’’رواں برس ستمبر میں پاکستان اور بھارت کی افواج شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت روس میں ہونے والی فوجی مشقوں میں مشترکہ طور پر حصہ لیں گی‘‘ جنوبی ایشیا کے دو ارب سے زائد باسیوں کے لیے یہ یقیناً ایک خوش آئند خبر ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی قیادت کو بھی پڑوسیوں کے ساتھ پرامن تعلقات کی اہمیت اور ضرورت کا احساس ہورہا ہے۔ قوموں کے درمیان جنگ و جدل سے تباہی و بربادی اور امن و امان سے ترقی و خوشحالی کی راہوں کا ہموار ہونا محتاج وضاحت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب بصیرت قیادتیں ہمیشہ باہمی تنازعات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں عوامی جمہوریہ چین کی قیادت نے بین الاقوامی تعاون برائے اجتماعی ترقی کو باقاعدہ ایک نظریے کی شکل دی اور صدر پیوٹن کی قیادت میں روس نے بھی اسی راستے کو اختیار کیا۔شنگھائی تعاون تنظیم اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اس فکر کا عملی اظہار ہیں۔موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنہوں نے ابتداء میں عمومی طور پر جنگجویانہ طرز عمل اختیار کرکے دنیا کے تمام امن پسند لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا، وہ بھی اب نہ صرف شمالی کوریا سے اختلافات کے پرامن تصفیے کے لیے کوشاں ہیں بلکہ افغانستان میں بھی فوجی کے بجائے سیاسی حل تلاش کیے جانے کے قائل نظر آتے ہیں۔ جبکہ بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت جو پچھلے دنوں چین اور پاکستان سے بیک وقت فوجی محاذ آرائی کے عزائم کا اظہار کررہی تھی،اس کے رویے میں بھی تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان اقتصادی تعاون بڑے پیمانے پر شروع ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے بھارت کی مخالفت کا خاتمہ بھی یقینی نظر آتا ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ بھی کشمیر سمیت تمام اختلافات کے پرامن اور منصفانہ حل کی راہیں کھلنے کے امکانات روشن ہورہے ہیں۔ خطے اور دنیا میں امن کی جانب اس مثبت پیش رفت کے جاری رہنے کو یقینی بنایا جانا بلاشبہ انسانیت کی بقا اور ترقی کی ناگزیر ضرورت ہے۔