• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کے بڑے ایوانوں میں کیا ہوتا ہے اور ٹھنڈے ڈرائنگ روموں میں ہونے والے سیاسی فیصلے کتنے دیر پا ہوتے ہیں یہ کوئی ملین ڈالر سوال نہیں کہ جس کا جواب نہ مل سکے۔ سب جانتے ہیں کہ آج کل کی پاکستانی سیاست ماضی کے برعکس کھیتوں کھلیانوں، چوپالوں، میدانوں، تعلیمی اداروں، گلی محلوں، بازاروں، چوکوں، چوراہوں سے نکل کر جاگیردار، سرمایہ دار، صنعت کار کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے۔ جن غریبوں کے نام پر سیاست کا یہ کھیل کھیلا جاتا ہے یا جن کا نام لے لے کر سیاست دان بائولے ہوئے جاتے ہیں ان کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں۔ کورٹ کچہری کے فیصلے اپنی جگہ، کون کیوں کس لئے نااہل قرار پایا یہ ہمارا سوال نہیں۔ آج کا سوال ہے، آئندہ پاکستانیوں کے دلوں پر کون راج کرے گا؟ مستقبل میں نظام حکومت کیسا ہوگا؟ اور کیا اس بار عوام کے ووٹ کی حقیقی معنوں میں قدر ہوگی؟ موجودہ سیاست دانوں کی دستیاب لاٹ میں سے کون کس سے بہتر ہے یہ بحث گھر گھر جاری ہے۔ اعلیٰ عدالتوں میں جاری اہم ترین مقدمات کی سماعت اور شریف خاندان کی نیب میں پیشیوں، ممکنہ فیصلوں سے بالاتر عوام 2018 ء کے انتخابات کے منتظر ہیں۔ جب انہیں اپنے ضمیر اور شعور کے مطابق فیصلہ کرنے کا موقع ملے گا کہ ان کا آئندہ حکمران کون ہو؟ شخصیات کی بنیاد پر بظاہر براہ راست دنگل تو خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف، خیبرپختوانخوا میں تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کے دعویدار عمران خان، سندھ کے سیاسی مالک سب پر بھاری، آصف زرداری کے درمیان نظر آتا ہے جبکہ انتخابی دنگل میں حیران کن طور پر پانچ سال اقتدار کے مزے لوٹنے والے گٹھ جوڑ کے بادشاہ، ہر نئی حکومت کے قدرتی اتحادی مولانا فضل الرحمٰن نے سراج الحق کے تعاون سے ایم ایم اے کی شکل میں ایک مضبوط انٹری کی کوشش کی ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی سیاست میںان دو شخصیات کی اہمیت سے انکار نہیں۔ پاکستان کی موجودہ رنگ برنگی سیاست اب بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد نرالا رخ اختیار کرتی نظر آتی ہے اورنئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کا رنگ جنوبی پنجاب صوبہ بنائو تحریک پر بھی چڑھ گیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے نام پر پنجاب کا ایک مضبوط سیاسی دھڑا مستقبل کی انتخابی سیاست میں ن لیگ کو آنکھیں دکھاتا نظر آتا ہے۔پنجاب کے چودھری برادران بھی بہاولنگر کے ’’بابا جی‘‘ سے دعا لے آئے ہیں، ممکن ہے یہ دعا کئی دلوںمیں گھر کر جائے اور فنکشنل لیگ، جنوبی پنجاب صوبہ تحریک اور چودھری برادران ایک ہوجائیں۔ دوسری طرف ہمارے بے ضرر جاوید ہاشمی صاحب نے بھی پرانی گاڑی چھوڑ کر نئی گاڑی پر سیاسی سفر کا فیصلہ کیاہے۔ پنجاب کے شہباز اب اونچی پرواز کی خاطر ایک بار پھر سندھ کے مورچے پر ڈٹے ہیں اور انہوں نے ایم کیو ایم بہادر آباد کے سہارے نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے اور اے این پی کے سینیٹر شاہی سید کی انہیں حمایت حاصل ہے مگر انہوں نے ن لیگ کے سندھ میں ڈوبے سفینے کو کنارے لگانے کی خاطر اپنی جماعت کے دیرینہ ساتھیوں کا سہارا لینا گوارا نہیں کیا اور حالات کے رخ اپنی پرواز شروع کر دی جو شاید بحیثیت ن لیگ کے صدر ان کا پہلا کمزور سیاسی فیصلہ تصور کیا جائے گا۔ بہتر تو یہ تھا کہ وہ (ن) لیگ کے تمام دیرینہ بزرگ ساتھیوں کو مناتے اور نوجوانوں کو پکارتے اور ان کے کندھوں پر سوار ہو کر کراچی کے گلی کوچوں میں جاتے چاہے ان کا قافلہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہوتا۔ یقیناً لیڈر کبھی ہجوم کا محتاج نہیں ہوتا۔ اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ ہمیشہ دلوں پر راج کرتا ہے اور یہی کارگر اور دیرپا فارمولا ہے۔ میاں شہباز شریف کا طرز حکمرانی اختلافات، سوالات اور الزامات کے باوجود چاروں صوبوں میں قابل قبول نظر آتا ہے مگر شاید حالات ابھی ان کے ساتھ نہیں تاہم ایسی بھی مایوسی نہیں کہ وہ مستقبل کے سیاسی ڈھانچے میں اپنا مضبوط سیاسی کردار ادا نہ کرسکیں۔ صرف صفیں سیدھی کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان کے عوام براہ راست ان کے منتظر ہیں۔
سندھ خصوصاً کراچی خصوصاً حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے دھڑوں میں کھینچا تانی جو رخ اختیار کرتی نظرآتی ہے کوئی ایک بھی دھڑا ان دونوں شہروں پر براہ راست سیاسی قبضہ جمانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتا مگر پی ایس پی کی شکل میں مصطفی کمال اپنا کمال دکھا سکتے ہیں اور اندرون سندھ فنکشنل لیگ، ذوالفقار مرزا اینڈ کمپنی، شیرازی برادران پیپلز پارٹی کی راہ میں رکاوٹ بنتے نظر آتے ہیں۔ آنے والے دنوں میں سندھ کی سیاست میں ’’لوٹ سیل‘‘ لگنے والی ہے۔ بڑی بڑی سیاسی شخصیات حیران کن طورپر نئے سیاسی ٹھکانوں پر بسیرا کرنے والی ہیں کہ اقتدار ہی ان کی ترجیح ہے۔ دیکھتے ہیں کس کے ہاتھ کیا لگتا ہے۔ (ن) لیگ کے بعد محسوس یہی ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی پر بھاری وقت آنے والا ہے۔ راز داں کہتے ہیں کہ ’’چن‘‘ چڑھنے کے بعد کوئی نیا ’’چن‘‘ ضرور چڑھے گا اوریہ چن پیپلز پارٹی پنجاب کو گجرات سے لاہور تک گرہن ضرور لگائے گا۔ پیپلز پارٹی پر گرہن کے بد اثرات نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں جو نظر آتا ہے وہ ہے نہیں جو ہے وہ نظر نہیں آتا۔ یہاں سیاست حبس زدہ، گھٹن اور دبائو کے ماحول میں ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری نے ن لیگ کو جو گھائو لگایا ہے جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کی شکل میں ازالے کی اچھی کوشش ہے۔ دیکھتے ہیں جنرل صاحب اپنے مزاج سے ہٹ کر ن لیگ کو بلوچستان میں کس طرح اس کا کھویا مقام واپس دلا سکتے ہیں؟ عوامی حلقوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے قائدین عبدالمالک بلوچ، میر حاصل بزنجو نیک نام ہیں۔ ان کا اڑھائی سالہ دور حکومت معتبر حلقوں، ناراض بلوچوں کے درمیان پل کا کردار قرار دیا جاسکتا ہے۔ مستقبل میں بلوچستان میں اقتدار کی سیاست ان کے گرد گھوم سکتی ہے۔ نئے ٹیلنٹ کو تجربہ کار مخلص لوگوں کے ساتھ بلوچستان کی معاشی وسیاسی تعمیر وترقی و خوش حالی کے نئے دور میں آزمایا جاسکتاہے۔
سیاست کے کھیتوں پر جو ’’کلٹی ویٹر‘‘ چلنے جارہا ہے وہ خیبرپختونخوا کی سنگلاخ چٹانوں کو بھی زرخیز مٹی میں بدلنے کی کوشش کرے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کے پی میں اپنی کارکردگی کے گن گانے والے شکاری پنجاب کے پرندے پکڑتے پکڑتے خیبرپختونخوا میں اپنا کھیت اجاڑ بیٹھیں۔ کے پی کی آئندہ کی سیاست میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اے این پی اور ایم ایم اے اہم کردار ادا کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔ ن لیگ کا یہاں کوئی ’’امیر‘‘ ہے نہ ’’مقام‘‘ سیاست کے حمام میں ہر کوئی خوشیاں سمیٹنے کا خواہاں ہے، غم بانٹنا کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ کیا خوب مذاق ہے کہ سرمایہ دار اشرافیہ کو اپنی مخالف اشرافیہ کا توڑ کرنے کے لئے ایک بار پھر غریبوں کے حقوق اچانک یاد آگئے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین