• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوم مئی: محروم طبقات کی عظیم بیداری کی علامت

منیراحمدخان

مزدوروں کے پسے ہوئے طبقات کی اپنے حقوق کے لئے کی گئی لازوال جدوجہد یوم مئی کے نام سے منسوب ہے جس میں سرمایہ داروں کے مسلط کردہ نظام کے خلاف امریکا کے مزدوروں نے بھرپور مزاحمت کی۔ بنیادی طور پر یوم مئی محروم طبقات کی عظیم بیداری کا نام ہے۔ کارل مارکس کو دنیا کا پہلا شخص کہا جاتا ہے جس نے سرمایہ دارانہ نظام کے منفی پہلوئوں کو اجاگر کیا۔ مارکس کہتا ہے کہ مزدور کے پاس اپنی کفالت کے لئے محنت کے سوا کوئی وسیلہ نہیں ہوتا۔ محنت کسی بھی چیز (خام مال وغیرہ) میں قدر (ویلیو) پیداکرتی ہے۔ محنت کے سوا دنیا کی کوئی اور چیز قدر پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ محنت کی وہ خصوصیت جو قدر پیدا کرتی ہے وہ انسان کی جسمانی طاقت ہے۔ جو کسی چیز کی اہمیت کو قائم رکھنے میں قانون کارتبہ رکھتی ہو اسے ویلیو کہتے ہیں۔ سرمایہ دار فیکٹری میں کام کروانے کے لئے مزدور نہیں اس کی قوت محنت خریدتا ہے لہٰذا کام کرنے والا مزدور سرمایہ دار کی ملکیت بن جاتا ہے۔ اس کی محنت بھی سرمایہ دار کا اثاثہ ہوتی ہے۔ مزدور جو کچھ بناتا ہے وہ بھی سرمایہ دار کی جاگیر ہوتی ہے۔ سرمایہ دار خام مال میں مزدوروں کی زندہ وقت محنت کو پیوست کرکے جنس میں تبدیل کر دیتا ہے جس میں ویلیو پیدا ہو جاتی ہے اور اس میں قدر استعمال کا عنصر شامل کرکے نفع کی خاطر منڈی میں فروخت کرتا ہے۔مارکس کہتا ہے سرمایہ دارانہ نظام کا یہ خاصہ ہے کہ جہاں یہ نظام ہوگا وہاں کثیر التعداد بے روزگاروں اور تہی دستوں کا ہجوم موجود رہے گا۔ ان بے روزگاروں کی آپس میں مسابقت کے تناظر میں کم سے کم اجرت میں کام کرنے والے میسر ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا جو سرمایہ دار دیہاڑی طے کرتا ہے وہ بنیادی طور پر 8کی نہیں 4گھنٹے کی ہی اجرت ہوتی ہے۔ پہلے چار گھنٹے کو مارکس لازمی محنت قرار دیتا ہے بعد کے چار گھنٹوں میں سرمایہ دار مزدور سے بے اجرت (مفت) کام لے رہا ہوتا ہے۔ امریکا میں 1886کو ژولیدہ حال مزدوروں کو یہ شعور آ چکا تھا کہ ریاست ہماری ذمہ داری پوری کرنے سے معذور ہو چکی ہے لہٰذا مزدور احتجاج کر رہے تھے کہ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہ کاتعین کیا جائے۔ 16گھنٹے کےبجائے 8گھنٹے ڈیوٹی مقرر کرے اور ہفتہ میں اپنے بال بچے کے لئے ایک چھٹی پر ملازم کا حق ہے۔ اس مطالبے پر مزدوروں نے ریلیاں نکالی اور احتجاج کیا جس پر مزدوروں پر گولیاں چلائی گئیں۔ چار مزدور لیڈروں کو نومبر 1887 میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ غریبوں کے حقوق کے لئے جان دینے والے ان چار مزدور لیڈروں نے تختہ دار پر بھی نعرہ حق بلند کیا تھا۔ برسیڑ نے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ تم موت سے میری آواز بند تو کردو گے لیکن وقت ثابت کرے گا ہماری خاموشی ہماری آوازوں سے بھی زیادہ بلند ہوگی۔ ان چار مزدوروں کی سزائے موت کے بعد کئی سال مزدور تحریک جاری رہی۔ پاکستان میں بھی محنت کشوں کی تاریخ لازوال قربانیوں کی مظہر ہے لیکن آج کے حالات کچھ حوصلہ افزا نہیں ہیں اور ابھی محنت کشوں کو ایک طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔ آج پاکستان کو عالمی بینکنگ نظام کے تحت گھیرا جا رہا ہے عالمی سرمایہ داروں نے اپنے بے بہا منافع کی خاطر قوم کو قرضوں کی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے۔ قرضہ دینے والے بینکوں کی پالیسیوں کے مطابق پاکستان سے مستقل سرکاری نوکری، گریجوایٹی اور پنشن ختم کرنے کی پالیسیاںبھی زیر غور ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے 10کروڑ سے زیادہ افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں مزدور عزت، انصاف، تحفظ، خوشحالی، تعلیم علاج وغیرہ سے محروم ہیں۔یہ تمام صورتحال اندرونی و بیرونی عالمی سرمایہ داروں کی پیدا کردہ ہے۔ مفلسی کا عجب ضابطہ ہے کہ اس کاسفر ختم نہیں ہوتا کیونکہ فاصلے بھی ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ لیکن محنت کش عوام کو یقین ہے کہ ان کے یہ دن ہمیشہ نہیں رہیں گے اور امیدوں کا سورج ایک روز ضرور طلوع ہوگا۔ 

تازہ ترین