• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کا غا ن، ناران جاتے ہوئے بے شمار ایسے نظارے آتے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ انسان سارے دکھوںسے آزاد ہو کر یہاں ہی ایک چھوٹی سی کھٹیا بنا کر زندگی بسر کرنے لگے۔اونچے نیچے سبزے سے لدے ہوئے پہاڑ، ان پر بے ترتیبی لیکن انتہائی خوبصورتی سے لگے ہوئے درخت، پرندوں کی نغمگی سے بھری ہوئی آوازیں،درختوں کے پتوں کو چھیڑتے ہوئے ہوائوں کے جھونکے، بہتے پانی کی کبھی ہلکی سرسراہٹ اور کبھی پانی کے تیز ریلوں کا شور یہ سارا ماحول آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری کردیتا ہے۔ بل کھاتی سڑک پر دو ستو ں کے ہمر ا ہ محوسفر تھا کہ بہتے پانی کے پاس ہی درخت کی کاٹی ہوئی شاخوں کی چھت بنا کرایک چھوٹے سے جھونپڑے میں چارپائی پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا بانسری بجا رہاتھا۔یوں تواس سفر میں ہر تھوڑے فاصلے پر ایسا منظر یا ایسی جگہ ضرورآتی ہے کہ انسان سوچنے لگتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے یہاں پڑائو ڈال دیاجائے۔ لیکن اگلی منزل تک بروقت پہنچنے کی جلدی میں ناران یا کاغان کی طرف جانے والے پڑائو کے یہ حسین مواقع ضائع کردیتے ہیں حالانکہ منزل پر پہنچنے سے پہلے یہ مناظر اور تھوڑی دیر کے لیے رکنا آپ کے سفر کی حسین یادوں کو دوبالا کردیتا ہے، لیکن اس نوجوان کے جھونپڑے نے بے اختیار میرے پائوں بریک پر ڈال دیئے اور میں نے اپنی گاڑی کو سائید پر پارک کردیا۔نوجوان جو بانسری بجارہا تھا رک گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا وہ کچھ شرما سا گیا ہے میں نے اپنے دوستوں کے ہمراہ اسے سلام کیا، پوچھنے پر معلوم ہوا اس کا نام منیر ہے لیکن لوگ اسے میرو کہہ کر بلاتے ہیں۔ چند جماعتیں پڑھ کرا سکول اس نے چھوڑ دیاتھا اور اب وہ بکریاں چراتااور بانسری بجاکرخود کو مصروف اور خوش رکھنے کوشش کرتا تھا۔ ہماری فرمائش پر اس نے ایک خوبصورت دھن سنائی
یہ وادیاں یہ پربتوں کی شہزادیاں
یوں اس نے ہماری فرمائش پرچندمزید نغموں کی بانسری پر دھنیں سنائیں۔ہم نے انعام کے طورپر اس نوجوان لڑکے کو کچھ رقم بھی دی اور وہاں سے روانہ ہوگئے اس سفر کی حسین یادیں لے کر واپس آئے، تو مجھے ایک شادی کے سلسلے میں نارووال جانا پڑا۔یہ سفر ناران کاغان سے بالکل مختلف تھا۔سڑک پر ریڑھے،ٹرالیاں، ٹرک بسیں، کاریں اور پھر موٹر سائیکلوں کا شور بے ہنگم طریقے سے رواں دواں تھا۔ اڑتی دھول سے موسم کی شدت میں اضافے کا احساس ہوتا تھا لیکن کہیں چلتے ٹیوب ویل سے بہتے پانی کے دھارے کو دیکھ کر تازگی کا خوشگوار احساس ہوتا تھا۔نارووال میں داخل ہونے سے پہلے دائیں جانب بڑی چاردیواری کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہ نیشنل اسپورٹس سٹی نارووال ہے۔مجھے تھوڑی سی حیرانی ہوئی کہ چھوٹے سے شہر میں اتنا بڑاا سپورٹس سٹی اور پھردوستوں کی فرمائش پر ہم اس اسپو ر ٹس سٹی کے اندرچلے گئے۔تواس کی بہترین طرز تعمیر اوراس میں دی جانے والی سہولیات دیکھ میں دنگ رہ گیا۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوںگے تو اس کا افتتاح بھی ہوچکا ہوگا لیکن جب میں نے اس اسپورٹس سٹی کا وزٹ کیا تو تیزی سے کام ہورہا تھا اگر یوں کہاجائے کہ 95 فیصد کام مکمل ہوچکا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ میں اگر کہو ںکہ اسلام آباد کے پاکستان اسپورٹس کمپلیکس کے بعد پا کستا ن میں ایک چا ر دیو اری ہی کہ اندر اگر کوئی دوسرا بڑا اسپورٹس انفرااسٹرکچر ہے تو وہ نارووال اسپورٹس سٹی ہے تو یہ بھی غلط نہ ہوگا۔ جس کے اندر شاندار اور وسیع کرکٹ اسٹیڈیم،فٹبال اسٹیڈیم جس کے اطراف میں عا لمی معیار کا اتھلٹیکس ٹریک ہوگا۔ بین الاقوامی معیار کا ہاکی اسٹیڈیم،ا سکوائش کورٹ،ٹینس کورٹس، انڈوراسپورٹس جمنازیم،باسکٹ بال کورٹ،سوئمنگ پول،کھلاڑیوں کی رہائش کے ہوسٹل مسجد، ایڈمن بلاک یعنی اس اسپورٹس سٹی میں سائوتھ ایشین گیمز کا کامیابی سے انعقاد کرایاجاسکتا ہے۔مجھے کاغان، ناران جاتے ہوئے جس چیز کا شدت سے احساس ہوا تھاکہ یہاںنوجوانوں کے لیے کچھ نہیں ہے وہ نارووال آکر خو شگو ا ر احساس میں بدل گیا کہ نا رو وال جیسے علاقے کے نوجوانوں کے لیے یہ ایک بہترین سہولت ہے اور نا رووال و مضا فا تی علا قوں کے نو جوا نو ں کے لئے نہ صر ف یہ مثبت سر گر میو ں کا مرکز ہو گا بلکہ یقینا مستقبل میں ہمیں اس علاقے سے کئی چمپیئنز بھی ملیںگے جو ملک کا نام روشن کریںگے۔ اس سٹی کی تکمیل میں وفاقی وزیر احسن اقبا ل کے جس کردار کے بارے میں مجھے بتایاگیا ہے وہ قا بل تعریف ہے، ویل ڈن احسن اقبال۔
twitter:@am_nawazish
SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین