• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصوری و خطاطی اور صادقین

آرٹ، انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب فن یا ہُنر ہے۔ آرٹ یا فن کہنے کو تو مختصر سا لفظ ہے، مگر یہ اس قدر وسیع المفہوم کہ اپنے اندر معنی کی ایک دُنیا آباد رکھتا ہے۔ سادہ سے الفاظ میں کسی بھی شخص کا کوئی بھی ایسا اختصاصی وصف، جسے دیکھ کر دوسرے حیران ہو جائیں، آرٹ کہلایا جا سکتا ہے۔ کوئی شخص تنی ہوئی رسّی پر چلنے کا کمال دِکھاتا ہے، توکسی کو سینے پر وزنی پتّھر رکھ کر بھاری گاڑی گزارلینے پر ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ کوئی تا دیر بغیر کسی بیرونی سہارے کے زیرِ آب رہ سکتا ہے، تو کوئی اپنی آواز کے جادو سے سامعین پر ایک سحر سا طاری کر دیتا ہے اور یہ سب کمالات آرٹ یا ہُنرسے تعبیر کیے جا سکتے ہیں۔انگریزی ہی کی ایک اصطلاح ’’فائن آرٹ یا فائن آرٹس‘‘ بھی ہے، جسے اُردو زبان میں ’’فنونِ لطیفہ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ماہرین، فنونِ لطیفہ کو بھی دو خانوں میں تقسیم کرتے ہیں ،جو ’’فنونِ لطیفہ کبریٰ ‘‘ اور ’’فنونِ لطیفہ صغریٰ‘‘ پر مشتمل ہے۔ اوّل الذّکر کے دائرے میں شاعری، موسیقی، مصوّری، مجسّمہ سازی اور نقّاشی وغیرہ آتی ہے، جب کہ مٔوخر الذّکر میں ظروف سازی، زردوزی اور قالین بافی وغیرہ کو شامل کیا جاتا ہے۔

مصوری و خطاطی اور صادقین

 گویا ’’فنونِ لطیفہ کبریٰ‘‘ احساسات کی اُس نازک سطح کے اظہار کا نام ہے، جہاں معمولی سی لغزش بھی سُننے، دیکھنے اور سمجھنے والے کے احساسِ لطافت کو کثافت سے دو چار کر سکتی ہے۔ یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ فنونِ لطیفہ دراصل تخیّل کو متشکّل کرنے کا نازک عمل ہے اور زبان، الفاظ، اشارے، حرکات و سکنات اور رنگ فرد کے اندر کے احساس کو بیدار کرنے اور اسے باہر لانے کا ایک کارگر فعل ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی نے شاید ایسے ہی کسی موقعے کے لیے کہا تھاکہ ؎ آہ کو دے کے گرہ حرف بنا دیتا ہوں۔

سو، خیال کو اظہار کا پیکر عطا کرنے کے لیے کبھی آنکھوں سے کام لیا جاتا ہے، تو کبھی ہونٹوں سے۔ کبھی اشاروں ، کنایوں میں گفتگو کی جاتی ہے، تو کبھی غزلوں میں۔ اسی کے ساتھ کبھی لکیروں سے کام لیا جاتا ہے، تو کبھی نقوش سے اور کبھی رنگوں سے۔ لکیروں، نقوش اور رنگوں میں لپٹی کہانی بیان کرنے والا مصوّر اور خطّاط کہلاتا ہے۔ اگر مصوّر اپنے فن میں کامل ہو، تو بات کو کچھ اس رُخ سے بیان کرتا ہے کہ ہمہ تن گوش قاری اور ناظر دوسرا رُخ دیکھنے کے لیے تڑپ اُٹھتا ہے اور بے ساختہ اُس کے لبوں سے آواز آتی ہےکہ؎اے مصوّر کیوں نہ کھینچی یار کی پوری شبیہ…یک رُخی تصویر ہے یا چاند آدھا رہ گیا۔ جب ایسے کامل مصوّر کی بات کی جائے کہ جو احساس کو لکیروں کی مدد سے آشکار کر دے، تو جو چند نام سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں، اُن میں سے ایک’’ صادقین‘‘ بھی ہے۔ 

ایک ایسا فن کار، جس کی تخلیق تہہ در تہہ اور پرت در پرت معنی و مفاہیم کی دُنیائیں دریافت کرتی ہے۔ ایک ایسا فن کار، جس کی سرشت میں موجود کرب، اضطراب اور سینے میں لگی آگ اُس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہوتی کہ جب تک اُسے تخلیق کا پُرشور پانی بُجھا نہیں دیتا۔ ایک ایسا فن کار، جو کائنات کو تخیّل کی آنکھ سے دیکھتا، مفکّر کے ذہن سے سوچتا اور مصوّر کے قلم سے سمجھتا ہے۔

30جون 1930ء کو سیّد سبطین احمد نقوی اور فاطمہ خاتون کے گھر جس بچّے نے جنم لیا، وہ قسّامِ ازل سے یہ لکھوا کر لایا تھا کہ وہ کائنات کے سربستہ رازوں کو لکیروں، لفظوں اور رنگوں سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرے گا۔ بچّے کا نام، سیّد صاقین احمد نقوی رکھا گیا۔ اس سے پہلے پیدا ہونے والے بچّے کا نام سیّد کاظمین احمد نقوی تھا اور صادقین کے بعد جو بچّہ پیدا ہوا، اُس کا نام سیّد حسنین احمد نقوی رکھا گیا۔ والد، سیّد سبطین احمد نقوی اپنے رنگ کے ایک مکمّل شاعر تھے۔ مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے۔ رنگوں اور لکیروں سے بھی اُنہیں یک گُونہ لگاؤ تھا اور ایسا کئی نسلوں سے جاری تھا۔ 

گھرانے کے بزرگوں کی خوش نویسی کا یہ عالم بھی رہا تھا کہ کلامِ پاک کے سات نُسخے خاندانی نجابت کے ساتھ دستِ کرامت کی داستانیں سُناتے نظر آتے۔ والدہ، فاطمہ خاتون گرچہ مکتبی و نصابی تعلیم سے ناواقف تھیں، تاہم میر انیسؔ کے مرثیے نوکِ زبان پہ رہتے، جنہیں وہ اپنے بچّوں کی طہارتِ نفسی اور آدابِ زبان کی تربیت کے لیے دُہراتیں۔ یوں صادقین شیر خوارگی ہی سے تخیّل کے اظہار کی اہلیت سے واقف ہو چلے۔

نقوی سادات سے آباد، اَمروہہ کی مردم خیز بستی کے وسط میں بگلا نامی کوچے میں جنم لینے والے صادقین کا گھرانا، زمیں دار طبقے میں شمار کیا جاتا تھا۔ تہذیبِ اَمروہہ کے عین مطابق شعر و ادب سے رغبت گھرانے کے بیش تر افراد کا معمول تھا اور صادقین بھی اس سے مُبرّا نہ تھے۔ صادقین کو بستی کے آرائشی در و دیوار بہت بھاتے۔ یہ در و دیوار خوش نویسوں کے مَشق کرنے کے دُہرے کاغذوں یعنی وَصلیوں سے پُر ہوتے اور وَصلیوں پر رُباعیاں تحریر ہوتیں۔ یوں صادقین کو بچپن ہی سے خوش نویسی اور رُباعی سے لگاؤ پیدا ہو گیا اور یہی لگاؤ زندگی کے آخر دَم تک دَم کے ساتھ لگا رہا۔ 

مصوری و خطاطی اور صادقین

ابھی جب کہ حرف اور لفظ سے آشنائی طبیعت کو بہت بھائی نہیں تھی، صادقین نے وَصلیوں سے پُر خوش نُما رُباعیات کو کاغذ اور تختی پر آڑے ترچھے انداز میں نقل کرنا شروع کر دیا۔ اس عمل کی پیہم تکرار صادقین کی طبیعت کو یک گونہ قرار دینے لگی۔ گرچہ صادقین کے والد اس عادت سے بہت نالاں رہتے اور بچّے کو تصویر کَشی کی بہ جائے دوسرے مضامین کی طرف متوجّہ کرتے۔ تاہم، محسوس یہ ہوتا تھا کہ صادقین پر باپ کی سرزنش کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بچپن کا واقعہ ہے، جب عُمر بہ مشکل پانچ یا چھے برس ہو گی کہ ایک تپتی دوپہر میں جب افرادِ خانہ محوِ استراحت تھے، صادقین اپنے ہم عُمر دوست کے ساتھ بہ جائے کھیل کُود کے، چند سفید کورے کاغذوں کے ساتھ کوئی خوف ناک خیالی ہیولا بنانے میں مگن تھا۔ یہ ہیولا اتنا مہیب تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے گھر پر محیط ہو گیا۔ یہ وحشت ناک تصویر کَشی کسی ایسی دُنیا کی عکّاس تھی کہ جہاں سماجی نا برابری، انسانی راحتوں اور خوشیوں کو نگلنے میں مصروف تھی۔

اب مکتبی و تعلیمی زندگی شروع ہوئی۔ اسکول کے بالکل ابتدائی دِنوں میں صادقین نے اُس کی دیواروں کو پینسلوں اور کوئلوں سے داغ دار کرنا شروع کیا۔ اساتذہ نے گھر پر شکایت بھیجی کہ بچّہ پڑھائی میں دِل لگانے کی بہ جائے فضول کاموں میں وقت ضایع کر رہا ہے۔ باپ نے ایک بار پھر سمجھایا، مگر بچّہ باپ کی نصیحت پر عمل کرنے کی بہ جائے لکیروں اور رنگوں کی دُنیا سجائے، اُس کے آثار اور خُمار میں مَست رہتا۔ حرف اور لفظ کے ساتھ اب صادقین نے بزرگوں کے قلمی دواوین (دیوان کی جمع) کو خوش نویسی کے ساتھ کاغذ پر منتقل کرنا شروع کر دیا۔ رُباعیات کے ساتھ اب غزلیں، نظمیں اور شاعری کی دیگر اصناف سے بھی واقفیت کا عمل ظہور میں آیا۔ 

مصوری و خطاطی اور صادقین

اسی کے ساتھ ہی اشیاء کی پیکر تراشی کاعمل بھی غیر محسوس طور پر شدّت اختیار کر گیا۔ رفتہ رفتہ اس فن میں اتنی مہارت حاصل ہو گئی کہ خوش نویسی کے ساتھ کُتب نویسی اور نقشہ نویسی پر بھی قادر ہو گیا۔ اسکول ہی کے ابتدائی دِنوں کا قصّہ ہے کہ صادقین کو بستی کے قریب واقع ایک کُمہار کی دُکان سے گہرا لگاؤ پیدا ہو گیا اور وہ اپنے ہم عُمر دوست کے ساتھ گاہے گاہے دُکان کا رُخ کرنے لگا۔ وہ مٹی سے مختلف شکلوں کے بنتے ہوئے برتنوں کو انتہائی محویت کے عالم میں تکا کرتا۔ صادقین نے کُمہار کی دیکھا دیکھی اُن برتنوں کی زمین اور دیوار پر تصویر کَشی کا عمل شروع کر دیا۔ ابتدا میں تو کُمہار نے اُس عمل کو محسوس نہیں کیا۔ تاہم، جلد ہی اُس پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ بچّہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل ہے۔ 

اب کُمہار نے صادقین کی تصویر کَشی کے عمل میں دِل چسپی لینا شروع کی اور مُفید مشورے دیے۔ صادقین نے سنجیدگی سے مشوروں پر عمل کیا اور پھر ایک دن وہ بھی آیا کہ کُمہار نے برتنوں کی صورت گَری کے لیے صادقین سے فرمائش کی کہ وہ اپنے تخیّل کی مدد سے برتنوں کی مختلف خُوب صُورت شکلوں کو کاغذ پر مجسّم کر دے، تا کہ وہ ویسے ہی برتن بنا سکے۔ کم عُمری ہی کے دِنوں میں ایک بار یوں بھی ہوا کہ بستی کے کسی گھر کی دیوار کو سفید رنگ سے رنگا گیا۔ 

دیکھنے والوں کو دیوار بہت بھاتی، مگر کم سِن صادقین کو بھاتی کم اور للچاتی زیادہ۔ اور پھر یوں ہوا کہ صادقین نے رات کے رات دیوار کو ببر شیر کی قدِ آدم تصویر سے سجا دیا۔ شور تو ہونا ہی تھا، سو ہوا اور صادقین کو وہ دیوار پہلے ہی کی طرح صاف کرنی پڑی اور وہ بھی اِس تنبیہ کے ساتھ کہ اگر آیندہ ایسا ہوا، تو سخت سزا دی جائے گی۔ تنبیہ اور سرزنش کے معاملات صادقین کے مصوّری کی جانب بڑھتے تیز ترین قدموں کو ذرّہ برابر بھی روکنے میں کام یاب نہ ہو سکے۔ اسکول کے اساتذہ اور طالبِ علم اب اس حقیقت کو جان چُکے تھے کہ صادقین مصوّری کے بغیر رہ نہیں سکتا اور اب دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو چُکے ہیں۔ 

مصوری و خطاطی اور صادقین

صادقین کی مہارت، مہارتِ تامّہ کی شکل اختیار کر چُکی تھی اور نوبت یہاں تک پہنچ چُکی تھی کہ صادقین کی مختلف نصابی کُتب خود اُس کی مصوّری کا کمال تھیں۔ یہ ساری تصویری پیکر تراشی صادقین کے اسکول کے بستے میں کُتب کی صورت میں موجود رہتی اور کیا استاد اور کیا ہم جماعت، سب کے سب اُس کی اس غیر معمولی فن کارانہ صلاحیت کے گرویدہ تھے۔

امام المدارس انٹر کالج، امروہہ سے صادقین نے 1943ء میں میٹرک اور یہیں سے انٹر کا امتحان بھی پاس کیا۔ یہ اسکول بھی صادقین کے بزرگوں کا قائم کردہ تھا۔ اِن ہی بزرگوں کی علم سے لگن نے ’’آلِ احمد گرلز اسکول‘‘1933ء میں قائم کیا، تاکہ لڑکیاں بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو سکیں۔ اُس زمانے کی سماجی بندشوں کے پس منظر میںلڑکیوں کے لیے اسکول کا قیام روشن خیالی کی وہ تابندہ مثال تھی، جس پر اہلِ امروہہ بجا طور پر ناز کر سکتے ہیں۔1944-46ء آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ 

گرچہ یہ ملازمت صادقین کی اظہار پسند طبیعت سے مناسبت تو رکھتی تھی، تاہم سینے میں پوشیدہ جوار بھاٹا کائنات اور اسرارِ کائنات کو بیان کرنے کے لیے کسی اور جادے کی تلاش میں سرگرداں تھا۔1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ بھی انجام دینے لگے، جہاں کے اساتذہ اور طالبِ علم یکساں طور پر اُن کی تخلیقی صلاحیتوں کے قائل ہو چُکے تھے۔ 1948ء کا سال تھا کہ جب آگرہ یونی ورسٹی سے بی اے کی سند حاصل کی۔ مناظرِ فطرت، صبح کا اُجالا، شب کا اندھیرا، کسی غریب کی زندگی کے دُکھڑے، حسین مُکھڑے غرض موضوعات کی ایک کائنات تھی۔ اب نوجوانی کی آمد تھی۔ 

اِدھر مصوّری میں طاق ہوئے، تو اُدھر رُباعیات میں۔ صادقین کو رُباعی کا مستند شاعر تسلیم کیا جانے لگا۔ حال یہ تھا کہ خود ایک رُباعی میں گویا ہوئےکہ؎شب میری تھی،شام مِری، دِن تھا میرا…آیا ہوا خود مجھ پہ ہی جن تھا میرا…کتنی ہی رُباعیاں تھیں ،لکھ کر پھاڑیں…اٹھّارہ برس کا،جبکہ سِن تھا میرا۔

مصوری و خطاطی اور صادقین

صادقین نے کسی وقت اپنا تخلّص صدقؔ بھی اختیار کیا تھا۔ یوں ایک وقت میں وہ سیّد صادقین احمد نقوی صدقؔ کہلاتے تھے۔ تاہم، آگے چل کر صرف صادقین کہلانے لگے۔ تقسیمِ ہند کے ایک سال کے اندر یعنی 1948ء میں صادقین نئی مملکت، پاکستان کے دارالحکومت، کراچی چلے آئے۔ وہ کراچی، جو اَمروہہ سے یک سَر مختلف شہر تھا۔ یہاں صادقین کو نئے سِرے سے زندگی کی ابتدا کرنی تھی۔ ایک ایسی زندگی، جس میں مسلسل محنت اور سخت کوشی تھی۔ معاش کی تلاش، اوّلین کارِ زندگی تھا۔ 

جہاں بود و باش اختیار کی، اُس جگہ کیکٹس یا ناگ پھنی کے پودوں کی کثرت تھی، جن کی شکل ناگ کے پھن سے مشابہ ہوتی ہے۔ یہ دراصل پاکستان کے ابتدائی دَور میں گزاری جانے والی معاشی سخت کوشی کی ایک علامت تھی، جو صادقین کی تصویروں میں اُتر آئی۔ ایک خطّاط، ایک مصوّر، ایک نقّاش پاکستان کی نئی سر زمین پر آرٹ میں اپنے نقشِ قدم ثبت کر رہا تھا۔ جلد ہی ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی۔ فرائضِ کار میں یہ بھی شامل تھا کہ ریڈیو کے لیے گانے والوں کو خوش خط انداز میں کلام تحریر کر کے دیا جائے، تاکہ اُنہیں گانے کے دوران حروف پڑھنے میں دشواری نہ ہو۔ ملازمت کے ساتھ ہی عرب، مصر، یونان اور مغربی مصوّروں کے کام کا عمیق مطالعہ بھی زندگی کا ایک حصّہ بن گیا۔

تاہم، صادقین نے مصوّری اور خطّاطی میں مجتہدانہ اسلوب سے کام لیا اور بالکل نئی راہ تلاش کی۔ رفتہ رفتہ عوام و خواص اُن کے نام اور کام سے واقف ہوتے چلے گئے۔ 1950ء کی دہائی کے وسط سے انفرادی نمائشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ساٹھ کے عشرے میں صادقین کی شہرت مغرب تک پہنچ گئی اور دُنیا بَھر میں اُن کے کام کو ناقدین کی جانب سے سراہا جانے لگا۔

فن کی دُنیا میں صادقین کی اوّل و آخر رہنما فطرت تھی۔ وہ فطرت ،جس نے صادقین کو اُس کے فن کے اظہار کے نِت نئے موضوعات دیے۔ کائنات، اُس کا خالق، ابنِ آدم اور اُس کی جستجو صادقین کی مصوّرانہ طبیعت کے اہم موضوعات تھے۔ شعور، تہذیب، تحیّر، جستجو اور علم کے خمیر سے تیار ہونے والی صادقین کی شخصیت پر مصوّر کا چہرہ ہی منطبق ہو سکتا تھا۔ ایک ایسا چہرہ ،جس میں کائنات کا چہرہ نظر آتا ہو۔ نامعلوم کو معلوم اور گمان کو یقین کا پیرہن عطا کرنا، صادقین کے لیے ایک دِل چسپ کارِ مشغلہ تھا۔ اُنہوں نے اپنا فن، سماج سے تشکیل دیا اور اپنے سماج کو اپنے فن سے تشکیل دیا۔ گویا اُن کے فن کا سب سے طاقت وَر محرّک سماج رہا۔ 

وہ سماج، جو انسانی وجود سے ترتیب پاتا ہو۔ انسان کے چہرے کے کرب کو تخلیق کا پیرہن عطا کرنا، ہر کام سے زیادہ عزیز تھا۔ افلاس کی تکلیف، کُچلے ہوئے اور محکوم و مجبور طبقے کی مر مر کے جیے جانے کی مسلسل کوشش کو لکیروں اور نقوش کی مدد سے اُبھارنا، صادقین کا دِل چسپ ترین مشغلہ تھا۔ اُن کی خطّاطی اور مصوّری محض خطّاطی اور مصوّری نہیں تھی کہ مجرّد خطّاطی اور مصوّری محض شوق، شہرت اور معاش کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ صادقین کا فن عوام کے لیے تھا۔ اپنی پینٹنگز کو اپنی پُختہ فکر کے تحت لوگوں تک پہنچایا۔ اُنہوں نے طبقۂ اعلیٰ کے افراد کے لیے مصوّری و خطّاطی کو محدود نہیں رکھا، بلکہ نچلے اور کُچلے ہوئے طبقے کے احساسات کو موضوع بنا کر بہت سی شاہ کار پینٹنگز عوام ہی کی نذر کر دیں۔

صادقین ،بُھوک اور درد کے مصوّر کا نام تھا۔ اُن کا فہمِ مصوّری و خطّاطی ’’کراماتِ فن‘‘ کی منزل پر تھا۔ مختلف ممالک کے حُکم رانوں نے اُن کے فن کی لاکھوں درہم، دینار، ڈالر اور اسٹرلنگ پاؤنڈ میں قیمت ادا کرنا چاہی، جسے درویش صفت مصوّر نے ٹُھکرا دیا۔ پیرس سے شایع ہونے والے ایک اخبار نے صادقین کی پینسل، کاغذ، برش، رنگ اور تخیّل کی آمیزش کی حیرت انگیز صورت گَری کو اسپین کے عظیم مصوّر، پِکاسو کے مماثل قرار دیا۔ یہ یقیناً صادقین کی فنی عظمت کے برملا اعتراف کا بین الاقوامی اظہار تھا۔ 

ناقدینِ فن نے اُنہیں وان گو، مائیکل اینجلو اور ریمبراں کی صف میں شمار کیا، مگر وہ ان تمام باتوں سے بے نیاز اپنی تصویروں کی دُنیا میں مگن رہتے۔ اپنی مصوّرانہ تخلیقات کو اپنے دوستوں کو عطا کر دینا معمول تھا۔ صادقین نے سرکاری عمارات کے لیے ایسے بڑے بڑے میورلز تخلیق کیے کہ جن کی تخلیق میں خونِ جگر اور فن کی نمو شامل تھی۔ اُن کے فن کی نمائش دُنیا کے متعدّد ممالک میں ہوئی۔ پاکستان کے اَن گِنت اداروں کو اپنی تخلیقات سے مزیّن کیا۔ 

خطّاطی سے اسلامی خطّاطی میں داخل ہوئے، تو ذہن کی پاکیزگی کینوس کی شائستگی کا رُوپ اختیار کر گئی۔ سورۂ رحمٰن، سورۂ یٰسین اور قرآنی خطّاطی کے دیگر نمونے دیکھنے والوں کے دِلوں کو چُھونے لگے۔ غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ کے اشعار کو تصویری پیکر عطا کیا اور مصوّری و خطّاطی کے علاوہ رُباعیات کے کئی مجموعے اہلِ ادب کو پیش کیے۔

اُن کا شمار بیسویں صدی کے اُن نابغۂ روزگار افراد میں کیا جا سکتا ہے کہ جو بین الا قوامی دُنیا میں پاکستان کی شان قرار پائے۔1961ء میں جب پیرس میں اُن کی تصویروں کی نمائش ہوئی، تو اُنہیں اپنے والد کا خیال آیا کہ کاش وہ بھی وہاں ہوتے اور اُن لمحات کو بہ چشمِ خود دیکھتے کہ کیسے اُن کے اُس بیٹے کے مصوّرانہ کمالات کو دُنیا رشک کی نظر سے دیکھ رہی ہے کہ جس کی بچپن میں وہ بار بار اس مضمون کی وجہ سے سرزنش کیا کرتے تھے۔ اسی خیال کے تحت صادقین نے پاکستان میں موجود اپنے عزیزوں کو اطلاع دی کہ وہ اپنے والد کو بُلانا چاہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ والد زیاراتِ مقدّسہ کے لیے کربلائے معلّیٰ میں ہیں۔ 

مصوری و خطاطی اور صادقین

صادقین نے والد کے لیے بغداد سے پیرس کا ٹکٹ بُک کروایا اور پیرس میں اپنے گھر کا پتا ایک پرچے پر درج کر کے اُس پر تحریر کیا کہ ’’اسے پیرس ایئرپورٹ پر کسی ٹیکسی والے کو دیجیے گا، جو آپ کو میرے گھر پہنچا دے گا۔‘‘ صادقین کے والد بغداد سے چلے اور پیرس ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ جیب میں ہاتھ ڈالا، تو بیٹے کا لکھا پرچہ غائب پایا۔ سراسیمگی کے عالم میں وسیع و عریض ایئرپورٹ پر کھڑے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ یہ بھی خیال آیا کہ واپس بغداد کی فلائٹ لی جائے۔ 

اسی اثنا میں ایک ایئر ہوسٹس نے دیکھا کہ ایک بزرگ پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وہ اُن کے پاس آئی اور دریافت کیا کہ ’’آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘ صادقین کے والد صرف اتنا کہہ سکے۔Sadeqain's father…۔ یہ سُنتے ہی ایئر ہوسٹس بے ساختہ چیخ پڑی کہ ’’مَیں صادقین کی پرستار ہوں۔‘‘ اُس نے صادقین کے والد سے کہا کہ وہ پریشان نہ ہوں اور اپنے سارے کام ترک کر کے اُنہیں اُن کے بیٹے کی قیام گاہ تک پہنچایا۔

صادقین اپنی زندگی انتہائی بے ترتیبی سے گزارتے۔ روزمرّہ اُمور میں کسی سلیقے اور ترتیب کا گزر نہ تھا۔ کُرتا پاجاما اور شیروانی ملبوس تھا۔ تاہم، اس میں بھی کسی تصنّع اور بناوٹ کا دخل نہ تھا۔ صحت سے پوری طرح غافل رہنے میں مصوّری ہی کی طرح کمال حاصل تھا۔ زندگی کسی نظام الاوقات کے تابع شاید عُمر بَھر نہ رہی۔ تاہم، جہاں صادقین کو اپنے فن کے اظہار کی مہارت مقصود ہوتی، وہاں اُن جیسا جَم کر اور یک سوئی کے ساتھ کام کرنے والا مصوّر شاید ڈھونڈا ہی نہ جا سکتا۔ اپنے فن سے پہلی اور آخری محبّت کرنے والے اس حیرت انگیز مصوّر نے زندگی مجرّد گزاردی۔ 

تصوّر کو تصویر کرنے والے اور احساس کو عکّاس کرنے والے اس نابغۂ روزگار فن کار نے 10 فروری 1987ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ اوّل و آخر کاغذ و قلم کو حرزِ جاں بنانے والے صادقین نے اپنے فن کے بارے میں اپنی ہی ایک رُباعی میں یہ بیان کیا تھا کہ ؎ جاری ہو اگر شدّتِ تخلیق کا دَور…مت پوچھ مِری جان تو اُس وقت کے طور…جو بندۂ اللہ پہ گزری وہ سب…اللہ ہی جانتا ہے، ورنہ کون اور۔

تازہ ترین