• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی میں قبل از وقت صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے اعلان کے بعد سیاست کے میدان میں بڑی گہماگہمی دیکھی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ایردوان کی مخالف جماعتوں میں ہل چل سی پیدا ہوچکی ہے اور ایردوان کو اس بار اقتدار سے ہٹانے کیلئے نئے نئے نسخے آزمائے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے دلچسپ صورتِ حال اس وقت دیکھنے میں آئی جب ترکی کی سیاست میں نیم مردہ جماعت کی حیثیت رکھنے والی مرحوم ایربکان کی ’’سعادت پارٹیٔ‘‘ جسے اس وقت ترکی میں 5فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہے، کے موجودہ چیئرمین تیملقارا مولا اولو نے ترپ کا پتہ کھیلتے ہوئے حزب ِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی کو اپنا گرویدہ بنالیا اور ان پر اپنی مرضی ٹھونسنے لگے (قارا مولا اولو وہی شخصیت ہیں جو ’’سواس قتل عام‘‘ کے موقع پر یعنی2 جولائی 1993 میں سواس شہر کی بلدیہ کے مئیر تھے اور اس وقت بائیں بازو کے33 مصنفین کو ’’پیر سلطان ابدال ثقافتی‘‘ پروگرام میں اسلام مخالف تقریریں کرنے کی بنا پر ملحد قرار دیتے ہوئے زندہ جلادیا گیا تھا اور ری پبلکن پارٹی نے اس غیرانسانی واقعے کی تمام تر ذمہ داری قارا مولا اولو اور ان کی جماعت پر ڈال دی تھی) قارا مولا اولو نے ری پبلکن پارٹی کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو کواس طریقے سے شیشے میں اتارا کہ وہ قارا مولا کے سحر میں کھوگئے اور ان کی خواہش پر مشترکہ امیدوار لانے کی درخواست کی تاکہ ایردوان کا مل کر مقابلہ کیا جاسکے۔ انہوں نے کمال کلیچدارو اولو کو بائیں اور دائیں بازو کے علاوہ مذہبی حلقوں کی جانب سے بھی پذیرائی حاصل ہونے والی شخصیت کا نام پیش کیا۔ کمال کلیچدار اولو نے قارا مولو اولو کی جانب سے تجویز کردہ شخصیت کی بھرپور حمایت کا یقین دلاتے ہوئے دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے بھی اس موضوع سے متعلق مذاکرات کرنے کے اختیارات سونپ دیئے۔ قارامولا اولو نے ایک دو چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد نئی قائم شدہ ’’گڈپارٹی‘‘ کی چیئرپرسن ’’میرالآقشینر‘‘ سے بھی ملاقات کی جس میں ان کو ایسا دھچکا لگا کہ انہوں نے ایردوان کے مقابلے میں مشترکہ امیدوار لانے کا جو خواب دیکھ رکھا تھا وہ بکھر کر رہ گیا۔ گڈپارٹی نے ان کے اور ری پبلکن پیپلزپارٹی کے حمایت یافتہ صدارتی امیدوار کے حق میں دستبردار ہونے سے انکار کردیا۔ سعادت پارٹی کے چیئرمین نے ایردوان کے بغض میں ایک ایسے شہسوار کو میدان میں اتارنے کی کوشش کی تھی جو اس سے پہلے ترکی میں وزیراعظم سے لے کر صدر تک کے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دے چکے تھے اور اپوزیشن کی جماعتیں اب ان کو جمہوریت کا بہت بڑا چیمپئن قرار دے رہی تھیں حالانکہ یہ وہی جماعتیں تھیں جب جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (آق پارٹی) نے اس شخصیت کو صدر بنانے کا فیصلہ کیا تھا ان تمام جماعتوں نے اس فیصلے کی کھل کر مخالفت کی تھی اور کلی اکثریت حاصل ہونے کے باوجود اس شخصیت کو آئین کی رو سے500 اراکین کی پارلیمنٹ میں367 اراکین کی حمایت حاصل نہ ہونے کی قدغن لگاتے ہوئے آق پارٹی کو قبل از وقت انتخابات کروانے پر مجبور کردیا تھا۔ قبل از وقت انتخابات کے نتیجے میں آق پارٹی پہلے سے بھی زیادہ تعداد میں اراکین کے ساتھ پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب رہی اور نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کی حمایت کے نتیجےمیں اس شخصیت کو صدر منتخب کروایا۔ اپوزیشن کی تمام جماعتیں اس شخصیت کے صدر رہنے کے دور میں وزیراعظم ایردوان کی جانب سے منظوری کیلئے بھجوائے جانے والے تمام بلوں پر چوں چراں کئے بغیر دستخط کئے جانے پر ناک منہ چرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جی ہاں میری مراد جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے پہلے وزیراعظم اور پہلے صدر عبداللہ گل سے ہے۔ سعادت پارٹی کے چیئرمین قارامولوا اولو نے مختلف حیلوں، بہانوں، کانفرنسوں اور سیمینارز کی آڑ میں سابق صدر عبداللہ گل سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کو صدر ایردوان کے خلاف اکساتے ہوئے صدارتی امیدوار بننے پر تقریباً راضی کرلیا تھا لیکن عبداللہ گل نے صدر ایردوان کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کے طور پرصدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی شرط سے آگاہ کردیا جس پر قارا مولا اولو نے اپنی تمام تر رعنائیاں اپوزیشن کی جماعتوں کو قائل کرنے میں صرف کردیںلیکن وہ ’’گڈپارٹی‘‘ کی چیئرپرسن میرالآقشینر کو قائل کرنے میں ناکام رہے اور یوں سعادت پارٹی کی یہ کشتی بیچ منجدھار ہی غرق ہوگئی۔ عبداللہ گل کے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مشترکہ صدارتی امیدوار بننے کی خبریں موصول ہونے کے بعد صدر ایردوان نے سابق نائب وزیراعظم بلنت آرنچ کے ذریعے پیغام بھیجتے ہوئے انہیں صدارتی امیدوار بننے سے باز رہنے کی تلقین بھی کی تھی۔ گڈ پارٹی کی میرالآقشینر کی ہٹ دھرمی کے بعد مشترکہ صدارتی امیدوار بننے سے انکار کرنے والے عبداللہ گل نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر حصہ نہ لینے کے اعلان سے قارا مولا اولو کی ایردوان سے انتقام لینے کی کوشش ناکامی پر منتج ہوئی۔ اس وقت تک ترکی کے صدارتی امیدوار میںایردوان جنہیں نیشنلسٹ پارٹی کی بھی حمایت حاصل ہے کے علاوہ دوسرا نام ’’گڈپارٹی‘‘ کی چیئرپرسن میرالآقشینر کا بھی سامنے آیا ہے جبکہ ری پبلکن پارٹی تادم تحریر اپنے صدارتی امیدوار کا نام پیش کرنے سے کتراتی نظر آتی ہے اگرچہ اس جماعت نے عبداللہ گل سے امیدیں وابستہ کررکھی تھیں لیکن ان کی امیدوں پر پانی پھرنے کے بعد اب ان کو اپنے صدارتی امیدوار کا انتخاب کرنے میں شدید دشواری کا سامنا ہے کیونکہ اگر یہ جماعت پارٹی کے اندر سے جس میں پارٹی کے چیئرمین کمال کلیچدار اولو بھی شامل ہیں صدارتی امیدوار کھڑا کرتی ہے تو اس کے امیدوار کو صرف25 فیصد کے لگ بھگ ووٹ ہی ملنے کی توقع ہے جبکہ صدر منتخب ہونے کیلئے اکیاون فیصد کے قریب ووٹ لینے کی ضرورت ہے جو کہ اس کیلئے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سےقبل ہونے والے صدارتی انتخابات میں بھی ری پبلکن پارٹی نے اپنی جماعت سے نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کے اشتراک سے اکمل الدین احسان اولو کو اپنا صدارتی امیدوار کھڑا کیا تھا اور انہیں ایردوان کے مقابلے میں صرف چونتیس فیصد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس لئے وہ ایک ایسے صدارتی امیدوار کی تلاش میں ہے جو اس کی مسلسل ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل سکے۔ آئندہ صدارتی انتخابات میں کرد ، ووٹروں کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی HDPبڑاکلیدی کردار ادا کریگی کیونکہ اس جماعت کے ووٹروں کی تعداد دس فیصد کے لگ بھگ ہے اور یہ دس فیصد ووٹ صدر ایردوان یا اپوزیشن کے صدارتی امیدوارکو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اوراس سے کسی بھی صدارتی امیدوار کا پلڑا بھاری ہو سکتا ہے، اگرچہ اس جماعت کے چیئرمین صلاح الدین دیمر تاش نے اپنا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کردیا ہے اگر پہلے مرحلے میں صدر ایردوان کو کامیابی حاصل نہیں ہوتی اور معاملہ دوسرے مرحلے کے انتخابات تک جا پہنچتا ہے تو پھر قوی امکانات یہی ہیں کہ دیمر تاش صدر ایردوان کیساتھ مذاکرات کرنے کے بعد ان کی حمایت کا اعلان کردیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین