• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عالمی اُفق: یکساں تنازعات، مختلف نتائج

اس وقت جوہری ہتھیاروں اور جوہری تجربات کے تناظر میں شمالی کوریا اور ایران دُنیا بَھر کی توجّہ کا مرکز ہیں اور ان دونوں ممالک کے تنازعات میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ مرکزی حیثیت اختیار کر چُکے ہیں۔ پھر ان دونوں ممالک میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ ان کا تعلق برِ اعظم ایشیا سے ہے۔ گرچہ شمالی کوریا امن مذاکرات پر آمادہ ہو چُکا ہے ، کِم1953ء کے بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے شمالی کورین رہنما بن چُکے ہیںاورمئی یا جون میں ٹرمپ اوراُن کے درمیان ملاقات متوقّع ہے، لیکن ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والی نیوکلیئر ڈِیل مزید پیچیدگیوں کا شکار ہو چُکی ہے۔ چند ماہ قبل امریکی صدر کا یہ کہنا تھا کہ اگر یورپی طاقتیں ایران کو معاہدے میں ترامیم پر آمادہ نہ کر سکیں، تو وہ اس سے دست بردار ہو جائیں گے۔ 

تاہم، گزشتہ دِنوں فرانسیسی صدر، ایمانوئیل میکروں کے دورۂ امریکا کے موقعے پر امریکی صدر اور اُن کے فرانسیسی ہم منصب کی جانب سے ایران کے ساتھ نیا معاہدہ کرنے کی تجویز سامنے آئی، جس میں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کو شامل کیا جا سکتا ہے، جب کہ ایران کا ماننا ہے کہ وہ معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد کر رہا ہے۔ لہٰذا، اسے ختم کرنے یا اس میں ترمیم کا کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس موقعے پر یورپی یونین، امریکا اور ایران کے مابین ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے۔

جنوبی کوریا میں منعقدہ سرما ئی اولمپک گیمز کے دوران ہونے والا ’’بریک تھرو‘‘ اب نتیجہ خیز ثابت ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور بیش تر مبصّرین کا ماننا ہے کہ اگر کوئی غیر معمولی رُکاوٹ آڑے نہیں آئی، تو معاملات بہتری کی جانب بڑھیں گے۔ ناقدین کے مطابق، شمالی کوریا اپنی ایٹمی پالیسی کے معاملے میں تقریباً ’’یو ٹرن‘‘ لے چُکا ہے ۔ اپریل کے وسط میں نو منتخب امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو نے، جو سی آئی اے کے ڈائریکٹر بھی رہ چُکے ہیں، کِم جونگ اُن سے ایک اہم ملاقات کی، جس میں مئی یا جون میں شمالی کورین رہنما کی امریکی صدر سے مجوزہ ملاقات کی جزئیات پر گفتگو کی گئی۔ بعد ازاں، امریکی صدر کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا سے مذاکرات کام یابی سے آگے بڑھے ہیں اور زیادہ تر معاملات پر اتفاق طے پاگیا ہے۔ 

عالمی اُفق: یکساں تنازعات، مختلف نتائج
شمالی کوریا کے رہنما، کِم جونگ اُن کی امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو اور جنوبی کورین صدر، مون جے اِن سے ملاقات کے مناظر

تاہم، ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں یہ تنبیہ بھی کی کہ اگر بات چیت میں کوئی رخنہ آیا، تو وہ اُٹھ کر چلے جائیں گے۔ جنوبی کوریا کے صدر نے بھی سُکھ کا سانس لیتے ہوئے امریکا اور شمالی کوریا کے مابین مثبت پیش رفت کا عندیہ دیا۔ بعد ازاں، شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنماؤں، کِم جونگ اُن اور مون جے اِن کے درمیان سرحد پر واقع غیر فوجی علاقے میں ہونے والی تاریخی ملاقات میں جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے مل کر کام کر نے پر اتفاق کیا گیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر رواں برس کے آغاز میں جزیرہ نُما کوریا میں ایسی کون سی تبدیلی آئی کہ جس کے نتیجے میں جنگ کا ماحول امن کی فضا میں تبدیل ہو گیا؟ اس ضمن میں شمالی کورین رہنما کے وہ بیانات سب سے اہم ہیں، جن میں انہوں نے اپنا ایٹمی پروگرام منجمد یا ختم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس بارے میں کِم کا کہنا تھا کہ چُوں کہ اُن کے مُلک نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی ہے، لہٰذا مزید بیلسٹک میزائلز یا ایٹمی تجربات کی ضرورت نہیں۔ 

یاد رہے کہ گزشتہ برس پیانگ یانگ نے نہ صرف تواتر کے ساتھ ایٹمی تجربات کیے تھے، بلکہ ہائیڈروجن بم کے کام یاب تجربے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ نیز، اس دوران شمالی کوریا امریکا کو تباہ کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا رہا، جس کے جواب میں ٹرمپ نے شمالی کوریا کو نیست و نابود کرنے کی دھمکی دی۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا نے دو ایسے میزائلز کا بھی تجربہ کیاتھا، جو خطّے میں امریکا کے سب سے بڑے اتحادی، جاپان کی فضائوں سے ہوتے ہوئے سمندر میں جا گرے تھے۔ 

اس پر جاپانی وزیرِ اعظم، شینزو ایبے بہت سیخ پا ہوئے اور انہوں نے تاحال شمالی کوریا کے حوالے سے خاصا سخت مٔوقف اپنا رکھا ہے۔ تاہم، وِنٹر المپکس کے دوران شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں دونوں کے تعلقات میں جمی برف تیزی سے پگھلنے لگی اور اب کِم نہ صرف اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں، بلکہ پورے جزیرہ نُما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کا اعلان بھی کر چُکے ہیں۔

گرچہ چین اور یورپی یونین نے پومپیو اور کِم کے مابین ملاقات کا خیر مقدم کیا ہے، لیکن جاپان ابھی بھی اپنے سخت مٔوقف پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب گزشتہ ماہ کے وسط میں شینزو ایبے نے ٹرمپ سے واشنگٹن میں ملاقات کی، تو وہ شمالی کوریا کو کسی بھی قسم کی فوری رعایت نہ دینے پر مُصر تھے، جب کہ امریکا پہلے ہی کہہ چُکا ہے کہ وہ کِم کے بیانات کے باوجود پیانگ یانگ پر اپنی پابندیاں اور دبائو برقرار رکھے گا۔ اس بارے میں ٹرمپ اور امریکی پالیسی سازوں کا ماننا ہے کہ ماضی میں بھی شمالی کوریا کے رہنمائوں نے قیامِ امن کی خواہش کا اظہار کیا تھا، لیکن جب اُن کے مقاصد پورے ہو گئے، تو وہ اپنی پُرانی ڈگر پر واپس آ گئے۔ 

تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ کِم کے لیے اپنے بیانات سے پِھرنا نا ممکن ہو گا اور انہیں کسی نہ کسی حد تک اپنا قول سچّا کر کے دِکھانا ہو گا، کیوں کہ شمالی کوریا پر عاید اقوامِ متّحدہ کی اقتصادی پابندیوں نے اُس کے عوام کو بے حال کر کے رکھ دیا ہے اور چین سمیت کوئی بھی مُلک اس کے ساتھ تجارت پر آمادہ نہیں۔ گر چہ چین نے اپنے حلیف پر یہ واضح کر دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری اُس سے سخت نالاں ہے اور ان حالات میں اس کے لیے شمالی کوریا کی مدد کرنا ممکن نہیں ، نیز وہ بات چیت کی راہ اپنائے، لیکن اس کے ساتھ ہی چینی قیادت کی یہ خواہش بھی ہو گی کہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ نہ ہو، جس سے خطّے میں اس کے مفادات کو زِک پہنچے۔

یاد رہے کہ 1953ء میں جزیرہ نُما کوریا میں جنگ بندی کے بعد سے جنوبی و شمالی کوریا حالتِ جنگ میں ہیں اور سفارتی ماہرین کی نظر میں اس تاریخی تنازعے کے حل کے لیے دونوں ممالک کے درمیان ایک امن معاہدہ ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں پہلے بھی کئی مرتبہ شمالی و جنوبی کوریا کے مابین مذاکرات ہو چُکے ہیں، جو کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو گئے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چین ہرگز یہ نہیں چاہے گا کہ کِم فوراً ہی امریکا کے سارے مطالبات تسلیم کرلیں۔

اگر جزیرہ نُما کوریا کی صورتِ حال پر نظر ڈالی جائے، تو ایک پیچیدگی یہ بھی نظر آتی ہے کہ جنوبی کوریا ایک بڑی اقتصادی قوّت ہے، جب کہ شمالی کوریا تقریباً دیوالیہ پن کی شکار ریاست ۔ ایٹمی ہتھیاروں اور فوج کے علاوہ شاید ہی اس کی کوئی قابلِ ذکر خصوصیت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک جتنے بھی معاہدے ہوئے ہیں، ان کے نتیجے میں سیئول کو پیانگ یانگ کی اقتصادی معاونت کرنا پڑی۔ سو، یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات بحال ہونے کی صورت میں جنوب کے عوام کو اپنے شمالی بھائیوں کی خاطر قربانی دینا پڑے گی اور اپنی خوش حالی میں انہیں بھی شریک کرنا پڑے گا۔ 

اس اعتبار سے جنوبی کوریا کے موجودہ صدر، مون جے اِن اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کہ انہوں نے خود شمالی کوریا سے جنوبی کوریا ہجرت کی تھی اور اُن کے خاندان کے زیادہ تر افراد اب بھی شمال ہی میں مقیم ہیں ۔ نیز، وہ اپنے شمالی بھائیوں کے لیے دردِ دل بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی وشمالی کوریا میں تعلقات قائم کرنا، اُن کے انتخابی ایجنڈے کا اہم حصّہ تھا، جس پر وہ آج بھی عمل پیرا ہیں۔ گرچہ مون کی شمالی کوریا سے جذباتی وابستگی امن عمل کو مہمیز دے سکتی ہے، لیکن کِم کو بھی اپنے مٔوقف پر مضبوطی سے قائم رہنا ہو گا اور پھر جاپان کے علاوہ ویت نام، انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور تائیوان بھی شمالی کوریا کےعزائم کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ جنوب مشرقی ایشیا گزشتہ دو دہائیوں سے غیر معمولی اقتصادی ترقّی کا مرکز رہا ہے ۔ اس خطّے سے تعلق رکھنے والے ممالک کبھی بھی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ کوئی مُلک اپنی ایٹمی طاقت کے بَل پر ان کی خوش حالی کو تہس نہس کر کے رکھ دے اور مذکورہ ممالک ہی کی وجہ سے امریکا کے شمالی کوریا مخالف مٔوقف کو تقویّت مل رہی ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ شاید شمالی کوریا کے لیڈرز کو اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ خوش حالی کے سمندر میں ایٹمی ہتھیاروں کے بَل پر ایک بد حال جزیرے کے طورپر زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ 

آج شمالی کوریا کے گرد و پیش کے ممالک کے عوام کی خوش حالی شمالی کورین عوام پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے اور وہ کِم کے لیے خطرہ بن سکتی ہے ۔اگر ایسے میں شمالی کوریا میں کوئی حکومت مخالف تحریک اُٹھتی ہے، تو اسے نہ صرف امریکا بلکہ جاپان اور خطّے کے دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل ہو گی۔ سو، شمالی کوریا کی قیادت کا یہ فیصلہ بادی النّظر میں بالکل دُرست نظر آتا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو خیر باد کہہ کر امریکا اور جنوبی کوریا سے مذاکرات کے ذریعے امن کی راہ نکالے گی۔

عالمی اُفق: یکساں تنازعات، مختلف نتائج
ایرانی صدر، حسن روحانی                                  ٹرمپ اپنے فرانسیسی ہم منصب، ایمانوئیل میکروں کے دورۂ                                                                                       امریکا کے موقعے پر اُن سے مصافحہ کرتے ہوئے

ہر چند کہ شمالی کوریا سے اچّھی خبریں موصول ہو رہی ہیں، لیکن ایران اور نصف درجن عالمی طاقتوں، امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور رُوس کے درمیان ہونے والی ایٹمی ڈِیل ایک بار پھر خطرات کی زد میں ہے۔ ٹرمپ اور اُن کے فرانسیسی ہم منصب، ایمانوئیل میکروں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ایران کے ساتھ ایک نئے معاہدے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ اس تجویز پر ایرانی صدر، حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اگر جوہری معاہدہ ختم کیا گیا، تو اس کے نہایت سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جب کہ ایرانی وزیرِ خارجہ، جواد ظریف کہتے ہیں کہ اگرامریکا معاہدے سے پیچھے ہٹے گا، تو ایران بھی اس سے دست بردار ہو جائے گا۔ 

دوسری جانب فرانسیسی صدر کے مطابق، اگر ایران نے 2015ء کے جوہری معاہدے کے بر خلاف جوہری پروگرام شروع کیا، تو اس کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ نئے جوہری معاہدے کی تجویز پر ایرانی صدر، حسن رُوحانی اور اُن کے وزیرِ خارجہ، جواد ظریف خاصے پریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اُن کا معتدل سفارت کارانہ لہجہ دھمکیوں میں بدلتا جا رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایرانی حُکّام ٹرمپ کو جوہری معاہدے ختم کرنے سے باز رکھنے کے لیے اپنے یورپی دوستوں پر دبائو بھی ڈال رہے ہیں۔ 

یاد رہے کہ ٹرمپ اپنی صدارتی مُہم کے دوران اس نیوکلیئر ڈِیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے امریکی مفادات کے نقطۂ نظر سے ایک بد ترین معاہدہ قرار دے چُکے ہیں، لیکن اس وقت یہ صرف اُن ہی کا مٔوقف نہیں، بلکہ امریکی سینیٹ اور کانگریس کے بیش تر ارکان اس اَمر پر متفق ہیں کہ ڈِیل کی حتمی تصدیق سے قبل اس میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سابق امریکی صدر، باراک اوباما نے معاہدے کی ہر 6ماہ بعد تصدیق کی شرط اس ڈِیل پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

آج ٹرمپ اپنے پیش رَو کے برعکس اپنے پُرانے عرب حلیفوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے ایران کو مشرقِ وسطیٰ میں انتشار کا ایک بڑا سبب قرار دیا ہے اور جوہری معاہدے میں ترامیم کی شرط میں اسی کا تسلسل ہے۔ چُوں کہ اس وقت امریکی صدر رُوس اور چین کی باتوں پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں۔ سو، یورپی یونین ہی حسن روحانی کی توجّہ کا محور ہے اور ان کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح ٹرمپ کو یہ معاہدہ برقرار رکھنے پر آمادہ کیا جائے۔ تاہم، ناقدین اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اس وقت جوہری معاہدے کے علاوہ امریکا اور یورپ کے درمیان کئی دیگر اہم معاملات بھی حل طلب ہیں۔ 

مثال کے طور پر حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عاید کیے گئے نئے تجارتی ٹیکسز سے رُوس اور چین کے علاوہ یورپ کے لیے بھی لین دین میں پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں، ٹرمپ کا اصرار ہے کہ اس وقت نیٹو میں اتحادیوں کا مالی حصّہ بہت کم ہے اور انہیں اپنی سیکیوریٹی کے تناسب سے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے۔ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے معاہدے پر بھی امریکا اور یورپ کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں اور ان اختلافات کی موجودگی میں یورپی قیادت شاید امریکا پر زیادہ دبائو نہ ڈال سکے۔ گرچہ فی الوقت یورپی ممالک کو نیوکلیئر ڈِیل کا کوئی متبادل نظر نہیں آتا، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے اور مشرقِ وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے لیے ایران پر دبائو بھی ڈال رہے ہیں، جو ایرانی صدر کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ 

تہران، جوہری معاہدہ برقرار رکھنے پر اس لیے مُصر ہے کہ اس کی کم زور معیشت امریکی پابندیوں کی وجہ سے شدید دبائو میں ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 55ہزار ایرانی ریال کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مساوی ہوجانے پر ایران کے مرکزی بینک کو ریال کی قیمت فکس کرنا پڑی۔ نیز، جوہری معاہدہ ختم ہونے سے اندرونِ مُلک حسن روحانی کی پوزیشن بھی کم زور ہو جائے گی اور قدامت پسندوں کو تقویّت ملے گی۔

تازہ ترین