• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دولت کی منصفانہ تقسیم کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا

منظور رضی

مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں اور غلاموں کی یوں تو بڑی طویل صبر آزما صدیوں پر محیط جدوجہد کی داستان جب سے دنیا میں تشکیل پائی ہے یہ کوشش جاری ہے اور جب پہلی مرتبہ زمین پر چند طاقتور لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا تھا اور کمزور لوگوں پر ظلم کر کے طاقت کے زور پر انہیں اپنا غلام بنا لیا تھا تب ہی سے دنیا میں طبقاتی فرق پیدا ہو گیا تھا۔ اس وقت طاقتور لوگ جبر کر کے غلاموں، مظلوموں، محکوموں اور محنت کشوں سے جبری مشقّت لیتے تھے۔ اوقات کار کا تعین بھی نہ تھا لیکن اٹھارہویں اور 19؍ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ بھی منظم ہونا شروع ہو گیا تھا۔

سب سے پہلے برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد شروع کی، یونین بنائی، فیڈریشن بنائی۔ اس سے قبل بھی مزدور جدوجہد کرتے رہے مگر شکاگو کے محنت کش ان سب میں پیش پیش رہے۔

آج عالمی سرمایہ داری نظام اپنی آخری اور بھیانک شکل میں عوام کو بدحالی کی طرف دھکیل رہا ہے لیکن اسی سامراجی ملک میں آج سے ٹھیک 132 سال قبل ایسے جوشیلے، انقلابی نوجوان، مزدور اور سیاسی رہنما پیدا ہوئے تھے جنہوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کر کے اپنی قیمتی اور پیاری جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کی مزدور تحاریک کو ایک نیا رخ، نیا موڑ دیا تھا اور اپنا خون دے کر محنت کش طبقہ کا سر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فخر سے بلند کر دیا تھا۔ انہوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں، اور صنعت کاروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ظالم حکمرانو! ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہم بھی انسان ہیں، ہمارے بھی اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمارے مطالبات پورے کرو۔ یہ نعرے لگاتے ہوئے مزدور جلوس کی شکل میں مشہور زمانہ (HAY) مارکیٹ کی جانب بڑھ رہے تھے، وہ نعرے لگا رہے تھے کہ دنیا بھر کے محنت کشو! ایک ہو جائو۔ وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے، اپنے حقوق اور مطالبات کی بات کر رہے تھے۔ پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہو گیا تھا، ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کر کے مکمل ہڑتال کر دی تھی اور پھر یکم مئی 1886ء کو صبح کے اخبار میں کسی گم نام صحافی نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اخبار کے صفحہ اوّل پر مزدوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا جو اب تاریخ کا حصّہ بن چکا ہے ’’مزدور تمہاری لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ آگے بڑھو اپنے مطالبات منوانے کیلئے، اپنے اوقات کار مقرر کرانے کیلئے جدوجہد جاری رکھو، حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہو گی۔ ہمّت نہ ہارنا، متحد رہنا، اسی میں تمہاری بقاء اور اسی میں تمہاری فتح ہے۔‘‘

صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کر دیا اور انہوں نے زوردار نعرہ کے ساتھ 8گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کر دیا اور یوں پہلی مرتبہ 24گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا۔ ہم 8گھنٹے کام کریں گے، ہم 8گھنٹے آرام کریں گے، ہم 8گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچّوں میں گزاریں گے۔ حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انہوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کر دیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا پرچم سرخ ہو گیا، ایک محنت کش کی قمیص لہو سے تر ہو گئی پھر انہوں نے لہو میں ڈبوئے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ ہم اس وقت تک کام پر واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے اور اب سرخ پرچم ہی ہمارا پرچم ہو گا۔ اس موقع پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنمائوں فشر، انجیل، پٹررسنز اور اسپائیز نے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے حکمرانوں اور مل مالکوں کو للکارا تھا۔ آخرکار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کئے اور پہلی مرتبہ 8گھنٹے اوقات کار تسلیم کیا گیا۔ یورپ میں تو اب بھی 5اور 6گھنٹے اوقات کار مقرر ہیں جبکہ ہمارے ملک میں اوقات کار 8گھنٹے کے بجائے 12اور 16گھنٹے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں، سرمایہ داروں اور فرقہ پرستوں نے مزدوروں کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔ پاکستان میں مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب، فرقہ، زبان، قومیت اور علاقے کے نام پر تقسیم ہو چکے ہیں، ٹریڈ یونین تحریک کمزور پڑ گئی ہے بلکہ اب تو دم توڑ رہی ہے۔

آج پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے لیکن اس وقت قومی اسمبلی، سینیٹ اورچاروں صوبائی اسمبلیوں میں محنت کشوں کی ایک بھی سیٹ نہیں ہے۔ بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریٹ اور حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ موجود ہے، ایسے میں کس طرح اسمبلیوں میں غریب عوام کیلئے قوانین بنائے جائیں گے اور بل پاس ہو سکیں گے۔ اس کیلئے محنت کشوں کو بڑی جدوجہد کرنا ہو گی، ملک سے جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کا خاتمہ کرانے کیلئے آگے بڑھنا ہو گا۔ ایک ملک میں دو قانون بلکہ کئی ایک قوانین چل رہے ہیں جن میں صوبہ پختون خوا میں نظام عدل یا نظام شریعت، بلوچستان میں جرگہ سسٹم سرداری نظام، سندھ میں جرگہ اور کاروکاری کا نظام ہے۔ کاش اس ملک میں صحیح معنوں میں غیر طبقاتی نظام عدل نافذ ہو۔ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو، جاگیر کی تقسیم ہو، ہر انسان کوزندہ رہنے کیلئے تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار حاصل ہو۔ تب ہی یہ ملک ترقی کر سکے گا اور شکاگو کے محنت کشوں کی قربانیوں کا مقصد پورا ہو سکے گا۔

تازہ ترین