• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سابق صدر آصف علی زرداری، کیا کسی ایسے محل میں براجمان تھے جہاں غلام مشعلیں لے کر بھاگتے پھرے، کوئی آسمان ٹوٹ پڑا تھا یا ان کے تخت سلطنت و سطوت کے پائے لرزنے لگے تھے۔ ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں۔ جاگتے ذہن اور جاگتی آنکھوں سے کسی ایسے فعل کی شہادت زمین کی سات تہوں میں تلاش نہیں کی جاسکتی۔ پھر سابق صدر کے بارے میں ’’فرار‘‘ کی تھیوریاں کس ذہن کی پیداوار ہیں!
’’آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی تو ’’ضبط بھی کرتے رہے اور ہو گئے بدنام بھی‘‘ جیسی تہمت آمیز فضا میں گزری ہے۔ دراصل سیاست کی اس فتح و شکست جنگ میں وہ اپنے مقابل جنگجوئوں کو زچ کرنے کا بہت ہی فیصلہ کن تاریخی باب ہیں، انہوں نے اصولاً ان متحارب قوتوں کو زچ ہی نہیں کیا بے بسی کے دائرے میں گھومنے پر مجبور کر دیا۔
مثلاً، یہ کہ، وہ پاکستان کی Liveسیاسی تاریخ میں ایک ایسی سول منتخب حکومت کے منصب صدارت پر فائز رہے جس نے چہار طرفہ نہیں شش جہت سے ہونے والے جھول کے درمیان اپنی آئینی مدت پوری کر کے مقابل جنگجوئوں کو ایک لا ینحل سے ذہنی عذاب میں ڈال دیا، اب پاکستان میں فیصلہ سازی، آئینی تسلسل کے انتخابی انعقاد کی منطق کے علاوہ کسی دوسرے راستے سے ڈنک مارنے کی طاقت چھن چکی ہے، یہ جن کی بھی شکست ہے یا جن کی بھی مجبوری ہے، ایسی چوٹ کی کوئی جھلک تک ان کے خیال و تصور میں نہیں تھی۔
اور مثلاً، یہ کہ، وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالفوں اور اپنے دشمنوں کو بار بار حیرت زا حصار کا غم دینے کی اَن ہونی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ سابق صدر غلام اسحاق خاں ایک طرف انہیں کرپشن کا اژدھا قرار دیتے اور کچھ عرصہ بعد اسی سے وزارت کا حلف لیتے ہیں۔
بادشاہ گروں کے لئے ایک اور صدمہ جانکاہ یہ کہ آصف علی زرداری کو 2008کے صدارتی انتخاب میں چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 481ووٹ ملتے ہیں جو دو تہائی کی اکثریت سے بھی زیادہ تھے!
ان کے مخالفین کو کوئی ایک غم ہے، بی بی کی شہادت کے بعد جب لوگوں کا جم غفیر غم کی اتھاہ سمندروں سے کسی ناہنجار احمق کی زبانی یا کسی باضابطہ، تیار شدہ، سازشی کی بے برکت زباں سے ’’پاکستان نہ کھپے‘‘ کا نعرہ سنتا ہے، تب یہی آصف علی زرداری، جرأت کے غلغلے کے ساتھ ایک فلک شگاف صدا بلند کرتے ہوئے ’’پاکستان کھپے، پاکستان کھپے، پاکستان کھپے‘‘ کی ہمالیاتی یلغار سے وطن کا علم نیلے آکاش کی پہنائیوں تک لے جاتا ہے، کوئی مصیبت سی مصیبت ہے، وہ آصف علی زرداری کا کیا کریں، اسے کہاں دھکا دیں، کہاں ماریں، مگر صاحب! سچ یہ ہے، ’’جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے!‘‘
تو ’’صدر‘‘ اس لڑائی سے باز نہیں آئے جس کے آخری سرے کا اختتام پاکستان کی بقا اور عوام کی عزت نفس کی انمٹ تقدیس سے ہے، وہ اداروں کو ان کا آئینی مقام یاد دلانے میں کسی بھی شعوری یا لاشعوری خوف کے قیدی نہیں، چنانچہ سو فیصد سچ بول کر، تین سال کے ریٹائرمنٹ قانون کا تذکرہ تک کرنا، ملک کے حق میں ناگزیر جانتے ہیں۔
اور سابق صدر یہ آئینی یاد دہانی کرواتے رہتے ہیں، ابھی انہوں نے 5جنوری 2016ء کو اس دہرائی کا پھر اظہار کیا، ان کا کہنا تھا! ’’من پسند احتساب، مقدس گائے کا نظریہ بھی بدترین کرپشن ہے، کسی فرد یا ادارے کو زبردستی اقتدار پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ جن لوگوں نے پی سی او کے تحت حلف لے کر آئین سے روگردانی ڈکٹیٹروں کے ملک پر قبضہ کی توثیق کی اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ذریعہ ملکی سلامتی کو دائو پر لگایا ان کا احتساب بھی ہونا چاہئے‘‘
’’صدر‘‘ کے کس کس آئینی سیاسی کلچر، واقعہ اور روایت کو یاد کیا جائے، وہ پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی سے منسوب میمو گیٹ اسکینڈل کے طوفان بلاخیز میں طاقتوروں کے سامنے اس کا استعفیٰ رکھواتے لیکن خود صدر کے دائرہ اختیار کی آئینی چھتری تان کے اسے محفوظ و مامون ’’سفر ہجرت‘‘ پر روانہ کر دیتے ہیں، وہ اسامہ بن لادن کی دریافت اور انجام پہ گو لب کشائی سے اجتناب برتتے ہیں مگر کسی اور کو عوام کی عدالت میں حجالت آمیز جوابدہی کے کانٹے چننا پڑتے ہیں۔
شاید کیا یقیناً آپ کو یاد نہیں ہو گا، یہ جو سابق صدر آصف علی زرداری ہیں، یہ جب سپریم کورٹ سے ضمانت پر رہا کئے گئے، کچھ عرصہ بعد بیرون ملک چلے گئے، ان دنوں بھی کچھ لوگوں نے بہت ہی یادگار امکانات کی چہرہ کشائی کی تھی!
مثلاً، یہ کہ، سپریم کورٹ کے مقدس و باوقار ادارے کی زبان والا تبار سے آصف علی زرداری کا یہ اعلان رہائی حکمرانوں اور سیف الرحمٰن جیسے غیر معیاری ادراک رکھنے والے افراد کے اناڑی پن کا ثبوت ہے۔ یہ پاکستان کے قومی میڈیا کے 90فیصد حصے کی عبرتناک پسپائی ہے، یہ 90فیصد حصہ وہ ہے جس نے آصف علی زرداری کی کردار کشی کی۔ جنہوں نے اپنے دنیاوی مفادات کے لئے قوم کو ذہنی پراگندگی کا شکار بنانے کی کوشش کی لیکن سامنے آیا کہ ’’ابھی عقل سلیم کی موت واقع نہیں ہوئی، وہ آہستہ آہستہ ضروری حقائق کو بھانپ رہی ہے، کھیت سے چڑیاں ابھی اڑی نہیں نہ ہی کھیل بند ہوا ہے۔ ثابت ہو چکا کہ کسی کے خلاف انفرادی یا اجتماعی ہنگامہ آرائی اور دیوانگی سے اکثر بات نہیں بنا کرتی‘‘، اور آصف علی زرداری کے اعلان رہائی وقت کی گردشوں سے ان کا کامیابی سے بچ نکلنا ہے۔
معلوم نہیں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین میں کوئی گینگ آف فور ہے یا نہیں، پھر بھی جسے آصف علی زرداری کو ’’رہبر‘‘ بنانے کی ’’مقدس دھوکہ دہی‘‘ کی راہ سجائی دی ہے جس کے سہارے انہیں ہی نہیں بھٹو خاندان کو پارٹی سے دیس نکالا دے کر، ’’عوام کا قہقہہ ہی آخری قہقہہ ہو گا‘‘ کا خواب کرچی کرچی کرنا مقصود ہے۔
ایک اور یادداشت کے دروازے پر دستک دینا تو آصف علی زرداری ڈاکٹرا ئن کے حوالے سے فراموش ہونا ہی نہیں چاہتے، ایوان صدر سے رخصتی سے چند گھنٹے قبل انہوں نے پاکستان کے معروف اینکر پرسن سہیل وڑائچ سے کہا تھا ’’بھائی! ہمارے کچھ بین الاقوامی دوست، کچھ قوتیں، یہاں اس خطے میں اپنی کوئی پالیسیاں، کوئی پروگرام لانا چاہتے ہیں سو ہم نے کہا، ہم اس معاملے میں کمزور ہیں، آپ جنہیں مناسب سمجھتے ہیں ان سے مکالمہ کریں، اور ایک طرف ہو گئے،‘‘
لیکن ابھی آصف علی زرداری کی کہانی کہاں ختم ہو گی؟
تازہ ترین