• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی کے موقع پرہر سال سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر ملک بھر میںتعطیل ہوتی ہے اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ان تقریبات، سیمینارز اور جلسے جلوسوں میں مزدوروں کے حقوق کیلئے آواز بلند کی جاتی ہے اور اس عزم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ مزدوروں کو درپیش مشکلات کم کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کیا جائے گا، اسی طرح کے نعروں، وعدوں اور دعوؤں میں آٹھ گھنٹے کا دن گزر جاتا ہے اور جونہی سورج غروب ہوتا ہے، رات کی سیاہی چھاتی ہے تو مزدور کا مقدرپھرانہی تاریکیوں میں گم ہوجاتا ہے۔ محض یکم مئی کو یوم مزدوراں منا لینے سے مزدوروں کے مسائل حل نہیں ہوتے، مزدوروں کو ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ اور تعلیم صحت چھت اور روز گار کی ضمانت اور تحفظ کی ضرورت ہے۔ لیبر قوانین بھی صرف رجسٹرڈ مزدوروں کی تعداد کو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں حالانکہ کھیتوں میںدن بھر محنت کرنے والے، اینٹوں کے بھٹوں پرخون پسینہ ایک کرنے والے، ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں کام کرنے والے کروڑوں مزدور ایسے ہیں جن کو کبھی کسی ادارے نے رجسٹرڈ نہیں کیا۔ یہاں مزدورمحنت کش اور کسان کی محنت کا پھل سرمایہ دار اور جاگیردار کھاتے ہیں، المیہ یہ ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کے حقوق غصب کرنے والا ٹولہ ہی ان کی وکالت کی ڈرامہ بازی کرکے انہیں بار بار دھوکہ دیتا ہے۔ ہمارا اصل ہدف یہ ہے کہ محنت کشوں کی محنت کا پھل جس پر ان کے بچوں اور گھر والوں کا حق ہے کسی جاگیر دار اور وڈیر ے کو نہ کھانے دیا جائے۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر مزدوروں کو کارخانوں اور کسانوں کو زمینوں کی پیداوار میں حصہ دار بنائے گی۔
اس وقت ملک میں بجلی اور گیس کا سنگین بحران ہے جس کی وجہ سے کارخانے اور صنعتی یونٹ شدید دباؤ کا شکار ہیں، کارخانوں اور فیکٹریوں کو تالے لگ رہے ہیں، ہزاروں مزدور بے روزگار ہورہے ہیں جس کے اثرات ان سے وابستہ خاندانوں اور زیر کفالت لاکھوں افراد پر پڑ رہے ہیں۔ توانائی کے اس بحران سے نکلنے کیلئے حکومت سنجیدہ اقدامات نہیں کررہی،حکومت کی ساری توجہ میٹرو،اورنج لائن ٹرین، سڑکیں اور پل بنانے پر مرکوز ہے حالانکہ ان کے بغیر بھی کام چل رہا تھا، یہ منصوبے عیاشی کے زمرے میں آتے ہیں، عوام کی بنیادی ضروریات تعلیم، صحت، روز گار،چھت، امن عامہ کا قیام اور جان و مال کا تحفظ ہیں۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان تمام شعبوں میں حکومت بری طرح ناکام نظر آتی ہے اور ہر شعبہ زبوں حالی کی تصویر بن چکا ہے۔ بے روز گاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔ تعلیم سرکاری شعبے سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر میں چلی گئی ہے اور یہ اتنی مہنگی ہے کہ ایک متوسط طبقہ کیلئے اس کا حصول ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کی بھاری فیسوں اور مہنگی کتابوں اور کاپیوں کی وجہ سے ہر فرد پریشان ہے۔ ایک مزدوراور دیہاڑی دارشخص تو ان اسکولوں میں بچوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔صحت کے شعبہ کی حالت اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے، سرکاری اسپتالوںمیں علاج معالجےکی سہولتیں ہیں نہ آبادی کے حساب سے سرکاری اسپتال موجود ہیں۔ اسپتالوں میں مریضوں کیلئے بستر ہیں نہ ادویات دستیاب ہیں۔
اب میں گوادر کے ہزاروں ماہی گیروں کو درپیش مشکلات کی طرف آتا ہوں۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری بلا شبہ گیم چینجر اور خطے کی معاشی ترقی کیلئے ایک انقلابی منصوبہ ہے جس سے علاقے کی تقدیر بدل جائے گی،لیکن کیا تقدیر ہمیشہ سرداروں، جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کی ہی بدلتی رہے گی یا اس کا کوئی فائدہ غریب مزدور کو بھی پہنچے گا۔ضرورت تو اس بات کی ہے کہ کھانا سب سے پہلے ان لوگوں کو ملے جو بھوک سے نڈھال ہیں لیکن یہاں سب سے پہلے کھانے پر وہ ٹوٹ پڑتے ہیں جن کی پہلے ہی توندیں نکلی ہوئی ہیں۔
سینکڑوں سالوں سے گوادر ماہی گیروں اور چھوٹے مچھیروں کیلئے مچھلی کی ایک قدرتی شکار گاہ ہے، مچھلی نہ صرف دنیا بھر میں انسانی خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہے بلکہ یہ انسانوں کیلئے روزگار کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میںتقریبا ً 12 کروڑسے زائد افراد کلی یا جزوی طور پر مچھلی کے کاروبار سے منسلک ہیں، مقامی آبادی کو روزگار فراہم کرنے میں اس شعبے کا اہم کردار ہے پاکستان کا ساحل 1050 کلومیٹر پر مشتمل ہے جس میں 750 کلومیٹر بلوچستان اور 330 کلومیٹر تک سندھ ہے۔ ماہی گیری پاکستان کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے مچھلی پاکستان کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے، مچھلی اور مچھلی سے بنی مصنوعات کی برآمدات تقریباً84493 میٹر ک ٹن تک پہنچ چکی ہیں جس کی قیمت تقریبا7.9 ارب روپے بنتی ہے مچھلی سے بنی ہوئی اشیاءتقریبا ً 30 سے 35 پورپین ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں جبکہ کچھ ممالک جاپان، امریکہ، چین، ملائشیا، سنگاپور مچھلی سے تیار شدہ اشیاءدرآمد کرتے ہیں۔ سی پیک اور بندر گاہ بننے سے ان غریب مچھیروں کو روزگار کے لالے پڑ گئے ہیں۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ماہی گیر ی کے شعبے سے 395000 افراد منسلک ہیں۔ اتنا اہم شعبہ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکارہے۔ بظاہر وفاقی اور صوبائی سطح پر محکمہ فشریز کا ادارہ قائم ہے لیکن یہ محکمہ ماہی گیروں اور ماہی گیری کے تحفظ کے بجائے ماہی گیروں کیلئے مستقل درد سر بن چکا ہے اور ماہی گیر محکمہ فشریز کے اقدامات سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ سمندری طوفانوں میں سمندر کے اند رجاںبحق ہونے والے ماہی گیروں کے بچوں کو مالی امداد فراہم کی جائے اور ان کے بچوں کی سرپرستی کی جائے۔ماہی گیروں کے روزگار کو مزید بہتر بنانے، ماہی گیری کے آلات خریدنے کیلئے بلا سود قرضے فراہم کئے جائیں۔ وہ ماہی گیر جو غلطی سے کسی ملک میں سرحد پار چلے جاتے ہیں ان کے خاندان کی مالی امداد کی جائے اور ان کی رہائی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ بینڈ سیزن ( جون، جولائی ) میں ماہی گیروں کیلئے راشن وغیرہ کی مد میں سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔ ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کیلئے فشریز ویلفیئر بورڈ قائم کیا جائے۔ ان ماہی گیروں کو گزارہ الائونس فراہم کریں جو ضعیف العمری یاکسی بیماری کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے۔کشتی سازی کو صنعت کا درجہ دیا جائے۔ کشتی سازوں کو جدید سہولتیں فراہم کی جائیں اورا نکی سرپرستی کی جائے۔ ماہی گیروں کے بچوں کو مختلف محکموں میں روزگار دینے کیلئے ایک کوٹہ مقرر کیا جائے۔ مچھلی کے انڈوں کے موسم میں ماہی گیری پر مخصوص علاقوں کی بنیاد پر پابندی لگائی جائے۔ ماہی گیر ی کے شعبے کو ادارہ جاتی قرضے میسر نہیں اس سلسلے میں ماہی گیروں کیلئے علیحدہ فشریز ڈویلپمنٹ بینک قائم کئے جائیں جن کے ذریعے سے ماہی گیروں کو بلا سو د قرضے فراہم کئے جائیں۔

تازہ ترین