• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماسوائے چند ایک، اکثر واقعات میں من حیث القوم ہمارا ردعمل افسوسناک اور عقل و فہم سے بالاتر ہوتا ہے۔ میں میشا شفیع اور علی ظفر کو ایک عرصہ سے جانتی ہوں۔ میشا شفیع کے حمایتی سامنے آنے ہی تھے۔ تاہم یہ بتاتی چلوں کہ ہمارے مشرقی معاشرہ میں پوشیدہ یہ لاوا کئی دہائیوں سے پھٹنے کیلئے زور مار رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اس واقعہ کے بعد مخالفت پر مبنی شرمناک ردعمل بھی آئیگا۔ مخالفین دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ میشا شفیع کی علی ظفر کے ساتھ تصاویر پر اپنا بیانیہ پیش کرکے حقائق کو توڑ مروڑ رہے ہیں۔ان کو زیر بحث لانے سے پہلے وہ تلخ حقائق بیان کرنا چاہوں گی جو پاکستان کی ہر بیٹی اور ماں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ عورت کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا حصہ وہ ہے جب زندگی کےرنگوں، خوشیوں اور تلخیوں کو قریبی مردوں اورماں کی عینک سے دیکھتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں ایک بیٹی کا گھر سے نکلنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ بھائی، باپ، ماں یا پھر ڈرائیور ہمراہ ہوگا تو تعلیمی ادارہ یا پھر کسی اور جگہ جاسکے گی۔ پاکستانی معاشرہ ایک بیٹی کو تحفظ کی چھتری فراہم کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ والدین آج بھی بچیوں کو اکیلے باہر نکلنے سے ڈراتے ہیں لیکن بیٹوں کی اخلاقیات کے مطابق ذہنی آبیاری نہیں کرپاتے کہ انھوں نے اپنے جسم کا غلط استعمال نہیں کرنا عورت ذات پر ظلم نہیں کرنا۔ جسم خدا کی امانت ہے اس کے غلط استعمال کی سزا بڑی ہی خوفناک ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کمسن بیٹی زینب کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ بعد ازاں احتجاج وقانون حرکت میں آیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی تیز رفتاری سے فیصلہ ہوا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجرم کو سزا دینے کے بعد کیا ایسے واقعات ہونا بند ہوگئے ؟ معاشرے نے اس واقعہ کے بعد اپنا فرض ادا کیا ؟نہیں نا۔ آج بھی میرے ملک میں کنواری زینب سے لیکر شادی شدہ زینب تک اتنے ہی عدم تحفظ کا شکا رہے جتنی پہلے تھی۔ عورت کی زندگی کا دوسرا حصہ وہ ہے جب وہ میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے دوران یا مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں نوکری یا پھر شادی کرلیتی ہے۔ اگر ملازمت کر لیتی ہے تو کنواری ہو یا شادی شدہ اسے آفس کے چوکیدار سے لیکر چیف تک ہر قسم کے افراد کی طرف سے چبھنے والی مشکل نظروں، دست درازی اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ماڈرن کپڑے پہن لے تو قابل اعتراض فقرے کسے جاتے ہیں عام کپڑے پہنے تو بھی منفی تبصروں کے نشانے پر ہوتی ہے۔ دفتر میں شکایت کرے تو نوکری اور بعض اوقات جان بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ خاوند کو نہ بتائے تو بڑا جنجال یعنی کردار کشی اور طلاق سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ گھر سے نکلنے کے بعد دفتر ہو یا بازار ہر جگہ بلا امتیاز عمر سر کش نظریں اسے مسلسل ٹٹول رہی ہوتی ہیں۔گود سے گور تک لفظ ناقص العقل کی گردان عورتوں کی قسمت میں رہ گئی ہے۔اگرچہ یہ ہمارے معاشرتی ترکش میں سب سے نچلے درجے کا تیر ہے لیکن اس کی گردان اس قدرموثر ہے کہ مردوں کے ساتھ ساتھ کم فہم اور کم تعلیم یافتہ عورتوں کی اکثریت اس کو من و عن تسلیم کرچکی ہے اور اس بیانیہ کو پھیلانے کا باعث بن رہی ہے۔ بھائی، باپ اور یہاں تک کہ مائیں بھی یہ لفظ ہر لڑکی کے ذہن میں انڈیل دیتی ہیںکہ وہ ناقص العقل ہے اس کو مان کر چلے اور مردانہ ذہنیت کے آگےا نکا کوئی زور نہیں چل سکتا ہے۔ لہٰذا مرد سیاہ کریں یا سفید کریں فیصلہ کن حیثیت انھی کی ہے۔ ناقص العقل کے درے مار مار کر پہلے عورت کی عقلی نشوونما کو سلب کیا جاتا ہے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کی راہ میں بھرپوررکاوٹیں ڈالی جاتی ہیںاور یہ بھونڈی دلیل دی جاتی ہے کہ یہ تو بیٹی ہے اس نے اگلے گھر چلے جانا ہے۔ اگر وہ پھر بھی کسی بھی طرح ہمت کرکے اعلی ترین تعلیم حاصل کر ہی لے تو شادی کے بعد اسے گھر بٹھا دیا جاتا ہے۔ مردانہ حاکمیت کا نفاذ طلاق سے مشروط کردی جاتی ہے اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا۔ سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ عورت کا ذہن مرد کی نسبت زیادہ کثیر الجہتی ہوتا ہے اسی لئے وہ بیک وقت متعدد کام بخوبی سر انجام دیتی ہے اور اکثر کیسز میں وہ مرد سے زیادہ مفید اور موثر ثابت ہوتی ہے۔میشا شفیع معاملہ میں یہاں یہ سوال ہرگز نہیں کہ میشا اتنا عرصہ کیوں چپ رہی اور اب زبان کیوں کھولی؟یہ بات تو سچ ہے کہ مرد ہر جگہ موقع بہ موقع محض منفی پراپیگنڈہ کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ عورت کوئی راز پیٹ میں سنبھال نہیں سکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عورتیں بچپن سے لیکر بڑھاپے تک اپنے دائرے میں آنے والے تمام مردوں کے اتنے ضخیم راز اپنے سینے میں چھپائے رکھتی ہیں کہ اگر وہ تمام رازطشت ازبام کردے تو پورا معاشرہ تلپٹ ہوجائے اور نام نہا دمعزز ین کے اونچے شملے زمین بوس ہوجائیں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ میشا اس معاملہ میں متاثرہ فریق ہے۔ شاید ایسا موقع بھی آئے کہ وہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے اور کوئی گواہ بھی عدالت میں آنے کی ہمت نہ کرسکے اورعدالت علی ظفر کو بے قصور قرار دے۔ اور میشا کو معافی یا سزا مل جائے۔ اگر دنیا میں علی ظفر معصوم ثابت ہو بھی گیا تو روز آخر کیسے سچا ہوگا جب اسکی زبان بند کردی جائیگی اور تمام اعضاءکو زبان عطا کردی جائیگی۔ یہاں قصور معاشرہ کا بھی ہے جو بیٹوں کے سنجیدہ جرائم پردہ ڈال کر یہ کہتا ہے کہ منڈے ایسے ہی کرتے ہیں۔ می ٹو مہم میں شدت آنے پر اسے مغرب کا ایجنڈا قرار د ینے والوں کیلئے عرض ہے یہ معاملہ میشا شفیع تک محدود نہیں رہے گا۔ میں معاشرے کے ان افراد کے منافقت زدہ بیانیہ کو سنجیدگی سے رد کرتی ہوں اور درخواست کرتی ہوں کہ معاشرے کے تمام افراد نہ صرف اپنا بیانیہ بلکہ اذہانیہ بھی بدلیں ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ انکی میشائوں کو بھی کبھی زبان کھولنی پڑ جائے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین