• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


آزادی صحافت کو درپیش خطرات کی وجوہات:ایک جائزہ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں جمعرات کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں میڈیا نے یہ آزادی بہت جدوجہد کے بعد حاصل کی ہے اور اس آزادی کی قدروقیمت کا اندازا آج کا نوآموز صحافی نہیں لگا سکتا کیونکہ آزادی ایک ذمہ داری کا نام ہے جس کا احساس ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ آج کی پاکستانی صحافت اپنی آزادی کا شتر بے مہار استعمال چاہ رہی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر 157 حملے کیے گئے، 5 صحافیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 35 فیصد حملے ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں رپورٹ ہوئے۔پنجاب میں 17،سندھ میں 14،خیبر پختونخوا میں 10،بلوچستان میں 14 جبکہ فاٹا میں یہ تناسب 8 فیصد ہے۔یہ اعداد و شمار خاصے تشویشناک ہیں۔

جو افراد صحافت کی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ یہ بخوبی جانتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں صحافت چند اخبار نما رسالوں‘ ماہناموں کا نام تھا‘ جوں جوں اس نے ترقی کی یہ ”روزنامہ“ کی شکل اختیار کرتی چلی گئی لیکن الیکٹرانک میڈیا پر حکومتی کنٹرول برقرار رہا۔ آہستہ آہستہ دنیا گلوبل ولیج اختیار کرتی چلی گئی‘ معاشرے میںایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے‘ ایک دوسرے کے خیالات کا احترام پیدا ہوا، بے شمار ریڈیو اسٹیشنز‘ ٹی وی چینلز آئے‘ پھر انٹرنیٹ نے تو گویا صحافت کا رُخ ہی موڑ کر رکھ دیا۔

انٹرنیٹ بڑے مانیٹرز اور سی پی یوز سے سکڑتا ہوا چھوٹی سی ڈیوائس میں چلا آیا اور اب ہر شخص کے ہاتھ میں ایک فون میں پورا کمپیوٹر موجود ہے۔ صحافت سے مراد اب صرف اخبارات و رسائل نہیں بلکہ ٹی وی چینلز بروشرز‘ ہینڈ بلز‘ پلے کارڈز‘ ریڈیو‘ انٹرنیٹ‘ فون‘ ایس ایم ایس‘ ایم ایم ایس سے مراد لی جا سکتی ہے۔

اب تو اس کی صورت پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گئی ہے۔ معاشرے کو اگر یہ صحیح ڈگر پر چلانا چاہے تو اس سے بہتر اُستاد اور کوئی نہیں اور بگاڑنا چاہے تو یہ شیطان کو بھی مات دے سکتی ہے۔

صحافت معاشرے کا آئینہ ہوتی ہے‘ اس کا کردار معاشرے کو اس کا صحیح عکس دکھانا ہوتا ہے لیکن افسوس صحافت کا کردار عموماً اس کے برعکس رہا ہے۔ صحافت نے ہمیشہ امپیریلزم کی حمایت ہی کی ہے، اُسے جو کہا جاتا ہے اور جتنا کہا جاتا ہے وہ وہی کرتی ہے اور کر سکتی ہے۔

اس کے باوجود صحافی اپنی سی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ جتنی اُس کی رسائی ہے اور جتنا وہ کر سکتے ہیں‘ معاشرے کی خدمت کر سکیں لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صحافت صرف اسی صورت میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے جب اس کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ ان تمام باتوں کے قطع نظر صحافت اور معاشرہ کا چولی دامن کا ساتھ ہے صحافت اگر صحیح نہج پر ہو تو یہ ایک مصلح‘ ایک ناصح اور ایک اُستاد کا کردار ادا کر سکتی ہے اور اگر اس کی اپنی سمت درست نہ ہو تو یہ پورے معاشرے کو ایک ایسی دلدل میں پھینک سکتی ہے جس سے فرار ممکن نہیں۔

اب اتنی طاقتور شئے کو کنٹرول کیا جانا بھی ضروری ہے، آخر اس کو کون کنٹرول کرے؟ حکومت یا عوام ؟آج کی صحافت حکومتوں کو للکار رہی ہےاور بڑے بڑے آمراس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں، اس سے ہم صحافت کی طاقت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، یہ وہ طاقت ہے جس کا صحیح استعمال وقت کے بڑے سے بڑے جابر کو اُڑا کر رکھ سکتاہے،ہمارے بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز کی غیر ذمہ دارانہ روش پوری صحافت کے ذمہ دارانہ کردار کو متاثر کر رہی ہے۔ اس ضمن میں صحیح لائحہ عمل یہ ہونا چاہئے۔

”آزادی ذمہ داری کا نام ہےکی حکمت عملی کو اپنایا جائے اور خود احتسابی کی روایت قائم کی جائے، صحافت کے لئے یہی لائحہ عمل باعث اعزاز ہو سکتا ہے۔ یہ قومی یکجہتی‘ ملکی سالمیت اور استحکام کے خلاف کوئی بھی بات شائع نہ کریں‘ نہ نشر کریں خواہ وہ کسی نے بھی کہی ہو اور ملک کے اساسی نظریہ کے خلاف اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی بات شائع کرنے یا نشر کرنے سے گریز کریں۔ مایوسی پیدا نہ ہو خواہ بات کرنے والا کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو۔ حب الوطنی اور یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے ملک کے مختلف حصوں سے ان لوگوں کو نمایاں جگہ ملنی چاہئے جن کی حب الوطنی مشکوک نہ ہو۔ قومی اداروں کے بارے میں خبریں شائع کرتے وقت احتیاط سے کام لیا جائے جو بات عوام کے مفاد میں ہو اُس کو ضرور جگہ ملنی چاہئے۔ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو جس کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں جس کو صحافتی آداب اور اخلاقیات کا پتہ نہیں اس کو اس پروفیشن سے دور رکھنا چائیے لیکن ہمارے یہاں جس شخص کو ابلاغ عامہ کی تاریخ سے دور دور تک آگاہی نہیں ہوتی اسے اس حساس پروفیشل میں آسانی سے جگہ مل جاتی ہے۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)

تازہ ترین