیں، رائٹ ٹوانفارمیشن کوبہتربنایاگیا، تو ان کے مخالف وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اپنی کارکردگی کو سڑکوں اورٹرانسپورٹ کے پراجیکٹس یعنی موٹروےاورمیٹرو، انرجی سیکٹرمیں سرمایہ کاری کے ذریعےلوڈ شیڈنگ کمی، امن وامان کی صورتحال میں بہتری کے ذر یعےنمایاں کرتےہیں۔ جہاں تک ’احتساب‘ کا معاملہ ہے تو دونوں ایک آزاد صوبائی احتساب کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہے لیکن عمران خان دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے20ایم پی ایز کے خلاف انظباطی کارروائی کی ہے، جنھوں نے مبینہ طور پر ’پیسے‘لیےتھے۔ جبکہ شہباز شریف پی ٹی آئی کےچوہدری سرورکوووٹ دینےوالوں کیخلا ف ایسی کارورائی کرنےمیں ناکام رہے۔ پی ایم ایل (ن)ملک میں اورکراچی، فاٹا اور پنجاب میں بھی دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا کریڈیٹ لیتی ہے، جبکہ عمران خان کریڈٹ لیتے ہیں کہ خیبرپختونخوامیں ایک بھی ’ماورائے عدالت‘ قتل نہیں ہوا جبکہ پولیس مکمل طورپر ’غیرسیاسی‘ رہی ہے۔ جبکہ دونوں خیبر پختو نخوااورپنجاب، سندھ اور بلوچستان کےبرعکس، رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ میں بہتری لائےہیں۔ کسی بھی جمہوریت کی طرح موجودہ حکومت میں بھی کچھ خامیاں ہیں اور اگرچیلنجرکوتاحال آزمایانہیں گیا تو اکثرانھیں ایک ’متبادل‘ کے طور پرد یکھا جاتاہے۔ اس کےباعث عمران کو شہباز پرکچھ فائدہ حاصل ہوتاہے۔ اگر پنجاب کےلوگ یااس کے ووٹرزشہباز شریف کی کارکردگی سےمطمئن ہیں اوروہ مقابلہ کرتے ہیں اور پارٹی بھی اصل حالت میں رہتی ہے تو پی ٹی آئی اورعمران خان 2013ءکی طرح ہی مشکلات کاشکار ہوںگے۔ لیکن 2013ءکےبرعکس عمران خان اِن انتخا با ت میں اپنے حریفو ں کی دوسب سےاہم وکٹیں لےکرحصہ لیں گےیعنی نواز شریف اور خواجہ آصف دونوں کو تاحیات نااہل کردیاگیا۔ جبکہ شہباز شریف اورپی ایم ایل(ن) کوخدشہ ہے کہ انھیں انتخابات میں برابری سے حصہ لینے کاموقع نہ ملے۔ عمران خان پنجاب میں شریفوں کے خلاف 2018ء میں سونامی دیکھ رہے ہیں لیکن ہفتے کو وہ اعتراف کوتے ہیں کہ پی ایم ایل(ن) میں تاحال بڑے نام شامل ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں گےاور پی ایم ایل ضرور تقسیم ہوجائےگی۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی میں ہچکچاہٹ ہے۔ عمران جانتے ہیں کہ 2013میں کیاہواتھا، تنظیمی کمزوریوں، امیدواروں کاخراب انتخاب اور انتخابی سائنس میں ناتجربہ کاری میں کمی کےباعث وہ ہار گئے۔ اس کے باعث اب وہ اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرنے پرمجبورہوئے ہیں۔ اب وہ زیادہ ٹکٹیں ’منتخب شدہ‘ امیدواروں کو دیں گےبالخصوص پی ایم ایل(ن) سے، جنھوں نے پانامہ بحران اور نواز شریف کی نااہلیت کےبعد پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی جبکہ کئی پی پی پی رہنمابھی اب پی ٹی آئی کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ عمران خان کے لیے سب سے بڑاسیٹ بیک ان کے دائیں ہاتھ اور سب سے زیادہ قابلِ اعتماد رہنماجہانگیرترین کی نااہلیت تھی اوریہ ہی وجہ ہے کہ جہانگیرترین تاحال پارٹی فیصلوں اور پارلیمنٹری بورڈکاحصہ ہیں لیکن بطور ایم این اے اپناعہدہ چھوڑ چکے ہیں۔ اگرسپریم کورٹ ان کے مضبوط اتحادی شیخ رشید کو بھی نااہل کردیتی ہےتو عمران خان کیلئے یہ بھی ایک بڑاسیاسی نقصان ہوگا۔ عمران کوخود بھی عدالت کی جانب سےکلین چٹ ملی ہےاور صادق اورامین قرارپائے ہیں جبکہ شہبازشریف کو ماڈل ٹائون اورکچھ دیگرنیب کی انکوائریوں سےباہرنکلناہوگا۔ ان کے رہنما، بڑےبھائی اور پی ایم ایل (ن) کی طاقت نواز شریف نہ صرف تاحیات نااہل ہیں بلکہ اپنی بیٹی مریم نواز اورداماد کیپٹن(ر)صفدرکے ہمراہ نیب عدالت میں بھی ٹرائل کا سامنا کررہے ہیں۔ صاف اور شفاف انتخابات سے عمران اور شہباز شریف کےدرمیان، پی ٹی آئی اور پی ایم ایل(ن) کے درمیان مقابلہ ہوگا اورالیکشن 2018 اور پنجاب کے لیے جنگ 2013ء کے مقابلے میں مزید دلچسپ ہوگی۔ ماضی کے برعکس پہلی بار شریف خاندان تمام مشکلات کے باوجود انتخابات میں حصہ لےگا۔ تاریخ ان کی حمایت میں نہیں ہے کیونکہ 1970 کے بعد سےمرکز میں کوئی بھی پارٹی مسلسل دو بار انتخابات نہیں جیت سکی۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ یہ کے پی کے لیے بھی سچ ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کون حیران کرےگا اور کون حیران ہوگا۔

تازہ ترین