• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گریٹ گیم اور بلوچستان کا ریلوے نظام

اگر برطانوی دَورِ حکومت کے منصوبوں کا بہ غور جائزہ لیا جائے، تو ان میں سے کوئی ایک منصوبہ بھی ایسا نہیں کہ جس میں انگریزوں نے اپنے مفادات کو ترجیح نہ دی ہو۔ اسی طرح کا ایک منصوبہ 1853ء میں برِصغیر میں ریلوے نیٹ ورک کا قیام بھی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے برِصغیر پاک و ہند میں ایسے منصوبوں پر کام کیا کہ جن کا مقصد اپنے نو آبادیاتی مفادات کا تحفّظ تھا، مگر آج ان سے مقامی باشندے استفادہ کر رہے ہیں۔ گرچہ بلوچستان میں ریلوے کا نظام قائم ہوئے 120برس سے زاید کا عرصہ گُزر چُکا ہے، مگر اس کی افادیت اور پائے داری میں کوئی فرق نہیں آیا۔ 

جدید ٹیکنالوجی کی معاونت کے بغیر بچھایا گیا یہ ریلوے نیٹ ورک کسی عجوبے سے کم نہیں، کیوں کہ اس سلسلے میں جہاں ہُنر مند افرادی قوّت کی کمی درپیش تھی، وہیں نامساعد حالات اور مالی وسائل کی عدم دست یابی بھی ایک اہم مسئلہ تھا، مگر اس کے باوجود اُس وقت کے انجینئرز اور ماہرین نے یہ کارنامہ انجام دیا، جو دیکھنے والوں کو حیرت اور تجسّس میں مبتلا کر دیتا ہے۔ 

گریٹ گیم اور بلوچستان کا ریلوے نظام

اس ریلوے نظام کی صُورت مقامی باشندوں کو آمدو رفت کا ایک اہم ذریعہ میسّر آیا اور ان کی بلوچستان سے باہر کی دُنیا تک رسائی ممکن ہوئی۔ نیز، یہاں ہندوستان بَھر سے ریلوے ملازمین کی آمد سے ایک نیا کلچر متعارف ہوا، جس کے معاشرے پر خوش گوار اثرات مرتّب ہوئے۔ اس دَور میں لوہے کی صنعت کو خاصی ترقّی ملی کہ برِصغیر پٹریوں، ڈبّوں، انجنز اور دیگر مصنوعات کے لیے ایک بہترین مارکیٹ تھی۔ اس معاشی ترقّی کے نتیجے میں کاروباری افراد خاصے دولت مند ہو گئے اور انگریز سرمایہ دار اسی موقعے کی تلاش میں تھے۔ چناں چہ جب ’’ایسٹ انڈین ریلوے کمپنی‘‘ نے سرمایہ دار طبقے کو ریلوے کی صنعت میں منافع بخش سرمایہ کاری یعنی پانچ فی صد منافعے کی ترغیب دی، تو انگلستان سے ریلوے کی تعمیر کے لیے15کروڑ پائونڈز کا خطیر سرمایہ ہندوستان منتقل کیا گیا۔ اس سرمایہ کاری کے 50ہزار حصّے دار تھے، جن میں 400ہندوستانی بھی شامل تھے۔ ہندوستان کے گورنر جنرل، لارڈ ڈلہوزی (1848-56ء) کا دَور برطانوی ہند کی تاریخ میں اس اعتبار سے اہم ہے کہ اسی زمانے میں ہندوستان میں ریلوے کا نظام قائم کیا گیا۔

19ویں صدی کے دوران ایشیا میں ’’گریٹ گیم‘‘ کی بساط بِچھ چُکی تھی اور اس کھیل میں حصّہ لینے کے لیے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور رُوس سمیت دیگر ممالک تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہندوستان پر قبضے کے بعد برطانوی حکومت کی نگاہیں ہم سایہ ممالک، افغانستان اور ایران پر مرکوز تھیں اور ممکنہ رُوسی پیش قدمی کو روکنے کے لیے بھی افغانستان کے ساتھ دوستانہ روابط یا اس پر قبضہ انگریزوں کی اوّلین ترجیح تھی۔ پھر برطانیہ کے سیاسی و تجارتی حریف، فرانس نے، جو نپولین بونا پارٹ کے دَور میں ایک طاقت وَر مُلک کی صُورت اختیار کر چُکا تھا، برطانیہ کو زِک پہنچانے کی خاطر ہندوستان کی طرف پیش قدمی کے لیے افغانستان کے امیر، زمان شاہ سے روابط استوار کر لیے تھے۔ 

تاہم، برطانوی حکومت کو سب سے بڑا دھچکا اُس وقت لگا کہ جب رُوس کے زار الیگزنڈر اور فرانس کے نپولین بونا پارٹ متّحد ہو گئے۔ ان دونوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت دونوں بڑی طاقتوں نے مل کر ایران کے راستے ہندوستان پر حملے کا فیصلہ کیا اور رُوس نے 1864ء میں سمر قند پر اور پھر 1873ء میں خیوا اور تاشقند پر قبضہ کر لیا۔ چُوں کہ برطانوی حکومت کو ہمہ وقت افغانستان یا ایران کے راستے کوئٹہ اور گوادر پر رُوسی قبضے کا دھڑکا لگا رہتا تھا، لہٰذا ممکنہ رُوسی حملوں کی روک تھام اور افغانستان کو اپنا ماتحت مُلک بنانے کے لیے برطانیہ نے افغانستان پر تین بار فوج کَشی کی، جو افغان جنگ اوّل، دوم اور سوم کے نام سے مشہور ہیں۔ 

افغان جنگ اوّل میں سندھ میں برطانوی فوج کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور اسی لیے پہلے مشہور برطانوی فوجی افسر، جنرل سر چارلس نیپیئر اور بعد میں بریگیڈیئر جنرل جان جیکب کو صوبۂ سندھ کا سربراہ مقرّر کیا گیا۔ یعنی سندھ کو دفاعی قوّت کا ایک اہم مرکز بنایا گیا، تاکہ یہ بلوچستان اور افغانستان میں برطانوی مفادات اور دِفاعی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرے اور پھر سندھ ہی سے بہ وقتِ ضرورت بلوچستان یا سرحد پار عسکری کمک پہنچائی جاتی۔ اِن دِنوں فوج کی نقل و حرکت کے لیے گھوڑوں، خچروں اور اُونٹوں کو بروئے کار لایا جاتا تھا، جس کی وجہ سے معمولی فاصلے کا سفر بھی ہفتوں، مہینوں میں طے ہوتا اور اس کے ازالے کے لیے ریلوے لائن بچھائی گئی۔

گریٹ گیم اور بلوچستان کا ریلوے نظام

جنگی حکمتِ عملی کے تحت ملٹری فرنٹیئر ریلوے کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا اور اس مقصد کے لیے دو اہم راستوں کا انتخاب کر کے ان پر کام شروع کیا گیا، جو درّۂ بولان اور درّۂ خیبر تھے۔ یہ دونوں راستے ’’Two Gates of India‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ منصوبے کے تحت شمال مغربی ریلوے سیکشن میں 1500میل طویل پٹریاں بچھائی گئیں۔ منصوبے میں سندھ سے سبّی تا بوستان کے علاوہ بولان سے کوئٹہ، چمن اور قندھار تک ریلوے نیٹ ورک کی رسائی بھی شامل تھی۔ برطانوی حکومت 1876ء سے کوئٹہ کے راستے افغانستان اور پھر ایران کی سرحد تک اسٹرٹیجک لائن کی تعمیر پر غور کر رہی تھی، تاکہ فوجی نقل و حرکت تیزی کے ساتھ ممکن ہو سکے۔ اس مقصد کے تحت سکھر اور شکار پور کے درمیان واقع، رُک سے ریلوے لائن کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔ 

اس منصوبے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تکمیل کے لیے وائسرائے ہند، لارڈ لٹن نے 1879ء کے موسمِ خزاں میں گورنر بمبئی، سر رچرڈ ٹیمپل کو رابرٹ سنڈیمن کے ساتھ مل کر ریلوے لائن کی تعمیر میں حصّہ لینے کی خصوصی ہدایت کی اور اس منصوبے کے لیے تمام مالی وسائل فراہم کرنا بھی بمبئی حکومت کی ذمّے داری تھی۔ منصوبے کا اصل نام ’’ قندھار اسٹیٹ ریلوے‘‘ تھا، جس کے تحت ریلوئے لائن کوئٹہ سے چمن اور پھر افغانستان کے شہر، قندھار تک پہنچانا مقصود تھی، تاکہ گریٹ گیم کے لیے درکار فوجی ساز و سامان کی ترسیل میں کوئی رُکاوٹ نہ ہو۔ 1898ء میں مشہور رُک اسٹیشن تعمیر کروایا گیا، تاکہ یہاں سے ریل گاڑی کوئٹہ کے راستے سے قندھار، وسطی ایشیا اور ایران سے ہوتے ہوئے یورپ تک کا سفر کرے۔ 

رُک اسٹیشن کی اہمیت کے پیشِ نظر اسے ایک عالی شان اسٹیشن کا رُوپ دیا گیا اور اس وقت بھی اس کے مرکزی دروازے کی ایک جانب KSRیعنی قندھار اسٹیٹ ریلوے اور دوسری جانب IVSR یعنی انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوے کُندہ ہیں۔ ابتدا میں کوئٹہ جانے والے مسافر رُک اسٹیشن کے بارونق بازار ہی سے خرید و فروخت کرتے تھے اور اس اسٹیشن کے قریب قائم، ملٹری ڈیری فارم ہی سے کوئٹہ چھائونی کے لیے دودھ اور مکھن بھیجا جاتا تھا۔ تاہم، مقاصد کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے اب زیادہ تر اس اسٹیشن پر ویرانی ہی چھائی رہتی ہے اور صرف مخصوص مسافر ریل گاڑیاں ہی یہاں معمولی وقفے کے لیے ٹھہرتی ہیں۔

رُک سے سبّی تک کُشادہ ریلوے لائن بچھانے کا آغاز 5اکتوبر 1879ء کو ہوا۔ اس کی نگرانی گورنر بمبئی، رچرڈ ٹیمپل کر رہے تھے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے نصیر آباد میں اپنا کیمپ بھی قائم کیا تھا، جو بعد ازاں ’’ٹیمپل ڈیرہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور اس وقت ڈیرہ مُراد جمالی کہلاتا ہے۔ مذکورہ ریلوے لائن کی تعمیر میں 3500مزدوروں نے حصّہ لیا اور یومیہ 3سے 4کلو میٹر طویل ریلوے لائن بچھائی جاتی۔ کرنل جیمس لِنڈسےپروجیکٹ کے چیف انجینئر تھے اور ان کے نام سے ایک ریلوے اسٹیشن بھی موسوم ہے۔ یہ ریلوے لائن14جنوری 1880ء کو رُک سے شکار پور، جیکب آباد، نصیر آباد اور کچھی کے میدانوں سے ہوتے ہوئے تقریباً 200کلو میٹر طویل مسافت طے کرنے کے بعد سبّی کے قریب واقع، مشکاف (ڈھاڈر) اسٹیشن تک پہنچی اور رُک سے مشکاف تک ریلوے لائن بچھانے کا کام 99روز میں مکمل ہوا۔ 

اس کے بعد کام روک دیا گیا، کیوں کہ سبّی سے آگے پٹری بِچھانے کا منصوبہ بہت اہم تھا اور رابرٹ سنڈیمن اور برطانوی ہند کی حکومت اس بارے میں صلاح مشورہ کرنے میں مصروف ہو گئے کہ ریلوے لائن پہلے درّۂ بولان یا سبّی اور ہرنائی کے راستے بوستان اور قندھار تک پہنچائی جائے۔ رابرٹ سنڈیمن اور رچرڈ ٹیمپل ریلوے لائن کو درّۂ بولان کی بہ جائے سبّی، ناڑی گاج اور بابر کَچھ کے راستے ہرنائی تک لے جانا چاہتے تھے۔ یہ راستہ رابرٹ سنڈیمن نے تلاش کیا تھا، جو سطحِ سمندر سے 3000فُٹ کی بلندی پر تھا۔ درّۂ بولان کے راستے ریلوے لائن بِچھانے کے منصوبے کی مخالفت اس وجہ سے بھی کی گئی کہ اُن دِنوں یہ علاقہ انگریزوں کے کنٹرول میں نہ تھا، بلکہ یہ ریاستِ قلاّت میں شامل تھا اور سبّی سے ہرنائی تک ریلوے لائن بِچھانے میں تاخیر کا سبب برطانوی حکومت کی تبدیلی اور 1880ء میں قندھار کے علاقے، میوند میں انگریز افواج کی شکست تھی۔ اس کے علاوہ اوژدہ پشہ، خوست کے علاقے میں کمانڈینٹ بلوچ گائڈ ( لیویز)، کیپٹن شاور کو قبائلی رہنما، فیض محمد پانیزئی اور دمڑوں نے قتل کر دیا تھا۔ ہرنائی سیکشن کی تعمیر کا کام 30ماہ کی مدّت میں مکمل ہوا اور اس طرح 1887ء میں ریلوے لائن بوستان تک پہنچائی گئی۔

قبل ازیں، 1883ء میں رُوسی فوج دوبارہ متحرّک ہوئی اور اُس نے مرو (ترکمانستان) کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ اس صُورتِ حال میں برطانوی حکومت نے فوری طور پر سبّی، ہرنائی ریلوے لائن پر کام شروع کر دیا اور تعمیراتی کام میں اس وقت مزید تیزی آئی کہ جب 1884ء میں مرو پر رُوس نے قبضہ کر لیا۔ اس موقعے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اخراجات کی پروا کیے بغیر ہر حال میں ریلوے لائن کی تعمیر مکمل کی جائے اور اُونٹوں کے ذریعے پٹریوں اور دیگر تعمیراتی سامان کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا سلسلہ شروع ہوا، جس پر 10لاکھ پائونڈز صَرف ہوئے۔ 

اسی دوران ریلوے لائن کا نام تبدیل کر کے ’’سندھ پشین اسٹیٹ ریلوے‘‘ رکھ دیا گیا اور جولائی 1884ء میں ہرنائی سیکشن پر کام کا آغاز ہوا۔ ہرنائی سیکشن کی تعمیر کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ روزانہ 5ہزار اُونٹ سکھر سے ضروری ساز و سامان لے کر روزانہ ہوتے تھے۔ 1885ء میں علاقے میں ہیضے اور طاعون کی وبا پھیلنے کی وجہ سے بیش تر مقامی باشندے نقل مکانی کر گئے اور انگریزوں کو مزدوروں کی سخت قلّت کا سامنا تھا، لیکن برطانوی حکومت ہر حال میں یہ کام مکمل کرنا چاہتی تھی اور مزدوروں کو مختلف طریقوں سے کام کرنے پر آمادہ کیا گیا۔ اس دوران موسم کی شدّت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرم علاقوں میں درجۂ حرارت 124اور سرد علاقوں میں منفی 18ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا، لیکن اس کے باوجود مزدور کام میں مصروف رہتے۔

اس موقعے پر رچرڈ ٹیمپل انتخابات میں حصّہ لینے کے لیے انگلستان واپس چلے گئے اور اُن کی جگہ میجر جنرل برائون کو، جو ریلوے لائن اور آہنی پُلوں کی تعمیر کے ماہر تھے، 1883ء میں ’’سندھ، پشین ریلوے‘‘ کا چیف انجینئر مقرّر کیا گیا۔ خیال رہے کہ میجر جنرل برائون 1892ء سے 1896ء تک بلوچستان کے اے جی جی بھی رہے۔ چُوں کہ سبّی سے لے کر بابر کَچھ کے علاقے میں پہاڑ اور پانی کی گزر گاہیں واقع تھیں، چناں چہ تین پُل اور تین سُرنگیں تعمیر کر کے ریلوے لائن گزاری گئی۔ ریلوے لائن اونچے مقامات سے گزار کر پہلے اسپین تنگی اور پھر ہرنائی تک پہنچائی گئی۔

ناکس سے شاہرگ تک مزید چار پُل تعمیر کیے گئے اور ریلوے لائن مختلف مقامات سے گزارتے ہوئے کھوسٹ (خوست) کے علاقے میں پہنچائی گئی۔ خوست سے درگئی تک مزید چار پُل تعمیر کیے گئے اور یہاں سے لائن ایک انتہائی دشوار گزار اور خُوب صُورت علاقے میں داخل ہوئی، جو چھپر رِفٹ کے نام سے مشہور ہے۔ سنگلاخ پہاڑی علاقے سے ریلوے لائن گزارنا کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ پھر اسے پہاڑی علاقوں سے گزار کر ایک ایسے مقام پر پہنچایا گیا، جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک شگاف تھا اور نیچے پانی کی گزر گاہ تھی۔ 

ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی تک لائن ملانے کے لیے 220فُٹ بلند پُل تعمیر کرنے کی ضرورت تھی۔ نیز، لائن کو ایک سرنگ سے گزار کر دوسری سرنگ میں داخل کرنا بھی مقصود تھا اور اس کام کے لیے خصوصی تیکنیکی مہارت رکھنے والے افراد کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ان افراد کو رسّیاں باندھ کر کئی سو فُٹ بلند پہاڑ سے نیچے اُتارا گیا، جہاں انہوں نے ایک مصنوعی پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر پہاڑ کے دونوں اطراف6،6سوراخ کیے اور پھر پہاڑ کے جس حصّے سے سُرنگ نکالنی تھی، اُسے ڈائنا مائٹ کی مددسے اُڑا دیا گیا۔ چھپر رِفٹ سطحِ سمندر سے 5300فُٹ بلند ہے اور یہاں سے ریلوے لائن 6800فُٹ بلندی پر پہنچائی گئی۔ 

اس مقام کے شمال میں مشہور خلیفت پہاڑ واقع ہے، جو سطحِ سمندر سے 7000فُٹ بلند ہے۔ زرغون پہار کے علاقے سے ہوتے ہوئے ریلوے لائن مانگی درّہ ( مجوّزہ مانگی ڈیم ) کے علاقے میں داخل ہوئی، جہاں سے فیل غر (پہاڑی) کا نظارہ کیا جا سکتا تھا۔ پھر ندی نالوں کو تین پُلوں کے ذریعے عبور کر کے ریلوے لائن کَچھ اسٹیشن پہنچائی گئی۔ چھپر رِفٹ پُل کی تکمیل کے بعد دُور دُور سے لوگ اسے دیکھنے آتے، کیوں کہ اُس دَور میں یہ برِصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا پُل تھا اور اسے انجینئرنگ کا شاہ کار سمجھا جاتا تھا۔ مذکورہ ریلوے لائن کی تعمیر میں کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ ریلوے لائن کی تعمیر میں ایک وقت میں 10سے15ہزار مزدور حصّہ لیتے اور اس دوران حادثات کے علاوہ ہیضے سمیت دیگر بیماریوں کی وجہ سے تقریباً 2,000اموات واقع ہوئیں، جس کی وجہ سے بعض اوقات کام روک دیا جاتا اور پھر مختلف ترغیبات دے کر مزدورں کو دوبارہ کام پر آمادہ کیا جاتا۔

اُس دَور میں چھپر رِفٹ پُل کو ’’دُنیا کا عجوبہ‘‘ کہا جاتا تھا، جب کہ میجر جنرل برائون نے اسے ایک پُر اسرار اور ناقابلِ فہم پُل قرار دیا تھا۔ جنوری 1887ء میں شاہی جوڑے، The Royal Highness Duke and Duchess of Connaught نے اپنی کوئٹہ آمد کے موقعے پر چھپر رِفٹ پُل کا افتتاح کیا۔ افتتاح کے بعد اس پُل کو ڈیوک کی بیگم، Margaret Louiseکے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ پرنس آف ویلز ( بعد ازاں ڈیوک آف وِنڈسر ) نے 1922ء میں اس پُل کا دورہ کیا۔ اُن کے لیے ایک خصوصی ٹرالی بنائی گئی تھی، جس پر چاندی کا ورق چڑھایا گیا تھا اور پرنس آف ویلز نے اس ٹرالی میں بیٹھ کر پُل کا معائنہ کیا تھا۔ یہ خصوصی ٹرالی کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کی انتظامیہ کے پاس محفوظ بھی رہی، لیکن اب اس کا کوئی اتاپتا نہیں۔ 

11جولائی 1942ء کو شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے چھپر رِفٹ پُل ٹوٹ گیا اور پھر دوبارہ اسے تعمیر نہیں کیا گیا۔بوستان سے کوئٹہ تک ریلوے لائن تعمیر ہونے کے بعد پہلا ریلوے انجن ہرنائی کے راستے27 مارچ 1887ء کو کوئٹہ پہنچا۔ ابتدا میں کوئلہ پھاٹک، سمنگلی روڈ کے قریب عارضی ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا تھا اور بعد ازاں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی گئی۔ 1935ء کے زلزلے میں کوئٹہ ریلوے اسٹیشن بھی تباہ ہو گیا، لیکن ریل گاڑیوں کی آمد و رفت جاری رہی۔ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کی نئی عمارت کی تعمیر 28اکتوبر 1939ء کو مکمل ہوئی۔

جیسا کہ اُوپر بتایا جا چُکا ہے کہ رچرڈ ٹیمپل اور رابرٹ سنڈیمن نے بولان سے متبادل ریلوے لائن گزارنے کی تجویز دی تھی اور اُس دَور میں درّۂ بولان ریاستِ قلاّت کا حصّہ تھا، چناں چہ فیصلہ کیا گیا کہ خان آف قلاّت سے گفت و شنید کر کے یہ علاقہ کرائے پر حاصل کیا جائے اور یوں 16جون 1880ء کو خان آف قلاّت اور برطانوی حکومت کے مابین ’’سندھ، قندھار اسٹیٹ ریلوے‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ طے پایا، جس کے تحت والیٔ قلاّت، میر خداداد خان نے قندھار اسٹیٹ ریلوے کی تعمیر کے لیے لائن کی دونوں جانب 200گز اراضی اور وہ خطّہ جات، جس پر ریلوے اسٹیشن وغیرہ تعمیر کیے جانے تھے، حکومتِ ہند کو تحفے میں عطا کیے۔ 

خان آف قلاّت سے معاہدہ طے پانے کے بعد اپریل 1885ء میں درّۂ بولان کے راستے بھی ریلوے لائن بِچھانے کا کام شروع ہوا۔ ابتدا میں مشکاف سے ہرک اسٹیشن تک پٹری کی چوڑائی 5فُٹ 6انچ تھی، جب کہ ہرک اور دشت کے مابین 2فٹ 6اِنچ چوڑی پٹڑیاں بِچھائی گئیں۔ 1889-90ء میں اس لائن کو بھی چوڑی پٹڑی سے تبدیل کر دیا گیا اور تنگ پٹری والی سُرنگیں آج بھی بولان میں بعض مقامات پر موجود ہیں۔

ریلوے لائن کی تعمیر کے دوران سُرنگ (Tunnel)، جسے مقامی باشندے ’’ٹنڈیل‘‘ کہتے ہیں، بنانا کافی دُشوار اور کٹھن کام تھا۔ سب سے طویل سُرنگ، پنیر میں بنائی گئی، جس کی لمبائی 3ہزار فُٹ ہے، جب کہ کیپٹن جیمز ریمزے بولان ریلوے سیکشن کے چیف انجینئر تھے، جو 1900ء میں کوئٹہ اور پشین کے پولیٹیکل ایجنٹ اور 1904ء میں قائم مقام اے جی جی، بلوچستان بھی تعیّنات رہے۔ سینئر صحافی، رضا علی عابدی نے اپنے سفر نامے، ’’ریل کہانی‘‘ میں بلوچستان کے سرحدی شہر، چمن سے لے کر جیکب آباد تک ٹرین کے سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات کے علاوہ اس ریلوے لائن اور سُرنگوں کی تعمیر میں حائل رُکاوٹوں اور مشکلات کا نہایت سادہ اور دِل چسپ پیرائے میں ذکر کیا ہے۔ اپنے سفر نامے میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس وقت مرزا محمد ہادی رُسوا یاد آئے۔ 

ہم یہ تو جانتے ہیں کہ انہوں نے امرائو جان ادا جیسی یاد گار کتاب لکھی۔ مگر اب کسے یاد ہو گا کہ جب ریلوے لائن بِچھائی جا رہی تھی، تب مرزا صاحب کی ملازمت کوئٹہ میں تھی۔ وہ اروڑ کے انجینئرنگ کالج سے سند لے کر آئے تھے اور اس ریلوے لائن کے سروے میں شریک تھے۔‘‘

خُوب صُورت درّۂ بولان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور دُنیا کے کئی مشہور فاتحین کا گزر اس درّے سے ہوا۔ درّۂ بولان میں تعمیر کی گئی ریلوے لائن جہاں انسانی فنِ تعمیر اور جدوجہد کی گواہ ہے، وہیں یہ اُس زمانے کے لوگوں کی اپنے مقصد اور نصب العین سے گہری وابستگی کا اظہار بھی ہے۔ یہاں بنائی گئی سُرنگوں میں سے ایک سُرنگ اُس انگریز خاتون کے نام سے موسوم ہے، جو اپنے انجینئر شوہر کے ساتھ یہاں موجود تھی اور ایک روز ایک بھاری پتّھر سے چوٹ لگنے کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھی۔ اس خاتون کی قبر اُسی سُرنگ کے اوپر بنائی گئی اور اس خاتون کا نام، جین میری تھا۔ 

جین میری سے منسوب سے یہ سُرنگ کوئٹہ سے سبّی جاتے ہوئے کول پُور کے قریب موجود ہے۔ اس ریلوے لائن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس سے گزرنے والی ٹرین کی رفتار مَچھ کے بعد دھیمی رکھی جاتی ہے، تاکہ ڈھلوان پر گاڑی بے قابو نہ ہو جائے اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو جائے، تو ٹرین کو تباہی سے بچانے کے لیے مختلف مقامات سے شاخیں نکالی گئی ہیں، جو اونچائی کی جانب جاتی ہیں اور اس قسم کی ریلوے لائن کو ’’جہنم لائن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ریلوے لائن پر سبّی سے کوئٹہ کا سفر بھی خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیوں کہ ریل گاڑی کو بلندی کی جانب لے جانے کے لیے ہرک سے کول پُور تک اس میں دوسرا انجن لگایا جاتا ہے۔ 1887ء اور 1890ء میں شدید سیلابوں کی وجہ سے بولان میں اکثر مقامات پر ریلوے لائن بہہ گئی تھی۔ 

پھر بولان سیکشن پر لائن کی تعمیر و مرمّت کا کام اگست 1895ء میں مکمل ہوا اور 1897ء سے اس لائن پر ریل گاڑیوں کی باقاعدہ آمد و رفت شروع ہوئی۔ ناڑی بنک (مشکاف) ریلوے لائن کو کوئٹہ سے منسلک کیا گیا اور بولان ریلوے کی تعمیر پر حکومتِ ہند کے ایک کروڑ 97لاکھ 15 ہزار روپے ( تقریباً 1.5ملین پائونڈز) خرچ ہوئے۔ یعنی فی میل 3,38,088روپے لاگت آئی۔

’’ قندھار اسٹیٹ ریلوے‘‘ کا سب سے اہم مرحلہ کوئٹہ سے بوستان، چمن اور افغانستان کے شہر، قندھار تک ریلوے لائن کی تعمیر تھی۔ برطانوی حکومت نے رُک اسٹیشن سے ریلوے لائن بِچھانے کا جو منصوبہ شروع کیا تھا، اس کا اصل مقصد ہی قندھار تک ریلوے لائن کی تکمیل اور قندھار میں برطانوی ریلوے اسٹیشن کا قیام تھا۔ 1887ء تک چمن تک ریلوے لائن بِچھانے کا فیصلہ نہیں ہو پایا تھا، کیوں کہ اُس دَور میں خواجہ عمران کے پہاڑی سلسلے سے لائن گزارنا ناممکنات میں سے تھا۔ 

گریٹ گیم اور بلوچستان کا ریلوے نظام

کوئٹہ سے چمن تک ریلوے لائن کی تنصیب میں 2.5میل طویل کوژک سُرنگ کی کُھدائی سب سے کٹھن مرحلہ تھا۔ اس مقصد کے لیے کان کنی کے اُن 66ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں، جنہوں نے انگلستان اور ویلز کے درمیان زیرِ آب سُرنگ تیار کی تھی۔ ان ماہرین کے مشورے سے 14اپریل 1988ء کو شیلہ یا شیلہ باغ اور شانزیلہ سے سُرنگ نکالنے کا آغاز ہوا اور یکم جنوری 1892ء کو چمن تک لائن بِچھائی گئی اور ریل گاڑیوں کی باقاعدہ آمدورفت شروع ہوئی۔ کوژک سُرنگ برِصغیر کی طویل ترین سُرنگ کے طور پر مشہور ہے اور یہ سطحِ سمندر سے 6,398فُٹ بلندی پر واقع ہے۔ 

اس تاریخی سُرنگ کی تعمیر کا قصّہ کچھ یوں ہے کہ جب 14اپریل 1888ء کو شانزیلہ اور شیلہ باغ کے دونوں اطراف سے پہاڑوں کی کُھدائی کا آغاز ہوا، تو انجینئر نے کہا کہ 3سال 4ماہ21روز بعد یعنی5ستمبر 1891ء کو دونوں اطراف میں کام کرنے والے مزدور پہاڑ کھودتے کھودتے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ یعنی سُرنگ کی تعمیر مکمل ہو چُکی ہو گی۔ 5ستمبر 1891ء کو پٹری پر آخری بولٹ لگائے جانے تھے، مگر سُرنگ مقرّرہ وقت پر مکمل نہ ہو سکی، تو پروجیکٹ انجینئر حواس باختہ ہو گیا۔ 

اُسے دُنیا کی سب سے بڑی سُرنگ کی مقرّرہ وقت پر عدم تکمیل کی وجہ سے اپنا خواب بکھرتا دِکھائی دیا۔ وہ سُرنگ سے باہر نکلا اور خاموشی سے چلتا ہوا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا اور وہاں سے چھلانگ لگا دی اور جس وقت انجینئر نے پہاڑ کی چوٹی سے چھلانگ لگائی، عین اُسی وقت دونوں اطراف کے مزدور آمنے سامنے تھے۔

کوئٹہ اسٹیشن کی تاریخ میں 8نومبر 1894ء کا دِن خاصا اہم ہے کہ اُس روز وائسرائے ہند، لارڈ ایلجن کی واپسی کوئٹہ ریلوے اسٹیشن سے ہوئی تھی۔ اُس روز دو خصوصی ریل گاڑیاں پلیٹ فارم پر موجود تھیں۔ پہلی خصوصی ٹرین میں وائسرائے ہند، اے جی جی بلوچستان، میجر جنرل جیمس برائون اور دوسرے اعلیٰ حُکّام نے سفر کرنا تھا۔ اس ٹرین کا رُخ جنوب کی جانب واقع، بولان سے سبّی کی جانب تھا، جب کہ دوسری خصوصی ٹرین کا رُخ شمال کی سمت تھا اور اس میں وائسرائے ہند کی اہلیہ نے سفر کرنا تھا۔ 

پہلی ٹرین نے کوئٹہ، بلیلی، بوستان، کَچھ، چھپر رِفٹ پُل اور ہرنائی سے ہوتے ہوئے سبّی جانا تھا۔ دونوں ریل گاڑیاں کوئٹہ اسٹیشن سے ایک ساتھ روانہ ہوئیں، لیکن وائسرائے کی ریل گاڑی 7:15پر اور وائسرائے کی بیگم کی ٹرین8:09پر سبّی پہنچی۔

ستمبر 1916ء میں سیکریٹری اسٹیٹ آف انڈیا نے خنائی تا ہندو باغ (مسلم باغ ) ایک ایسی ریلوے لائن تعمیر کرنے کی ہدایت دی کہ جو ایک سو ٹن کرومائٹ کا بوجھ برداشت کر سکے۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر میں بلوچستان مائننگ سنڈیکیٹ نے سرمایہ لگایا اور یوں ریلوے لائن کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس منصوبے میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ سنڈیکیٹ مٹی کی دُھلائی اور پُلوں اور عمارات وغیرہ کی تعمیر پر جو رقم خرچ کرے گی، وہ ناقابلِ واپسی ہو گی، جب کہ حکومتِ ہند گارڈرز، ریل کے ڈبّوں اور لائن کی تنصیب پر جو رقم خرچ کرے گی، وہ ریلوے سروس بند ہونے کی صُورت میں واپس لے لے گی اور ریلوے لائن کی دیکھ بھال کے لیے حکومت اور کمپنی دونوں مل کر اخراجات برداشت کرنے کے پابند تھے۔ 

یہ96کلومیٹر طویل ریلوے لائن خنائی سے ہندو باغ کرومائٹ کی کان نمبر 135اور 136تک بِچھائی گئی۔ اس ریلوے لائن کی پٹری 2فٹ 6انچ چوڑی تھی اور اس کی تعمیر پر 55ہزار روپے فی میل کے حساب سے لاگت آئی۔ خنائی سے ہندو باغ کے لیے ریل سروس 26فروری 1917ء کو شروع ہوئی، جب کہ باقی کام 12اپریل 1917ء کو مکمل ہوا۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر کے لیے حکومتِ ہند نے مدراس، بمبئی، ناگ پور اور بنگال سے سامان منگوایا اور اُس دَور میں یہاں اسٹیم انجن چلتے تھے۔ ہندوستان کے گورنر جنرل، لارڈ چیمس فورڈ اور اے جی جی بلوچستان، جان رمزے نے 9مارچ 1917ء کو ریل گاڑی کے ذریعے ہندو باغ تک کا سفر کیا۔ 

تاہم، مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ ریلوے سروس بھی مئی 1985ء میں بند کرنا پڑی، جب کہ یہ آج بھی مسلم باغ کے کرومائیٹ، چمالانگ کے کوئلے اور دیگر معدنیات کی نقل و حمل کے لیے نزدیک ترین اور اہم راستہ ہے اور اس ریلوے لائن کی بحالی سے حکومت کو کروڑوں روپے کی آمدنی ہو سکتی ہے اور مقامی باشندوں کو روزگار کے مواقع بھی میسّر آئیں گے۔

270 کلو میٹر طویل بوستان، خنائی تا فورٹ سنڈیمن (ژوب) ریلوے لائن 5فروری 1917ء کو مکمل ہوئی۔ یہ لائن صرف 2.5فُٹ چوڑی تھی اور کم چوڑائی والی سب سے طویل ریلوے لائن تھی۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کے راستے میں کان مہتر زئی کا اسٹیشن بھی آتا ہے، جو سطحِ سمندر سے سیکڑوں فُٹ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے شمالی مغربی ریلوے کا بلند ترین اسٹیشن ہے۔ یہ بلوچستان کے انتہائی سَرد علاقے میں واقع ہے اور شدید برف باری کے دوران یہاں ریل گاڑیاں برف میں دھنس جاتی تھیں۔پھر19ویں صدی کے آخری برسوں میں ایران کے راستے رُوسی پیش قدمی کو روکنے کے لیے برطانوی حکومت نے کچھ اقدامات کیے:٭ معاہدۂ حد بندی سرحدات مابین ایرانی بلوچستان اور قلاّت، مورخہ 24 مارچ 1896ء۔٭ضلع چاغی کا قیام اور انگریز پولیٹیکل ایجنٹ، F.C Webb Ware کی تعیّناتی از 15نومبر 1896ء ۔٭جولائی 1899ء میں خان آف قلاّت، میر محمود خان اور اے جی جی بلوچستان کے مابین معاہدۂ نوشکی طے پایا، جس کے تحت ضلع و نیابت نوشکی کا انتظام و انصرام کُلی طور پر برطانوی حکومت کو حاصل ہوا اور اس کے بدلے برطانوی حکومت مبلغ 9ہزار روپے سالانہ خان آف قلاّت کو ادا کرتی تھی۔٭ وائسرائے ہند، لارڈ کرزن نے نہ صرف سیستان اور کوئٹہ کے مابین تجارتی راہ داری کے ذریعے ایران کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر زور دیا، بلکہ اپنے ایک افسر، Capt. Chevenix Trench کو ایران میں برٹش ریذیڈنٹ بھی مقرّر کیا۔ اس کے علاوہ کوئٹہ میں ایرانی تاجروں کو سیستان سرائے قائم کرنے کی سہولت بھی فراہم کی گئی، تاکہ انگریزوں کے ایرانی عوام سے رابطے قائم ہوں۔

متذکرہ بالا اقدامات کا اصل مقصد افغانستان کی طرح ایران کی سرحد تک بھی اسٹرٹیجک ریلوے لائن کی تعمیر تھا، تاکہ بہ وقتِ ضرورت فوج اور سازو سامان سے بَھری بوگیاں ایرانی سرحد تک پہنچائی جا سکیں۔ سو، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ تجارتی ریلوے لائن کی بہ جائے ایک مکمل Railway Military Frontierسروس تھی۔ نوشکی ریلوے لائن کوئٹہ سے 16میل کی دُوری پر واقع، اسپیزنڈ ریلوے اسٹیشن سے کام کا آغاز 1902ء میں کیا گیا تھا۔ 91میل طویل یہ ریلوے لائن نوشکی تک بِچھائی گئی اور 15نومبر 1905ء سے باقاعدہ ریلوے سروس شروع ہوئی۔ اس ریلوے لائن کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے فی میل کے حساب سے لاگت آئی تھی۔

جنگِ عظیم اوّل کے دوران جب جرمنی اور تُرکی کے مابین اتحاد قائم ہوا اور دونوں نے ایران اور افغانستان کے راستے بلوچستان (برٹش انڈیا) میں داخل ہونے کا منصوبہ بنایا، تو اس موقعے پر برطانوی حکومت نے نوشکی ریلوے کو فوری طور پر توسیع دینے کا فیصلہ کیا اور یوں نوشکی، دالبندین سیکشن پر ستمبر 1916ء میں کام کا آغاز ہوا، جس کی تکمیل یکم فروری 1917ء کو ہوئی، جب کہ اس کے علاوہ اکتوبر 1920ء میں دالبندین تا میر جاوا ( ایرانی سرحد ) اور یکم اکتوبر 1922ء کو میر جاوا تا زاہدان ریلوے سیکشن کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ان منصوبوں پر حکومتِ ہند اور تاجِ برطانیہ کو کم و بیش 4کروڑ روپے کے مصارف برداشت کرنا پڑے۔ جنگِ عظیم اوّل کے خاتمے پر مارچ 1921ء میں برطانوی فوج کی مشرقی ایران سے واپسی ہوئی، تو نوکنڈی اور زاہدان کے مابین ریل سروس کی اہمیت بھی تقریباً ختم ہو گئی، چناں چہ نوکنڈی اور زاہدان کے درمیان سے ریل کی پٹری اُکھاڑ لی گئی۔ جنگِ عظیم دوم میں نوکنڈی، زاہدان ریلوے سیکشن کی دوبارہ ضرورت پیش آئی، کیوں کہ اس جنگ میں برطانیہ اور رُوس اتحادی تھے اور جرمنی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے۔ اس دوران ایران کے راستے برطانوی امداد رُوسی افواج تک پہنچانے کے لیے یہ لائن دوبارہ ڈالنی پڑی اور یوں 20اپریل 1942ء تک ریلوے لائن پر دوبارہ گاڑی چلنے لگی۔ 

گریٹ گیم کے تحت برطانوی حکومت قندھار تک ریلوے لائن بِچھانا چاہتی تھی، تاکہ ہندوستان اور افغانستان کے مابین باقاعدہ ریلوے سروس شروع ہو۔ اس منصوبے کے تحت چمن تک تو ریلوے لائن بِچھائی گئی اور ریلوے سروس بھی جاری ہے، لیکن اہم سیکشن یعنی قندھار تک ریلوے لائن کی تعمیر کا منصوبہ 132سال گزرنے کے بعد بھی زیرِ غور ہی ہے۔ گریٹ گیم کے کرداروں کی تو اس خطّے میں دِل چسپی ختم ہوتی نظر نہیں آتی، البتہ اب اس خطّے میں کچھ نئے پلیئرز کی دِل چسپی بڑھ گئی ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کی صُورت میں پہلے چمن سے قندھار اور پھر افغانستان کے چار صوبوں، ہرات، ہلمند ، نمروز اور فرح سے ریلوے لائن گزار کر وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور سی پیک منصوبے کے تناظر میں اس ریلوے نیٹ ورک میں توسیع کے نتیجے میں خطّے میں خوش حالی اور ترقّی کی نئی راہیں کُھل سکتی ہیں۔

تازہ ترین