• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی ٹی آئی کے 2013ء کے منشور کے وعدے وفا نہ ہوئے

عمران خان کی جانب سے 2018ء کے الیکشن کیلئے اتوار کو پی ٹی آئی کی لاہور میں بڑی ریلی کے دوران اعلان کردہ 11؍ نکاتی اصلاحاتی پروگرام اُس ایجنڈے سے مختلف نہیں جو ان کی پارٹی نے 2013ء کے عام انتخابات سے قبل پیش کیا تھا، ان میں سے اکثر نکات پر خیبرپختونخوا میں عمل نہیں ہوا، یہ وہی صوبہ ہے جس پر تحریک انصاف گزشتہ پانچ سال سے حکومت کر رہی ہے۔ تعلیم، صحت، ٹیکس اصلاحات، کرپشن کی روک تھام، معیشت، روزگار، سیاحت، زراعت، وفاق اور صوبائی سطح پر اصلاحات، انصاف کے نظام میں بہتری اور خواتین کو با اختیار بنانا وہ 11؍ نکات ہیں جن کی نشاندہی عمران خان نے کی اور بتایا کہ اگر 2018ء کے انتخابات میں وہ اقتدار میں آئے تو ان امور پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ ملک کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنایا جا سکے۔ پاکستان تحریک انصاف کے 2013ء کے انتخابی منشور کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جن باتوں پر اصرار کیا جا رہا تھا اور جو وعدے کیے گئے تھے وہ اب بھی، جس وقت ملک 2018ء کے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے، جوں کے توں ہیں۔ اگرچہ 2013ء کے انتخابات کے حوالے سے اس منشور میں زیادہ تر باتیں وفاقی حکومت کے متعلق ہیں جن پر پی ٹی آئی سے سوالات نہیں کیے جا سکتے لیکن ان ہی وعدوں پر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ مثال کے طور پر، پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ پانچ سال کے عرصہ میں یکساں تعلیمی نظام لایا جائے گا، لڑکیوں کے ہائی اسکولز کی تعداد دوگنا کی جائے گی، دیہی اور شہری علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی کو بہتر بنایا جائے گا، ہیلتھ گورننس سسٹم کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے گا اور کمیونٹی کے ساتھ ٹھوس تعلق جوڑا جائے گا، صنعتی انفرا اسٹرکچر اور ایسٹیٹ کی تعمیر کی جائے گی، ٹیکنیکل ایجوکیشن اور ووکیشنل ایجوکیشن کے ذریعے ہنرمند افراد کو فروغ دیا جائے گا، بے نامی ملکیت کا خاتمہ کیا جائے گا، چھوٹے ڈیم تعمیر کیے جائیں گے، بہتے دریائوں پر منصوبے بنائے جائیں گے اور آبپاشی کے نظام کو دیہی کونسلز کی سطح پر ڈی سنٹرلائز کیا جائے گا، غریب افراد کیلئے رہائش (گھر) کا مسئلہ حل کیا جائے گا، جیلوں کو اصلاح مرکز بنانے کیلئے اصلاحات لائی جائیں گی، یونین کونسل کی سطح پر خواتین کو طبی اور قانونی سہولت فراہم کرنے اور اُنہیں معاشی سمت دینے اور دیگر معاونت فراہم کرنے کیلئے سہولت مراکز (ون اسٹیپ ویمن سینٹرز) بنائے جائیں گے، سرکاری دفاتر میں خواتین کیلئے 20؍ فیصد کوٹہ مقرر کیا جائے گا، آزاد اور خود مختار احتساب میکنزم کے ذریعے احتساب ایمرجنسی نافذ کی جائے گی، ولیج کونسل کے ارکان پر مشتمل نگراں کمیٹیاں بنائی جائیں گی تاکہ ہیلتھ یونٹس، اسکولوں، پالیسی اسٹیشنوں، ریونیو، آبپاشی اور زرعی شعبوں کی کارکردگی پر نظر رکھی جا سکے۔ تاہم، مذکورہ بالا وعدوں میں سے بمشکل ہی کوئی وفا ہو سکا ہے۔ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کہ یکساں تعلیمی نظام پانچ سال کے عرصہ میں لایا جائے گا، تعلیم پر جی ڈی پی کے 2؍ فیصد حصے میں اضافہ کرتے ہوئے اسے 5؍ فیصد تک لایا جائے گا، پانچ سال میں لڑکیوں کے ہائی اسکولز کی تعداد دگنا کی جائے گی جبکہ سرکاری شعبے کے کالجوں کو جدید اور اپ گریڈ کرنے کیلئے خصوصی پروگرام شروع کیا جائے گا۔ 2013ء کے منشور میں پی ٹی آئی نے صحت کے شعبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ صحت کے تمام بنیادی یونٹس، دیہی ہیلتھ یونٹس کو ڈاکٹروں، اسٹاف اور دوائوں سے نیا بنایا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ ڈی ایچ کیو / ٹی ایچ کیو اسپتالوں کو جدید اور بنیادی ہیلتھ کیئر سسٹم کو غریبوں کیلئے مفت بنایا جائے گا، پبلک سیکٹر کی طرف سے موجودہ کوریج کو 100؍ فیصد تک بڑھایا جائے گا، ہیلتھ گورننس سسٹم کو مکمل طور پر نچلی سطح تک منتقل کیا جائے گا جو کمیونٹی سطح پر ٹھوس انداز سے جڑا ہوگا۔ شہری اور دیہی علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ معیشت کے شعبے کے حوالے سے پی ٹی آئی نے 2013ء کے منشور میں صنعتی انفرا اسٹرکچر اور ایسٹیٹ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا اور پاکستان کے ہر صوبے میں بنیادی صنعتی سہولتیں متعارف کرائی جائیں گی۔ ووکیشنل اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ذریعے سالانہ 20؍ لاکھ لوگوں کو ہنرمند بنایا جائے گا، برآمدات کیلئے صوبائی انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ اسکیموں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ زرعی شعبے میں پی ٹی آئی نے 2013ء کے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ موجودہ لینڈ ریفارمز قوانین پر بھرپور انداز سے عمل کرایا جائے گا اور یقینی بنایا جائے گا کہ سرکاری زمین بے زمین کسانوں میں ہی تقسیم کی جائے، بے نامی اونرشپ کو کالعدم کیا جائے اور بے نامی اونرشپ کو بے نقاب کرنے کیلئے خصوصی کوششیں کی جائیں گی، پاکستان واٹر سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے 2013ء کے منشور میں چھوٹے ڈیم تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا اور دریا کے بہائو پر پروجیکٹس شروع کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ منشور میں کہا گیا تھا کہ چھوٹے ڈیموں کیلئے کئی جگہیں موجود ہیں، آبپاشی کے نظام کو دیہات کی سطح پر ڈی سینٹرلائز کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کے 2013ء کے منشور میں یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ پارٹی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اقدامات کرے گی اور مراعات کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ضرورت مند افراد کو رہائش کی فراہمی کیلئے نت نئے مالی اقدامات کیے جائیں گے۔ انصاف اور فوجداری نظام کے حوالے سے پی ٹی آئی کے 2013ء کے منشور میں وعدہ کیا گیا تھا کہ مقدمہ بازی میں کمی لائی جائے گی اور ثالثی کے قانون میں ترمیم کرکے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا، آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیوشن (تنازعات متبادل انداز سے طے کرنے کا میکنزم) سسٹم متعارف کرایا جائے گا۔ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ پولیس تحقیقات کو قابل دست اندازی اور ناقابل دست اندازی جرائم میں لازمی بنایا جائے گا، فون کالز کے ذریعے تھانے میں شکایت درج کرائی جا سکے گی، جیل اصلاحات لائی جائیں گی، پے رول قوائد کو جدید بنایا جائے گا اور ضروری اقدامات کیے جائیں گے تاکہ جیلوں کو اصلاحات مرکز بنایا جا سکے اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ جیل میں ایک سال سے زائد عرصہ کیلئے موجود قیدیوں کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کرے۔ پی ٹی آئی کے منشور میں نوجوانوں کیلئے روزگار کو خصوصی توجہ دی گئی تھی۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ ایک آزاد نیشنل یوتھ فائونڈیشن قائم کی جائے گی جو مختلف علاقوں کے نوجوانوں کے درمیان رابطہ کاری کو فروغ دیتے ہوئے قومی اتحاد کے پلر کے طور پر کام کرے گی، ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر جوان مرکز تعمیر کیے جائیں گے جو یوتھ فائونڈیشن کے ساتھ رابطے میں رہیں گے، مقامی کاروباری افراد کو سہولتیں فراہم اور ان کی رہنمائی کی جائے گی اور انہیں ماہرین کے ساتھ روابط میں رکھا جائے گا، کیپیٹل جنریشن اور بزنس پلان فارمولیشن کیلئے رہنمائی فراہم کی جائے گی، مستحق طالب علموں کو سود سے پاک قرضہ جات اور اسکالرشپس بڑھائی جائیں گی، ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز سے استفادہ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد تین لاکھ سے بڑھا کر سالانہ دو کروڑ تک پہنچائی جائے گی۔ اپنے 2013ء کے منشور میں بیان کردہ صنفی پالیسی میں پارٹی کا کہنا تھا کہ خواتین کی صلاحیتوں کو پہنچاننے کیلئے ایک جامع اور فعال پالیسی لائی جائے گی۔ خواتین کو مساوی حقوق دینے کیلئے تمام امتیازی قوانین ختم کیے جائیں گے، خواتین کیلئے وفاقی و صوبائی وزارتیں بحال کی جائیں گی، یو سی سطح پر خواتین کو طبی، قانونی، معاشی سمت، حوالہ جات اور مدد کی فراہمی کیلئے ون اسٹیپ ویمن سینٹرز، انصاف گاہ، قائم کیے جائیں گے، تربیتی پروگرامز شروع کیے جائیں گے، انہیں سبسڈیز دی جائیں گی اور مالی مراعات دی جائیں گی تاکہ خواتین کیلئے سیلف ایمپلائمنٹ کے مواقع پیدا کیے جا سکیں، سرکاری دفاتر میں خواتین اسٹاف کا کوٹہ کم از کم 20؍ فیصد تک لایا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے کمیونٹی پر توجہ دیتے ہوئے باٹم اپ سسٹم بنانے کا بھی وعدہ کیا تھا اور گائوں میں رورل گورننس شروع ہوگی۔ اپنے 2013ء کے منشور میں پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ایک گائوں کے پاس بطور ’’حق‘‘ کافی رقم ہوگی کہ وہ سروسز برقرار اور وہ اقدامات جاری رکھ سکے جو ولیج کونسل کی سطح پر اس کی ذمہ داری ہوں گے۔ ان میں متوازی فنڈز اور شامل ہوں گے اور ساتھ ہی انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کیلئے ترقیاتی فنڈز شامل ہوں گے۔ منشور میں یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ بیشتر مقامی تنازعات گائوں کی سطح پر ہی حل کیے جائیں گے تاکہ انصاف کے نظام پر بڑھتے بوجھ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ ولیج کونسل اتحاد برقرار رکھنے کیلئے تنازعات طے کرنے کا متبادل نظام لائیں گے جسے قانوناً قبول کیا جائے گا۔ نگران کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو ولیج کونسل کے ارکان پر مشتمل ہوں گی اور یہ ہیلتھ یونٹس، اسکولوں، پالیسی اسٹیشنوں، ریونیو، آبپاشی اور زرعی شعبوں کی کارکردگی کی نگرانی کریں گی۔

تازہ ترین