• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بنانے والے نے بھی انسان کو کیا خوب بنایا ہے، بعض کی تو ایک جہت بھی ٹھیک طور سے پوری نہیں ہوتی اور بعض اس قدر تہہ دار اور کثیر جہت کہ سمجھنے کیلئے زمانہ چاہئے۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔ 26 دسمبر کو 95 برس کی عمر میں جہاں رنگ و بو سے کوچ کرگئے اور اس دن سے ان کے دوست احباب، رفقائے کار اور عزیز و اقارب ان پر مسلسل خامہ فرسائی کررہےہیں مگر ان کی پہلودار شخصیت کا احاطہ نہیں کرپارہے۔ ایک طرف وہ پاک آرمی کا تھری اسٹار جنرل ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران 1940 میں 20 برس کی عمر میں برٹش انڈین آرمی میں کمیشن پایا اور سیدھا میدان جنگ سدھارا۔ لیفٹیننٹ پروموٹ ہوئے، چندروز ہی گزرے تھے کہ مخالف فوجوں کے ہاتھوں گرفتار ہوکر جنگی قیدی ٹھہرا۔ اگلے تین برس اٹلی کے ایک جنگی کیمپ میں گزرے مگر اس اہتمام کے ساتھ کہ ایک دن بھی ضائع نہیں کیا۔ آزاد ہوا تو اطالوی، جرمن اور رشین زبانوں میں مہارت حاصل کرچکا تھا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کے دورہ ماسکو کی بات چلی (جو نہ ہوسکا) تو موصوف نے فائل پر اپنے قلم سے لکھا تھا کہ مترجم کے طور پر لیفٹیننٹ کرنل یعقوب علی خان ان کے ہمراہ جائیں گے۔ علم و ادب کی بات کریں تو وہ عالمی سطح کا اسکالر اور ماہر لسانیات دکھائی دیتا ہے۔ عالمی ادب سے جس کی شدھ بدھ حیران کن حد تک ہے جو جس سہولت سے غالب اور فیض پر بات کرتا ہے، کم و بیش یہی قدرت اسے پشکن اور ٹالسٹائی کے حوالے سے بھی حاصل ہے۔ جو اپنی ناول نگار نواسی (کاملہ شمسی) کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ صاف بتا بھی دیتا ہے کہ وہ اس کی تحریریں نہیں پڑھےگا کیونکہ ’’وار اینڈ پیس‘‘ جیسے شاہکار کو روسی زبان میں پڑھنے کے بعد اس نے ناول پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔جو یہ انکشاف بھی کردیتا ہے کہ شیکسپئر کے ڈرامہ ہیملٹ کی اثرانگیزی انگریزی کی بجائے اس کے جرمن ورژن میں کہیں زیادہ ہے۔ اس کی ذات کی بات کریں تو رامپور کی ریاست کے وزیراعظم کا یہ صاحبزادہ اپنے خاندانی اور تہذیبی پس منظر کے علی الرغم ایک نستعلیق قسم کا شہزادہ دکھائی دیتا ہے جس نے اپنی ذات کے گرد کئی دیواریں ہمیشہ اونچی رکھیں اور جو اپنی شخصیت کے سحر میں خود بھی مبتلا رہا جس کی غفلت ضرب المثل اور خوش پوشی کا یہ عالم کہ دنیا کی جامہ زیب شخصیات میں شمار ہوا۔
جو سفارت کاری کے میدان میں آتا ہے تو دنیا بھول جاتی ہے کہ اس شخص نے زندگی میں کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مردم شناس نگاہوں نےموصوف میں چھپا سفارتکار دیکھا تو 1972 میں فرانس میں بطور سفیر بھجوادیا، اور پھر چل سو چل، پیرس کے بعد واشنگٹن اور پھر ماسکو حتیٰ کہ 1982 آگیا۔ زمانہ قیامت کی چال چل چکا تھا۔بھٹو اقتدار سے ہی نہیں دنیا سے بھی جاچکا تھا اور اس کے فرستادہ سفارتکار بھی واپس بلائے جاچکے تھے۔ اگر کوئی بچا تو وہ فقط صاحبزادہ یعقوب علی خان تھا۔ ضیاء الحق کا سابقہ باس، اور جب بالآخر بلایا بھی تو خارجہ امور کی وزارت کی سربراہی کیلئے اور جس طرح سے ضیاء الحق ان کے سامنے بچھ بچھ جاتے اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے وہ مناظر آج بھی فارن آفس والوں کو یاد ہیں۔ 1965 کی جنگ کے بعد میجر جنرل یعقوب خان دوسری بار ون آرمرڈ ڈویژن کے کمانڈر مقرر ہوئے تو ضیاء الحق نامی ایک لیفٹیننٹ کرنل ان کے اسٹاف میں جی ایس او ون کے طور پر شامل ہوا۔ جو پیشہ ورانہ امور میں تو ٹھیک تھا مگر ایک خرابی تھی کہ عسکری پریزینٹیشن کے دوران غیرضروری تفصیلات میں چلا جاتا تھا اور جنرل یعقوب کو اس کی یہ عادت چھڑانے پر خاص محنت کرنا پڑی تھی۔ ایک روز ایک ایسی ہی پریزینٹیشن کی تمہید باندھتے باندھتے لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الحق جب بہت دور تک نکل گئے اور کام کی بات کی طرف نہیںآرہے تھے تو جنرل صاحب چلائے، ’’فل اسٹاپ‘‘ میں کہتا ہوں رک جائو، تم نے چار درجن الفاظ بول دیئےہیں اور کام کا ایک بھی نہیں۔ یہی لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الحق بعد میں آرمی چیف، چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی اور صدر پاکستان بنے اور گیارہ برس تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
ستمبر 1965 کی ابتدائی تاریخیں تھیں، جنگ ابھی شروع نہیںہوئی تھی، کشمیر میں آپریشن جبرالٹر چل رہا تھا، میجر جنرل یعقوب خان اسٹاف کالج کوئٹہ کے کمانڈنٹ تھے کہ فارن سیکرٹری عزیز احمد وار کورس کے طلباء کو لیکچر دینے آئے۔ اور اپنی معروف زمانہ تھیوری پیش کی کہ کشمیر میں جاری آپریشن بہت جلد کامیابی سے ہمکنار ہوگا اور بھارت اسے بنیاد بناکر بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ لیکچر کے بعد حسب دستور سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو کورس میں شامل ایک افسر کرنل شوکت رضا (جو بعد میں میجر جنرل بنے) نے پوچھا کہ فارن سیکرٹری صاحب یہ سب کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں؟ جواب آیا، ’’ہم نے اس مسئلے پر بے حد محنت کی ہے اور بہت غور و خوض کےبعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ گول مول سا جواب کسی کو بھی مطمئن نہ کرپایا اور کوئی بھی عزیز احمد صاحب کی یہ منطق قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھا کہ کشمیر میں بھارت کی گردن دبوچنے کے بعد ہم اس سے کسی قسم کے ردعمل کے امکان کو کیونکر رول آئوٹ کرسکتے ہیں؟اور اسی شام کمانڈنٹ جنرل یعقوب خان نے بڑے وثوق سے کہا تھاکہ اگر انڈیا نے اگلے 48 گھنٹے میں پاکستان پر حملہ نہ کیا تو اس سے بڑا ا حمق کوئی نہ ہوگا، اور 6 ستمبر کی شب جب انڈیا نے بین الاقوامی سرحد عبور کی تو جنرل کی دی گئی ڈیڈ لائن کے ابھی بہت سے گھنٹے باقی تھی۔
فوج میں یعقوب خان فلاسفر کمانڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ پاکستان کی تاریخ کےنازک ترین وقت میں جب ملک دولخت ہونے جارہا تھا، لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان کو ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ کے طور پر ڈھاکہ بھجوادیا گیا۔ موصوف ملٹری ایکشن کے خلاف تھے اور اپنا نقطہ نظر کھل کر یحییٰ خان کے سامنے رکھا جو اسے پسند نہ آیا۔ اور جنرل یعقوب خان مستعفی ہوگئے جو بیشک ایک جراتمندانہ فیصلہ تھا۔ مگر ایک سوال ذہنوں میں ضرور کلبلاتا ہے کہ یحییٰ خان کے غیرجمہوری طرزعمل کے سامنے ڈٹ جانے والے اس فلاسفر کمانڈر کو بعد کی غیرجمہوری حکومتوں کا حصہ بننے میں تامل کیوں نہ ہوا؟ اسلام آباد کی ایک اہم شاہراہ 9thایونیو آغا شاہی کے نام سے موسوم ہے۔ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو بھی اس حوالے سے یاد رکھا گیا ہے۔ سڑک تو نہیں البتہ فارن آفس والوں نے اپنی بلڈنگ کے نئے بلاک کا نام موصوف کے نام پر رکھ دیا ہے۔ اسی قسم کا خراج تحسین اہم عسکری ادارہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (NDU) بھی انہیں پیش کرچکا ہے جس کے کتب خانے کے باہر اب ’’صاحبزادہ یعقوب علی خان لائبریری‘‘ کی تختی نصب ہے۔
تازہ ترین