• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم اپنی تاریخ کا حساب کرنے بیٹھتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں مارشل لا یاد آتے ہیں۔ پہلا مارشل لا 1953 میں لگا۔ مگر وہ صرف لاہور تک ہی محدود تھا۔ پھر ایوب خاں کا مارشل لا آیا۔ اس مارشل لا نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد یحییٰ خاں کے مارشل لا نے اس ملک کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ ضیاء الحق کے مارشل لا نے پاکستان کو صدیوں پیچھے لے جا کر قعر مذلت میں پھینک دیا۔ جنرل مشرف کے مارشل لا نے اس ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ مارشل لا آتے رہے اور ہم اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے رہے۔ اب کیا ہے؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے مگر ہماری تسبیح کے دانے اسی طرح گر رہے ہیں۔ لیکن اس وقت ہم ان مارشل لائوں کو یاد نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان سرکش اور سر کشیدہ شخصیتوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے ان ماشل لائوں اور آمرانہ حکومتوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ خاص طور سے ہم ان خواتین کو یاد کرنا چا ہتے ہیں جنہوں نے آمرانہ طاقتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ایوب خاں سے یحییٰ خاں تک ہم دیکھتے ہیں کہ ان جمہوری تحریکوں میں حصہ لینے والے زیادہ تر مرد ہی تھے، خواتین اکا دکا ہی نظر آتی تھیں جیسے طاہرہ مظہر علی خاں یا شمیم اشرف ملک کی بیگم وغیرہ۔ لیکن ضیاء الحق کے مارشل لا نے یہ صورت حال بالکل ہی بدل دی۔ اب جو جمہوری حقوق کے لئے تحریکیں شروع ہوئیں، ان میں خواتین کے حقوق کا تحفظ بھی شامل ہو گیا۔ ضیاء الحق نے خواتین کے حقوق پر بھی چھاپہ مارا تھا۔ اس لئے یہاں ہمیں خواتین ہی آگے آگے نظر آتی ہیں۔ بلاشبہ اس دور میں صحافیوں نے کوڑے کھا ئے اور اپنی ملازمتوں سے ہاتھ بھی دھوئے۔ لیکن اس تحریک میں خواتین کی شرکت نے جمہوری قوتوں کو نئی توانائی بخشی۔ اگرچہ عاصمہ جہانگیر نے ایوب خاں کے زمانے میں ہی قانونی جنگ لڑ کر اپنا نام پیدا کر لیا تھا، لیکن یہ ضیاء الحق کا زمانہ تھا جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کے لئے لڑی جانے والی جنگ کے سپہ سالار کا پرچم سنبھالا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں ایم آر ڈی کی تحریک شروع ہوئی تو مردوں کے ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی کھل کر سڑکوں پر آ گئی۔ ان خواتین نے پولیس کی لاٹھیاں کھا ئیں اور جیلیں بھی کاٹیں۔ انہی خواتین میں ہماری مدیحہ گوہر بھی شامل تھی۔ مدیحہ نے بھی لاٹھیاں کھائیں اور پھر جیل کی ہوا بھی کھائی۔ اور پھر یہ ضیاء الحق کا دور ہی تھا جب مدیحہ نے پاکستان میں اسٹریٹ تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ یہ اسٹریٹ تھیٹر مزاحمتی ادب کی طرح مزاحمتی تھیٹر ہی تو ہے۔ معاشرے کے گلے سڑے رسم و رواج، ہماری تاریخ کے تاریک ادوار استحصالی طاقتوں اور آمرانہ حکومتوں کے خلاف بھرپور احتجاج۔ ہمیں مدیحہ کا وہ پہلا ڈرامہ یاد ہے جو انہوں نے اپنی کوٹھی کے لان میں کھیلا تھا۔ یہ بنگال کے معروف ڈرامہ نگار بادل سرکار کا ڈرامہ ’’جلوس‘‘ تھا۔ ہم اسے مغربی ڈراموں کی طرز کا ڈرامہ نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ یہ ڈرامہ بھی ہے، نوٹنکی بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسٹریٹ تھیٹر بھی ہے۔ یہ ڈرامہ وہ ہے جس میں اداکاروں کے ساتھ تماشائی خود بھی حصہ لیتے ہیں۔ ہم سامنے بیٹھے ہیں اور ہمارے سامنے ایک جلوس نکل رہا ہے۔ یہ جلوس رفتہ رفتہ مختلف شکلیں اختیار کرتا جاتا ہے۔ اور یہ تمام شکلیں ایک احتجاج ہیں ہمارے سیاسی اور سماجی استحصال کے خلاف۔ اور یہ ضیاء الحق کی حکومت تھی۔ اس ڈرامے میں ایک بھی پیشہ ور فنکار شامل نہیں تھا۔ سب کردار ہم میں سے ہی تھے۔ ان میں جو نام ہمیں یاد رہ گیا ہے وہ ہے راشد رحمٰن کا۔ انگریزی اخباروں کے مشہور و معروف مقالہ نگار اور ایڈیٹر راشد رحمٰن۔ مگر مدیحہ نے تو علامہ اقبال کے پوتے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے بیٹے منیب اقبال کو بھی اپنے ایک ڈرامہ میں اداکار بنا دیا تھا۔ یہ منیب اقبال آج کل عمران خاں کی پارٹی کے لیڈر ہیں۔
چونکہ ہندوستان میں اسٹریٹ تھیٹر کی روایت بہت پرانی ہے اس لئے مدیحہ نے شروع میں جو ڈرامے پیش کئے وہ ہندوستانی لکھاریوں کے ہی تھے۔ ان میں سے کئی ڈرامے جو ہندی میں تھے انہیں ہم نے اردو میں منتقل کیا تھا۔ اسٹریٹ تھیٹر میں اسے ہمارا حصہ کہہ لیجئے۔ یہ ڈرامے ہماری اپنی صورت حال کی ہی عکاسی کرتے تھے لیکن یہ اس وقت تک کی بات ہے جب تک مدیحہ اور شاہد محمود ندیم کی جو ڑی نہیں بنی تھی۔ شاہد ندیم کے آنے کے بعد طبع زاد ڈراموں کا دور شروع ہوتا ہے۔ شاہد ندیم ڈرامہ لکھتے اور مدیحہ انہیں پیش کرتی۔ اب منٹو کے افسانوں پر ڈرامے کھیلے جا رہے ہیں۔ غلام عباس کی سائنس فکشن پر ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ ’’بلہا‘‘ اور ’’بھگت سنگھ‘‘ جیسے ڈراموں کو تو جانے دیجئے کہ ان ڈراموں نے تھیٹر میں نئی طرز کی بنیاد رکھی، اور اس انداز کے ڈراموں کی کامیابی کے لئے نئی راہ کھو لی، آپ ’’دارا شکوہ‘‘ اور ’’ایک تھی نانی‘‘ جیسے ڈراموں پر ہی نظر ڈال لیجئے۔ ان ڈراموں نے اپنے دیکھنے والوں کو اس خطے کی تاریخ کے بارے میں نئے سرے سے سوچنے سمجھنے پر مجبور کیا۔ آئیے، اب ہم پھر ضیاء الحق کے زمانے میں چلتے ہیں۔ ان دنوں سچ بولنے اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے پر جو پابندیاں تھیں ان کی موجودگی میں مدیحہ جیسی بے باک اور نڈر تھیٹر والی کے لئے الحمرا آرٹس کونسل جیسے عام مقامات پر اپنے ڈرامے پیش کرنا بالکل ہی ناممکن تھا۔ ایسے کٹھن وقت میں ہمارے ممتاز مورخ ڈاکٹر مبارک علی مدیحہ کی مدد کو آگے آئے۔ ان دنوں گلبرگ کی ایک کوٹھی میں جرمن کلچرل سنٹر گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کام کر رہا تھا۔ ڈاکٹر مبارک علی اس کے ڈائریکٹر تھے۔ مدیحہ کے اسٹریٹ تھیٹر کو اس کے اپنے گھر کے بعد جہاں سر چھپانے کی جگہ ملی وہ یہی گوئٹے انسٹی ٹیوٹ تھا۔ اس کے بیشتر ابتدائی ڈرامے اسی انسٹی ٹیوٹ میں کھیلے گئے۔ پھر جب ضیاء الحق ہوائی جہاز کو پیارے ہو گئے، اور اس مصائب زدہ ملک میں بے نظیر کی حکومت آ گئی تو مدیحہ گوہر پر الحمرا آرٹس کونسل کے دروازے بھی کھل گئے۔ مدیحہ اور شاہد محمود ندیم کے لئے یہی خاصا زرخیز دور ہے۔ اس دور میں مدیحہ اور شاہد ندیم کی جوڑی نے وہ ڈرامے پیش کئے جنہوں نے پاکستانی تھیٹر یا پاکستانی اسٹریٹ تھیٹر کی نئی تاریخ بنائی۔ تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضیاء الحق کے آمرانہ دور نے ہی مدیحہ جیسی سرکش خواتین کو جمہوری حقوق کے لئے میدان میں آنے پر اکسایا؟ اور یہ اسٹریٹ تھیٹر بھی تو اسی دور کی پیداوار ہے۔
اور یہ چند مہینے پہلے کی ہی بات ہے۔ پروفیسر منظور احمد کے گھر مدیحہ سے ملاقات ہوئی۔ کون جانتا تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہو گی۔ دیکھنے میں وہ ٹھیک ٹھاک نظر آتی تھی۔ باتیں بھی اس نے اسی زور شور سے کیں جو اس کی عادت تھی۔ اس نے اپنے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا۔ تین سال پہلے سرطان کے جس موذی مرض نے اس پر حملہ کیا تھا اس شام ایسا لگتا تھا جیسے وہ اس مرض پر قابو پا چکی ہے بلکہ دوسال پہلے لاہور لٹریری فیسٹیول میں اسے جتنا کمزور اور لاغر دیکھا تھا اب وہ ایسی بھی نہیں تھی۔ کافی صحت مند نظر آتی تھی۔ ہم تو خوش تھے کہ مدیحہ اب پھر پوری توانائیوں کے ساتھ اپنا اسٹریٹ تھیٹر، جو اب اتنا اسٹریٹ تھیٹر بھی نہیں رہا تھا، پیش کرتی نظر آئے گی۔ لیکن ایک دن اچانک اطلاع ملی کہ وہ ہم میں نہیں رہی۔ یہ جو سرطان جیسا موذی مرض ہے وہ انسانوں کے ساتھ ایسے ہی کھیل کھیلتا ہے۔ جی ہاں، مدیحہ ہم میں نہیں رہی۔ لیکن مدیحہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ اس نے ہمارے تھیٹر اور ہمارے اسٹیج ڈراموں کو جو کچھ دیا ہے وہ اسے ہمارے درمیان ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ اول تو اس نے اسٹیج ڈرامے میں جو ایک نئی راہ نکالی ہے اس راہ پر اور بھی کئی نوجوان تھیٹر والے چل نکلے ہیں۔ اور پھر ابھی شاہد محمود ندیم بھی تو ہمارے درمیان موجود ہیں۔ خدا انہیں لمبی عمر عطا فرمائے۔ مدیحہ ان کے لکھے ہوئے ڈرامے ہی تو اسٹیج کرتی تھی۔ اب ہماری ساری امیدوں کا سہارا شاہد محمود ندیم ہی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے ڈراموں کے سہارے اپنا اور مدیحہ کا نام اسی طرح زندہ رکھیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین