• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

غلام حسین میمن

ایک نثری یا شعری تصنیف کی تخلیق، جس قدر مشکل ہے، اسی قدر اس کا عنوان تجویز کرنا بھی کٹھن مرحلہ ہے۔ اُردو ادب میں کئی اشعار اس قدر زبانِ زدعام ہوئےکہ شاعر اور نثر نگاروں کےلیے انہیں بطور اپنی کتابوں کے نام، مستعار لینا ضرورت بن گیا۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جہاں غالبؔ کے کمالات کا ایک جہان معترف ہے کہ انہو ں نے ایسے رازوں سے پردہ اٹھایا، جو پہلے دیوانے کی بڑ معلوم ہوتے تھے، وہیں یہ اعزاز غالب ہی کو گیا کہ سب سے زیادہ اُن ہی کے اشعار سے ادیبوں اور شاعروں نے اپنی کتابوں کے نام تجویز کیے۔ آئیے کچھ مشہور اشعار اور کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ دیوانِ غالب کا پہلا شعر ہے۔

نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

نقش فریادی، فیض احمد فیض کا پہلا مجموعۂ کلام ہے، جو 1941ء میں منظر عام پر آیا۔

’’ شوخیٔ تحریر‘‘ سید محمد جعفری کے مجموعہ ٔکلام کا نام ہے۔ سید محمد جعفری کی وجۂ شہرت شاعری اور مصوری ہے۔ وہ اکبر الٰہ آبادی کی طرز پر بڑے شاعر تھے۔

تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں

مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

نسخۂ ہائے وفا، فیض احمد فیض ؔ کی کلیات کا مجموعہ ہے، جس میں نقش فریادی، دست ِ صبا، زنداں نامہ، دستِ تہ سنگ، سروادیٔ سینا، شامِ شہرِ یاراں، مرے دل مرے مسافر اور غبارِ ایاّم کی شاعری شامل ہے۔

وہ میری چین جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا

رازِ مکتوب بہ بے ربطی ِعنواں سمجھا

چین جبیں کے درمیاں’’بہ‘‘ لگانے سے یہ اُردو کا محاورہ بن جاتا ہے۔ اس نام سے ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے ایک سفرنامہ لکھا۔

دردِ دل لکھوں کب لگ جائوں اِن کو دکھلائوں

انگلیاں فگار اپنی خامہ خونچکاں اپنا

دلاورفگار مزاحیہ شاعری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ اُن کے ایک شعری مجموعے کا نام مرزا غالبؔ کے اسی شعر سے مستعار لیا گیا، جس کا نام ’’انگلیاں فگار اپنی‘‘ ہے۔

٭٭٭

ہیں اور بھی دُنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور

’’سخن ور‘‘ سلطانہ مہر کی چار جلدوں پر مشتمل تصنیف ہے۔ یہ پاکستان کے اُردو شعراء کا تذکرہ ہے۔

٭٭٭

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم اُن کو ،کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

’’وہ آئیں گھر میں ہمارے‘‘ عبدالقوی ضیا علیگ کی خاکوں پر مشتمل کتاب ہے۔

٭٭٭

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزمِ آرائیاں

لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں

’’بزمِ آرائیاں‘‘ معروف مزاح نگار، کرنل محمد خان کے طبع زاد مضامین کا مجموعہ ہے، جسے اُنہوں نے اپنے دوستوں کے نام معنون کیا۔

٭٭٭

تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں

شب کو اُن کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

ڈپٹی نذیر احمد کو اُردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ ’’بنات النعش‘‘ اُن کے ابتدائی ناولوں میں سے ایک ہے۔

٭٭٭

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر

لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں

عطا الحق قاسمی کا شمار اُن کالم نویسوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے ہر دور میں حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ لکھا۔ ’’روزنِ دیوار سے‘‘ اُن کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔

اُردو ادب کاایک اور بڑا نام آغا شورش کاشمیری کا ہے،وہ قیامِ پاکستان سے قبل کئی بار جیل گئے۔ ’’پس دیوارِ زنداں‘‘ اسی قید کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ہے۔

٭٭٭

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تُونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے!

’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ پروفیسر رشید احمد صدیقی کے ہم عصروں کے خاکوں پر مشتمل کتاب ہے۔

٭٭٭

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

’’دنیا مرے آگے‘‘ اور ’’تماشا مرے آگے‘‘ اُردو کے معروف شاعر، جمیل الدین عالی کے سفر نامے ہیں۔ ؎فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو ہم دُعا کر چلے

جمیل الدین عالیؔ کے اظہاریوں کا انتخاب2؍ضخیم مجموعوں ’’صدا کر چلے اور دعا کر چلے‘‘ کی صورت شائع ہوا ہے۔

٭٭٭

تیرا اندازِ سخن شانۂ زُلفِ الہام

تیری رفتارِ قلم جنبشِ بالِ جیریل

’’بالِ جبرئیل‘‘علامہ اقبال کا اُردو مجموعۂ کلام ہے ،جو جنوری 1935ء میں طبع ہوا۔

٭٭٭

بخشے ہے جلوۂ گل ذوقِ تماشا غالبؔ

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

پروفیسر شیخ محمد اقبال کی ایک تصنیف کا نام ’’ذوقِ تماشا‘‘ ہے۔

٭٭٭

کہاں تک روئوں، اُس کے خیمے کے پیچھے قیامت ہے

مری قسمت میں یارب کیا نہ تھی دیوار پتھر کی

’’دیوار پتھر کی‘‘ اُردو کے افسانہ نگار اور کئی انسائیکلو پیڈیاز کے مرتب سید قاسم محمود کی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔

٭٭٭

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

لطف اللہ خان کی ایک وجہ شہرت یہ ہے کہ اُن کے پاس برصغیر کی نایاب آوازوں کا خزانہ ہے۔ اُنہوں نے ’’تماشائے اہل کرم‘‘ کے عنوان سے ادیبوں اور شاعروں کے خاکے لکھے۔

٭٭٭

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید

مر گیا غالبِؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں

’’غالب آشفتہ نوا‘‘ ڈاکٹر آفتاب احمد خان کے مضامین کے مجموعے کا نام ہے۔ یہ مضامین کلام غالب زندگی کے حادثات، اُس زمانے کے تاریخی حالات اور سماجی فضا سے متعلق ہیں۔ 

تازہ ترین