• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

27؍ اپریل 2018، جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کے دوران میں پاکستان پیپلز پارٹی کے فعال کارکن رہنما ندیم افضل چن (اب وہ سابق ہیں) نے کہا۔ ’’پیپلز پارٹی میں ’’سات لوگ‘‘ بلاول کو آگے نہیں آنے دے رہے، یہی سات لوگ آصف زرداری کو بھی غلط گائیڈ کر رہے ہیں، بلاول اگر سرگرم ہو گئے تو ان سات لوگوں کی سیاست ختم ہو جائے گی۔
2018ء کی پاکستان پیپلز پارٹی میں یہ ’’سات لوگ‘‘ کون ہیں؟ پارٹی کے موثر اور متحرک نمایاں افراد کا تذکرہ کرنے سے پہلے ہمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ کے نشیب و فراز کا بطور یاد دہانی جائزہ لے لینا چاہئے، یہ پارٹی بہرحال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سرمایہ دار طبقات، ذاتی حکمرانی کی دلدادہ ریاستی فورسز، ان طبقوں کے نمائندہ حکمرانوں، مذہبی جماعتوں کی اکثریت اور دائیں بازو کے متشدد مزاج دانشوروں کی بھیانک سازشوں اور بے پناہ مظالم کا شکار رہی، ظلم و شقاوت کی یہ خون آلود کہانی کتابوں میں محفوظ کی جا چکی اس کے مذموم کردار پاکستانیوں کے حرف مذمت کا ہمیشہ ہدف رہتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی پر اس کے تاسیسی سن 1967تا 1977، 1977تا 17؍ اگست 1988(ضیاء الحق کی ہلاکت کا دن) کے دو ادوار کے حوالے سے غور و فکر ناگزیر ہے۔
1967سے لے کر 1977تک پاکستان پیپلز پارٹی جماعت اسلامی سے لے کر روایتی مذہبی جماعتوں، دائیں بازو کے متشدد مزاج، مبالغہ آرائی اور ہانکا لگانے کے عادی اور پاکستانی میڈیا پر قابض و متصرف گروہوں کا ایسا نشانہ رہی جس کے نتیجے میں اس کے بانی نے تختہ دار کو سرفراز کیا، اس کے دو نوجوان بیٹوں میں سے ایک کو پر اسرار اور ایک کو سرعام موت کا سامنا کرنا پڑا، بانی چیئرمین کی صاحبزادی اور پارٹی چیئرمین بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ ان صدمات کے ہاتھوں بیگم صاحبہ تشدد کے علاوہ بالآخر کومے میں چلی گئیں اور پھر اس دنیا ہی سے چلی گئیں، پیپلز پارٹی کے تاریخی تجزیئے میں ایک بات ہمیں ایک لمحے کو فراموش نہیں کرنا ہو گی یعنی پاکستان کی ظاہری اور باطنی قوتیں پارٹی اس کا نام و نشان مٹانے اور اسے زمین کے نیچے چھ فٹ کی گہرائی تک دفن کرنے کی خاطر دنیا کی ہر سازش، بروئے کار لائیں، وقت نے پیپلز پارٹی کا وجود برقرار رکھا، یہ تمام جتھے پارٹی کو انتخابی شکستوں اور ختم کرنے میں خاک بسر ہونے کی حد تک ناکام رہے، پیپلز پارٹی آج بھی پاکستان کی قومی شناخت ہی نہیں پاکستان کے بین الاقوامی وقار و حیثیت کی علامت اور ضامن ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا 1977تا 17؍ اگست 1988کے دورانئے کے لئے ہمیں ضیاء الحق کی شخصیت سے آغاز کرنا ہو گا۔ ضیاء الحق کی شخصی کیمسٹری کی ممکنہ انسانی ٹائپ کیا تھی؟ اس کا امکانی تعین ہمیں پیپلز پارٹی کے اس دورانئے کے صحیح ترین ادراک میں مدد دے گا۔
5؍ جولائی 1977کے جنرل محمد ضیاء الحق نے کھلے عام بدنیتی کے ساتھ آئینی اقتدار پر قبضہ کیوں کیا؟ اقتدار کے بعد انہوں نے قوم کی جھولی میں کیا ڈالا؟ اس بارے میں ایک رائے خود جنرل ضیاء کی رہی، ایک ان کے حامیوں کی، ایک پاکستان کے زمینی حالات کی عملی تصویر کی صورت میں سامنے آئی، اور ایک ان کروڑوں آزاد منش پاکستانیوں کی جنہوں نے قریب قریب گیارہ برس ضیاء الحق کی بےبرکت سی حکومت کے تحت گزارے۔
جنرل ضیاء کے 5؍جولائی 1977کے اقدام، پھانسیوں، کوڑوں کی نہایت جان لیوا سزائوں، رشوت کی بڑھوتری، مہنگائی کے عفریت، بموں کے دھماکوں، کراچی میں نسلی فسادات کے آغاز، غیر ملکی قرضوں کی بھرمار اور غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے قوم کو تسبیح کے دانوں کی طرح بکھیر دینے کے اعمال تک، ایک اطمینان بخش ذہنی کیفیت کے حامل رہے۔ جنرل ضیاء کی تقاریر و خیالات سے ہمیشہ یہی پتا چلا وہ اپنے ان سب اقدامات کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہیں اور خود کو ان واقعات کا قطعی ذمہ دار یا قصور وار نہیں سمجھتے۔
رہ گئے جنرل ضیاء کے مخالفین، ان کے متعلق ان کے خیالات ڈھکے چھپے نہیں تھے۔ جنرل ضیاء نے البتہ 5؍ جولائی 1977کے بعد ان سب مخالفین کو انتہائی درجہ کے قانونی تشدد و جبر، متحمل مزاج جوڑ توڑ اپنی خامیوں کے اعتراف کی کامیاب عاجزی جیسے تین ہتھیاروں سے قریب قریب زندہ درگور کر دیا۔
5؍ جولائی 1977سے جنرل ضیاء نے کسی قسم کی آئینی یا عوامی رائے کی پروااور تائید کے بغیر خالصتاً قوت کے بل بوتے پر پاکستان اور اہل پاکستان پر حکومت کی، فوجی بیورو کریسی، سول بیورو کریسی اور پولیس خصوصاً پنجاب پولیس نے ان کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اپنے صوبے میں لوگوں کی تذلیل، توہین اور ان پر اپنی درندگی کے استعمال میں ذرہ بھر خدا خوفی تک کو بھی خاطر میں نہ لائی۔ سیاسی لحاظ سے اس بدنصیب قوم کی رہی سہی عزت نفس اور حیثیت بھی ختم کر دی گئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے ان گیارہ برسوں میں پھانسیوں، بے بسی کی اموات، ہجرتوں کے جنگلوں اور شقاوتوں کے سمندروں کا سامنا کیا۔ جنرل ضیاء نے ’’اسلام‘‘ کی مقدس اصطلاحات کے استعمال سے پاکستان کے سادہ لوح عوام کی بڑی تعداد کو ادہام پرستی اور خوف کے ایسے زندانوں میں بند کر دیا جن کی موجودگی میں وہ پیپلز پارٹی جیسی آزاد صدائوں کو کفر کے مترادف سمجھنے لگی، یہ سب کچھ بیتا، بیت گیا مگر جیسا کہ عرض کیا، دنیا کی ہر سازش، ہر جھوٹ، ہر ظالمانہ حربے، ہر تہمت، ہر بربریت اور ہر وحشیانہ ناانصافی کے ہر ممکنہ امکان کو مکمل بے حسی و ننگے پن کے ساتھ بروئے کار لائے جانے کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی قوم اور وطن کی عدالت میں ہمیشہ سرخرو رہی۔ تو 2018میں یہ ’’سات لوگ‘‘ قسم کی جنس کی کہاں، کیسے اور کیوں ’’پیدائش‘‘ ہوئی؟ جو ’’بلاول کو آگے نہیں آنے دے رہی‘‘ اور ’’آصف علی زرداری کو غلط گائیڈ کرنے میں بھی ناکام نہیں‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی تاریخ دشمنی کے ہر جہنم سے دیوانہ وار گزر گئی، البتہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے منافقت، مفاد پرستی اور خوشامد کے دیوانہ پن کی مثلث میں اس کی قیادت کسی صید زبوں کی طرح تڑپ رہی ہو۔
پیپلز پارٹی کے نمایاں افراد میں فوری طور پر فریال تالپور، قائم علی شاہ، مولا بخش چانڈیو، سعید غنی، مراد علی شاہ، اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ، رخسانہ بنگش، بشیر ریاض، چوہدری منظور، نفیسہ شاہ، ثمینہ گھرکی، عزیز الرحمٰن چن، بیرسٹر عامر حسن، جمیل سومرو، ڈاکٹر قیوم سومرو کے نام ذہن میں آتے ہیں۔ ان میں کسی پر بھی شاید ہی انگلی اٹھائی جا سکتی ہو، پھر آخر ’’سات لوگ‘‘ کون ہیں؟ کیا انہیں ’’کھود کر‘‘ عوام کے سامنے پیش کرنے کا کوئی ون ملین ڈالر فارمولہ سامنے آ سکتا ہے؟
آ سکتا ہے، آپ غور کریں ایک عرصہ دراز سے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ’’سیکورٹی کے حصار‘‘ میں عوام سے کاٹ دیئے گئے ہیں، میڈیا سے ملاقاتوں میں کوئی ایک فرد یا افراد ہیں جن کی ’’صوابدید‘‘ چیئرمین سے رابطے کا راستہ کھولتی ہے بصورت دیگر ہر راہ بند ہے، کسی کا کہنا ہے ’’اس نے بھٹو صاحب، بیگم صاحبہ اور پی پی کو Serveکیا ہے، کسی کا کہنا ہے ’’اس نے بی بی صاحبہ، آصف علی زرداری اور بلاول‘‘ کو سرو کیا ہے، اس لئے افراد سے لے کر جلسوں تک پارٹی کے عوامی کردار و اظہار کا فیصلہ وہ کریں گے آخر پارٹی میں Unity Of Command(ایک قیادت) کا فیصلہ کیوں نہیں ہو پا رہا؟
زرداری صاحب بلاول ہائوس میں خطاب کریں، نعرے ہوں گے ’’وزیراعظم زرداری‘‘ کچھ دن بعد یا پہلے اسی بلاول ہائوس میں بلاول بھٹو تقریر کر رہے ہوں، تب نعرے ہوں گے ’’وزیر اعظم بلاول‘‘ قیادت کی مرکزیت کا انتقال کیوں ہو چکا؟ کس نے پارٹی کو ’’قیادت کی دو کشتیوں‘‘ میں پائوں رکھنے کی کنفیوژڈ اور برباد کن راہ پر چلا رکھا ہے؟ کیا یہ ’’سات لوگ‘‘ ناہید خان ڈاکٹرائن کی پیداوار ہیں، جنہیں ’’سیکورٹی‘‘ کے سائبان میں پیپلز پارٹی کا عوامی جنازہ نکالنے کا لائسنس مل چکا؟
پارٹی کے رہنمائوں کو یا درہنا چاہئے ، ناہید خانیں پارٹیوں کی کردار کشی کا پرچم تھام کر رخصت ہو جایا کرتی ہیں؟ کیا بلاول ہائوسز کو پیپلز سیکٹریٹریٹس میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا؟ کیا پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ منتخب اقدار کے عظیم سنگھاسن پر بیٹھ کے ایک بار پھر اسلام آباد میں Carpet Beggars(شاہی فقیروں) کا دستہ تیار کرے گی؟ جس میں وزارت اطلاعات کے کسی پی آئی او کو فون جائے’’ساڈے نال مُک‘‘ ’’ان سات لوگوں‘‘کی ٹائپ کے بنیادی جینز یہی ہیں، اے اصحاب پاکستان! انہیں پہچانو اور اپنے عوامی سیلاب میں بہا دو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین