• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہیلٹھ اینڈ فٹنس: تھیلیسیمیا....

پروفیسرڈاکٹر سیّد غلام مشرف

عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال دنیا بَھر میں8مئی کو’’ ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے‘‘ ایک نئے تھیم کے ساتھ منایا جاتا ہے۔امسال کا تھیم ’’Give Blood Give Life‘‘ہے۔تھیلیسیمیا دراصل خون کا ایک عارضہ ہے، جس میں مبتلا مریض کو تاعُمر بار بار خون لگوانے کی (ہیموگلوبن کی سطح برقرار رکھنے کے لیے ہر تین سے آٹھ ہفتے میں خون تبدیل کروانا ہوتا ہے) ضرورت پیش آتی ہے۔اور کئی مُمالک ایسے بھی ہیں، جہاں مریضوں کی کثیر تعداد کے پیشِ نظر خون کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہےاور اس کی ایک بنیادی وجہ انتقالِ خون سے متعلق شعور و آگاہی کا فقدان ہے۔سو، رواں برس کا تھیم بھی اسی مسئلے کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے منتخب کیا گیا ہے۔ قارئین کی معلومات میں مزید اضافے کے لیے، مرض سے متعلق تفصیلی مضمون پیشِ خدمت ہے۔

تھیلیسیمیا یونانی زبان کا لفظ ہے۔ تھیلیس کے معنی’’سمندر‘‘ اور یمیا کے معنی ’’خون‘‘ کے ہیں۔یہ مرض پوری دنیا میں عام ہے، لیکن جن مُمالک میں اِس کی شرح بُلند ہے، اُن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ تھیلیسیمیا کا تعلق مونو جینک عوارض کے گروپ سے ہے۔واضح رہے کہ جسم میں ہرجین کے جوڑے ہوتے ہیں، جنہیں Alleles کہا جاتا ہے۔اگر ان میں سے کسی جین کا ایک جوڑا متاثر ہوجائے،تو مونو جینک بیماری کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بَھر میں دس ہزار سے زائد افراد مونو جینک امراض کا شکار ہوجاتےہیںاور تھیلیسیمیا ایک موروثی عارضہ ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ تاہم، یہ چُھوت کا مرض نہیں۔ 

ہمارےجسم کے کچھ جینز، خون کے سُرخ خلیوں کی پروٹین(ہیموگلوبن)بنانے کے ذمّےدار ہیں۔ خون کے ہر سُرخ خلیے میں دو سو چالیس سے تین سو ملین کے لگ بھگ ہیموگلوبن مالیکیولز پائے جاتے ہیں اور ہر ہیموگلوبن مالیکیول بیک وقت چار آکسیجن مالیکیولز سے ملنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس کے نتیجے میں جسم کے خلیے، ٹشوز اور اعضاءیہ آکسیجن حاصل کر کے اپنا کام کرتے ہیں۔ دراصل ہیموگلوبن میں ’’الفا‘‘ اور ’’بیٹا‘‘ نامی پروٹینز پائے جاتے ہیں، جو آکسیجن میں شامل ہوکر پھیپھڑوں سے ہوکر دِل تک پہنچتے ہیں اور یہیں سے پورے جسم میں پھیل جاتے ہیں۔ 

کروموسوم نمبر16 میں پایا جانے والا جین، الفا گلوبن پروٹین اور کروموسوم نمبر11میں پایا جانے والا جین، بیٹا گلوبن پروٹین کی مقدار کنٹرول کرتا ہے، لہٰذا الفا کی مقدار میں کمی سے الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا کی مقدار میں کمی سے بیٹا تھیلیسیمیا لاحق ہوجاتا ہے اور ایسا صرف اُس وقت ہوتا ہے، جب اِن پروٹینز کو پیدا کرنے والے جینز کی ساخت تبدیل ہوجائے یا پھر وہ اپنا کام کر نا چھوڑ دیں۔یعنی اس مرض کی دو اقسام، الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا تھیلیسیمیا ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بَھر میں تقریباً دو سو چالیس ملین (20کروڑچالیس لاکھ)افراد بیٹا تھیلیسیمیا کا شکار ہیں اور ہر سال 5سے9ہزاربچّے اس مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں،جب کہ نو اعشاریہ آٹھ ملین افراد اپنے مرض سے لاعلم بھی ہیں۔ بھارت میں یہ تعداد تیس ملین کے قریب ہے، جب کہ ہر سال تقریباً بارہ ہزار نوزائیدہ بچّے یہ بیماری لے کر دنیا میں آتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں سالانہ تقریباً چھے سے سات ہزار نوزائیدہ بچّے بیٹا تھیلیسیمیا کا شکار پائے جاتے ہیں۔ بیٹا تھیلیسیمیا کے شکار یہ بچّے اپنے ماں باپ میں سے ایک نارمل اور ایک تھیلیسیمیا سے متاثرہ جین حاصل کرتے ہیں،مگر اس صورت میں مرض کا حملہ شدید نہیں ہوتا، البتہ اگر والدین سے دو ایسے جینز اگلی نسل میں منتقل ہوجائیں، جو بیٹا گلوبن بنانے کی صلاحیت سے محروم ہوں، تو پھر بیٹا تھیلیسیمیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 

شدید نوعیت کے بیٹا تھیلیسیمیا کو Cooley's Anemia بھی کہا جاتا ہے،جس کی علامات میں جِلد اور آنکھوں کا پیلا رنگ ہونا، گہرے زرد رنگ کا پیشاب آنا، جسمانی نشوونما سُست ہوجانا، تلّی، دِل اور جگر کے حجم کا بڑھ جانا اور ہڈیوں کا انتہائی حد تک کم زور ہو جانا شامل ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض کی ہڈیوں میں پائے جانے والا گُودا پھیل جاتا ہے،جس کے نتیجے میں ہڈیاں پتلی اور کم زور ہو جاتی ہیں اور اِن کے ٹوٹنے کاخطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ 

بیٹا تھیلیسیمیا کی پھر مزید تین اقسام ہیں۔جنھیں تھیلیسیمیا مائنر، انٹرمیڈیا اور میجر کہا جاتا ہے۔ مائنر کی ٹائپ معمولی نوعیت کی ہے، جس میں مبتلا مریض نارمل افراد ہی کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں، مگر اپنا مرض، اپنے بچّوں میں منتقل کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا میجر کی نوعیت شدید ہے۔یہ بیٹا جین کی غیر موجودگی کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔

اس میں بچّے کے جسم میں خون کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے اور بار بار خون لگوانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس کی علامات عموماً بچّے کی پیدایش کے دوسرے سال ہی سے ظاہر ہونے لگتی ہیں۔مثلاً رنگت پیلی پڑنا، مسلسل انفیکشن، بھوک میں کمی، جسمانی نشوونما رُک جانا، اعضاء کے حجم میں غیر معمولی اضافہ وغیرہ۔ تھیلیسیمیا انٹرمیڈیا، دو بیٹا جینز میں غیر معمولی تبدیلی کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔

اس مرض میں اگرچہ مریضوں کو خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے،مگر مرض کی شدّت بہت زیادہ نہیں ہوتی،البتہ ایسے افراد ہڈیوں کی کم زوری، ٹانگوں کے اندرونی زخم، گال بلیڈر میں پتھری، تِلی کےبڑھنے اور دیگر انفیکشنزکا شکار ہو سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ مُمالک میں بیٹا تھیلیسیمیا کی جانچ نومولود کی پیدایش کے وقت ہی کرلی جاتی ہے، تاکہ بروقت علاج کی بدولت بچّے کو مختلف پیچیدگیوں سے بچایا جا سکے۔ 

واضح رہے کہ اگر میاں بیوی دونوں ہی معمولی نوعیت کے تھیلیسیمیا کا شکار ہوں، تو ایسی صُورت میں ان کے یہاں جنم لینے والے بچّے میں تھیلیسیمیا میجر ہونے کا امکان25فی صد ہوگا، جب کہ تھیلیسیمیا مائنر کا50فی صدرہے گا اور نارمل بچّے کی پیدایش کے امکانات 25فی صد ہوں گے،لیکن اگر میاں بیوی میں سے ایک نارمل اور دوسرا معمولی نوعیت کے تھیلیسیمیا کا شکار ہو، تو ایسی صورت میں50فی صد مائنر اور50فی صد ہی صحت کے اعتبار سے نارمل بچّے پیدا ہونے کے امکانات پائے جاتےہیں ۔

تھیلیسیمیا الفا اُس وقت لاحق ہوتا ہے، جب بچّہ متاثرہ والدین سے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ الفا گلوبن جین حاصل کرتا ہے۔اس کی علامات میں پیٹ کا پھولنا،سانس لینے میں دشواری، جسمانی کم زوری، درد، جِلد کی رنگت پیلی پڑجانا، چڑچڑاپن، چہرے کی ہڈیوں کا پتلا اور کم زور ہونا، نشوونما میں سُست روی اور گہرے رنگ کا پیشاب آنا شامل ہیں۔عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ مُمالک میں تھیلیسیمیا کے90فی صد مریض نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتے ہیں، جب کہ ترقی پزیر مُلکوں میں عموماً مریض بلوغت تک پہنچتے ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ 

اگر الفا تھیلیسیمیا معمولی نوعیت کا ہو، تو عمومی طور پر علامات ظاہر ہوتی ہیں اور نہ ہی علاج کی ضرورت پیش آتی ہے، البتہ شدید نوعیت میں علاج کروانا ناگزیرہوجاتا ہے اور علاج صاف اور صحت مند خون کی منتقلی ہی ہے، البتہ مسلسل خون کی منتقلی سے جسم میں آئرن کی مقدار میں اضافہ ہونے لگتا ہے، جو اعضاء کی کارکردگی متاثر کرسکتا ہے، لہٰذا آئرن کی مقدار کنٹرول کرنے کے لیے ادویہ بھی تجویز کی جاتی ہیں۔ یاد رکھیے، تھیلیسیمیا کسی بھی قسم کا ہو، اُس کا مؤثر اور دیرپا طریقۂ علاج بون میرو ٹرانس پلانٹیشن ہی ہے،لیکن یہ طریقۂ علاج مہنگا تو ہے ہی، بعض اوقات خطرناک بھی ثابت ہوسکتاہے،کیوں کہ اگر عطیہ کرنے والے فرد اور مریض کے بون میرو سیلز علاج کے بعد بھی آپس میں میچ نہ ہوسکیں،تو مریض کی زندگی خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔

الفا تھیلیسیمیا کی ایک شدید ترین قسم Hydrops fetalis ہے، جو موروثی طور پر پیدایش سے قبل ہی بچّے میں پائی جاتی ہے۔ ایسے بچّے اکثر مردہ پیدا ہوتے ہیں یا پھر پیدایش کے کچھ عرصے بعد انتقال کرجاتے ہیں۔ الفاتھیلیسیمیا کی دوسری قسم ہیمو گلوبن ایچ تھیلیسیمیا کہلاتی ہے، جس کا سبب بچّے میں تھیلیسیمیا سے متاثرہ والدین میں سے تین الفا گلوبن جینز منتقل ہونا ہیں۔اس سے متاثرہ بچّوں میں ہڈیوں کے مسائل زیادہ ظاہر ہوتےہیں، جب کہ گال، ماتھے اور جبڑے غیر ضروری نشوونما کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نیز، یرقان، تلّی بڑھنے اور بھوک کی کمی کی بھی شکایت عام ہے۔

تھیلیسیمیا کا مرض حاملہ خواتین میں نہ صرف کئی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے،بلکہ ان کی تولیدی اعضاء کی نشوونما بھی متاثر ہو سکتی ہے۔اس سے متاثرہ خواتین عموماً مختلف انفیکشنزکا شکار ہوجاتی ہیں،جب کہ چوبیسویں اور اٹھائیسویں ہفتے کے دوران گیسٹیشنل ذیابطیس، دِل کے امراض اور ہڈیوں کے کم زور ہو نےکے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔اس ضمن میں اگر حاملہ خواتین ابتدائی دس سے گیارہویں ہفتے میں Amniocentesisاور Chorionic Villiجیسے طریقے استعمال کر کے تھیلیسیمیا کی تشخیص کروالیں، تو مزید پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔

دنیا کے بیش تر مُمالک میں انسدادِ تھیلیسیمیا مُہم کی بدولت اس مرض پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، جیسا کہ مصر اور ایران میں تھیلیسیمیا کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح پر مؤثر قانون سازی ہی کے تحت مکمل طور پر قابو پایا گیا۔ہمارے یہاں بھی، سندھ اسمبلی میں شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ کا بل منظور ہوچکا ہے۔ اگر کسی وجہ سے شادی سے قبل یہ ٹیسٹ کروانا ممکن نہ ہو، تو کم از کم تمام نئے شادی شدہ جوڑے اپنا یہ ٹیسٹ لازمی کروائیں۔ 

تھیلیسیمیا سے مکمل نجات ممکن نہیں، البتہ صاف خون کی منتقلی، ہیپاٹائٹس سے بچائو کی ویکسین، بَھرپور طبّی دیکھ بھال، تازہ سبزیوں، معیاری اورکم چکنائی والی غذاؤںکے استعمال اور ہلکی پھلکی ورزش کے ذریعے مرض کی شدّت کم کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض کھانے پینے کی ایسی اشیاء استعمال کریں، جن میں آئرن کی مقدار کم ہو۔ نیز، گوشت، مچھلی ، ڈبل روٹی، دلیے اور مصنوعی جوسز وغیرہ کے استعمال سے مکمل طور پر پرہیز کریں۔ 

جب کہ تھیلیسیمیا کے شکار وہ مریض، جن کی تلّی نکال دی گئی ہو، اپنے معالج کے مشورے سے فلو، نمونیا اور ہیپاٹائٹس بی سے بچائو کی ویکسی نیشن ضرور کروائیں اور ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کریں، جہاں سے فلو یا کھانسی لگنے کا خطرہ ہو، حتیٰ کہ معمولی بخار کی صورت میں بھی انہیں ڈاکٹر سے فوراً رجوع کرنا چاہیے۔

پاکستان میں ہر سال تھیلیسیمیا کے تقریباً چھے ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں اور دس ملین کے قریب متاثرہ افراد اس بیماری کو اپنی اگلی نسلوں میں منتقل کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پیدایش کے بعدنومولود کے جسم میں چھے مہینے تک ہیمو گلوبن کی مقدار کنٹرول کرنے کے لیے الفا اور گاما جینز موجود ہو تے ہیں۔ اگر ایب نارمل بیٹا جینز، نارمل گاما جینز کی جگہ لے لیں، تو پھر ایب نارمل ہیموگلوبن بننے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ یعنی خون کے کچھ سُرخ خلیے نارمل اور کچھ ایب نارمل حالت میں پیدا ہوتے ہیں، تو جیسے ہی ایسے بچّوں میں تھیلیسیمیا کی تشخیص ہوجائے، انھیں ایک مخصوص دوا استعمال کروائی جاسکتی ہے،جس کی بدولت خون کے صحت مند سُرخ خلیے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقۂ علاج’’fetal hemoglobin production‘‘کہلاتا ہے۔ 

جامعہ کراچی میں قائم ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالیکیولرمیڈیسن اور ڈرگ ریسرچ سینٹر کے مطابق اِس طریقۂ علاج میں کسی بھی عُمر سے تعلق رکھنے والے تھیلیسیمیا کے مریض میں صحت مند خون کے سُرخ خلیوں کے بننے کا امکان سو فی صد نہیں ہوتا ، کیوں کہ یہ سارا عمل دوا اور ہیموگلوبن بنانے والےجینز کی آپس میں مطابقت پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محض چالیس سے پینتالیس فی صد مریضوں ہی میں یہ طریقۂ علاج کام یاب ثابت ہوا اور انہیں خون کی مسلسل منتقلی سے نجات مل پائی۔

مذکورہ سینٹر سے وابستہ، ڈاکٹر طاہر ایس شمسی کے مطابق اس طریقۂ علاج کی بدولت مستقبل میں تھیلیسیمیا کے چالیس فی صد مریضوں کو خون تبدیل کروانے کی ضرورت نہیں ہوگی اورمریض ایک لمبے عرصے تک سات سے نو گرام پَرڈیسی لیٹر کے درمیان اپنا ہیمو گلوبن برقرار رکھ سکیں گے۔ یاد رہے، ہر سال علاج معالجے کی مد میںتھیلیسیمیا کے ساٹھ ہزار مریضوں پر تقریباً78بلین کی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے اور اِس رقم کا بیش تر حصّہ این جی اوز، حکومت اور تھیلیسیمیا سے متاثرہ خاندان ادا کرتے ہیں،تو اگر چالیس سے پچاس فی صد مریضوں کا خون کی منتقلی کے بغیر ہی علاج ہوجائے، تو اخراجات کی مدمیں تقریباً تین اعشاریہ پانچ بلین کی رقم محفوظ کی جا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں مُلک میں خون کی کمی کا مسئلہ دُور ہوگا، تو بلڈ بینک کسی بھی حادثاتی صورت میں یا پھر خون کی کمی کی شکار حاملہ خواتین کو بروقت خون فراہم کرنے کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ 

پھر یہ تحقیق اُن ہزاروں والدین کے لیے بھی اُمید کی ایک کرن ہے، جو اپنے تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچّوں کے علاج اور مرض کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مصائب اور مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ یوں بھی ماضی کی نسبت تھیلیسیمیا کے مریض اب بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو رہے ہیں اور اس کی ایک وجہ اسکریننگ شدہ خون کی منتقلی ہے۔نیز، چوں کہ iron chelation therapy(جس میں جسم سے اضافی آئرن نکال دیا جاتا ہے کہ جسم کے باقی اعضاء متاثر نہ ہوں) اور اسٹیم سیلز ٹرانس پلانٹیشن جیسی جدید سہولتیں بھی میسّر آچکی ہیں،تو مرض کے علاج کے ضمن میں یہ اچھی پیش رفت ہے۔

پیدایش سے پہلے تھیلیسیمیا کی تشخیص اور پاپولیشن اسکرینگ(POPULATION SCREENING) بھی تھیلیسیمیا کی روک تھام میں اہم کردار اد کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مریضوں کو چاہیے کہ وہ ہر تین ماہ بعد اپنےخون اور اس میں موجود آئرن کی مقدار کی جانچ کروائیں اور سال میں ایک بار معالج کے مشورے سے لازماً دِل، جگر، ایچ آئی وی اور دیگر انفیکشنز کے ٹیسٹ بھی کروائیں۔ ہیپاٹائٹس اے اور بی کی ویکسی نیشن لازماً کروائی جائے، جب کہ پھیپھڑوں، بصارت و سماعت کی صلاحیت کا معائنہ بھی ضروری ہے۔عمومی طبّی معائنہ بھی ہوتا رہنا چاہیے، خاص طور پر قد اور وزن کی جانچ تو ناگزیر ہے۔ 

تھیلیسیمیا کے مرض کی اگلی نسلوں میں منتقلی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ مائنر تھیلیسیمیا کے شکار افراد آپس میں شادی سے گریز کریں، بلکہ حکومت کو چاہیے کہ اِس اقدام کے لیے باقاعدہ کوئی قانونی صورت پیدا کی جائے۔ شناختی کارڈ پر یہ بات درج ہو کہ افراد کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ مثبت ہے یا منفی۔ نیز، مُلک بَھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں تھیلیسیمیا کی تشخیص کے لیے مکمل بلڈکائونٹ، ہیموگلوبن الیکٹروفوریسز اور پی سی آر جیسے طریقے عام کیے جائیں۔

(مضمون نگار،حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری(HEJ)، جامعہ کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین