• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دی نیوز کے رپورٹر فخر درانی کی ایک خبر حال ہی میں شائع ہوئی جس میں وہ کچھ بیان کیا گیا جسے پڑھ کر انسانیت شرما جاتی ہے اور جاہلیت کا وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جس کواسلام نے سختی سے رد کیا ۔ سنگدلی اور بربریت کی اس کہانی کا تعلق اسلام کے نام پر بننے والے ہمارے اپنے پاکستان سے ہے ۔ خبر کے مطابق اس سال فروری میں ایدھی سینٹر کراچی کو ایک نامعلوم ٹیلی فون کال موصول ہوئی، کالر نے بتایا کہ کوڑے کے ڈھیر میں ایک لاش ہے آ کر اٹھالیں۔ سینٹر کے اہل کار وہاں پہنچے۔ سفاکی دیکھ کر سکتے میں آگئے۔ان کے سامنے ایک نومولود کی لاش تھی، یہ چار دن کی بچی تھی، تیز دھار آلے سے اس کا گلا کاٹ دیا گیا تھا۔ جاہلیت کے زمانہ میں بچیوں کو ناپسندیدہ مخلوق قرار دے کر دفن کر دیا جا تا تھا، ہم اس سے بھی دو ہاتھ آ گے نکل گئے…بچیوںکو قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔خبر کے مطابق یہ نامعلوم بچی سفاکی کی پہلی نشانہ نہیں بلکہ جنوری 2017تا اپریل 2018تک ایدھی فائونڈیشن اور چھیپاویلفیئر آ رگنائزیشن نے کراچی میں نومولود بچوں کی 345 لاشیں وصول کیں ان میں 99فیصد بچیوں کی تھیں۔ ایدھی فائونڈیشن کراچی کے سینئر منیجر انور کاظمی نے کہا کہ ہم اس طرح کے واقعات کوسال ہا سال سے ڈیل کر رہے ہیں، چند ہی ایسے واقعات ہیں جنہوں نے ہمیں ہلا کر رکھ دیاہو، کیا ہمارا معاشرہ پھر جاہلیت کے دور کی طرف لوٹ رہا ہے۔ایدھی فائونڈیشن نے سال 2017کے دوران ملک بھر میں کوڑے کے ڈھیروں سے معصوم بچوں کی355لاشیںاٹھائیں،ان میں 99فیصد بچیاں تھیں،اس بدنامی میں کراچی سرفہرست ہے، جہاں 180ایسی لاشیں ملی ہیں۔سال رواں کے ابتدائی چار ماہ میں کراچی میں صرف ایدھی فائونڈیشن نے72مردہ بچیوں کو دفن کیا، یہ اعداد و شمار بہت تھوڑے ہیں اس لیے کہ ایدھی فائونڈیشن صرف ان شہروں کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھتی ہے جہاں اس کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ چھیپا ویلفیئر ایک دوسری این جی او ہے،جس نے کراچی میں 93نومولودوں کی لاشیں دفن کیں،2017میں سترا ور اس سال23۔ چھیپا ویلفیئر آرگنائیزیشن کے ترجمان شاہد محمود کا کہنا ہے اگرچہ لوگ ان کو چھوڑ جاتے ہیں لیکن ایک ویلفیئر آر گنائزیشن کے طور پرہم ان معصوم بچوں کی آخری رسومات ادا کرتے ہیں، ان کی مناسب تدفین کا انتظام کرتے ہیں،پولیس اور ہسپتال کے ضابطے پورے کرنے کے بعد ہم ان کو اپنے قبرستان میں دفن کر تے ہیں۔ ایک بچے کی تدفین پر اخراجات دو ہزار ہوتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ایدھی فائونڈیشن نے جھولے لگا رکھے ہیں تا کہ لوگ بے طلب بچوں کو قتل کرنے کی بجائے ان میں چھوڑ جائیں ۔ خبر کے مطابق اگرچہ ایدھی فائونڈیشن کا دعویٰ ہے کہ اسے حوصلہ افزا رسپانس مل رہا ہے لیکن اعداد و شمار اس کی تائید نہیں کرتے۔ مسٹر کاظمی کے مطابق 2017 میں انہیں صرف چودہ زندہ بچے ملے ہیں، ان میں بارہ بچیاں تھیں، دو بچے تھے وہ بھی معذور۔اے آئی جی آفس کراچی کے ایک پولیس افسر کے مطابق کلفٹن کے قریب واقع نیلم کالونی ایک کچی آبادی ہے، جہاں کی آبادی کی بڑی اکثریت خط افلاس سے نیچے زندگی گزاررہی ہے۔ بچوں کے قتل کے واقعات ان آبادیوں میں رونما ہوتے ہیں جہاں غربت عروج پر ہے، نیلم کالونی بھی ایک ایسی ہی آبادی ہے۔ اگرچہ پولیس اس کا سبب جہالت اور غربت کو قرار دیتی ہے تا ہم ایدھی فائونڈیشن کے عہدیدار وں کا موقف اس سے مختلف ہے۔ مسٹر کاظمی کے مطابق اکثر واقعات میں نومولود بچوں کے قتل کا محرک ناجائز اولاد ہے۔عمومی طور پر ناجائز اولاد اگر بچی ہو تو اس کو قتل کر دیا جا تا ہے اس لیے کہ اسے ایک بدنامی تصور کیا جا تا ہے۔ اگر بچہ ہو تو خاندان اس کوبچانے کی کوشش کرتا ہے۔ خبر میں کاظمی کے حوالہ سے یہ بھی لکھا گیا کہ ہم نے کئی ایک ہول ناک واقعات دیکھے ہیں لیکن ایک واقعہ عشرے گزرنے کے باوجو دبھی میں نہیں بھلا سکا جب ایک مسجد کے سامنے سے ایک نومولود کی لاش ملی جس کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کاظمی نے مزید بتایا کہ کراچی کی ایک مسجد کے دروازے پر ایک نومولود بچہ ملا، اس کو امام مسجد کے حوالے کر دیا گیاا مام نے کہا کہ یہ ناجائز بچہ ہے، اس لیے اس کو سنگسار کر دیا جائے،نتیجہ یہ نکلا کہ بچے کو سنگسار کر دیا گیا۔ پاکستان میں نومولود بچوں کا قتل اور ان کو لا وارث چھوڑ دینا دونوں قابل تعزیر جرائم میں شامل ہے۔پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 328 اور329کے تحت مختلف مدت کی سزا، قید اور جرمانہ ہے۔اے آئی جی آفس کے ایک افسر کے مطابق عمومی طور پر کوئی بھی اس طرح کے واقعات کی پولیس کو اطلاع نہیں دیتا،کراچی میں گزشتہ سال نومولودبچوں کے قتل کا صرف ایک ہی مقدمہ درج ہوا۔ اگر لوگ شکایات درج کرائیں گے تو اس صورت میں پولیس تحقیق کر سکتی ہے کہ آیا یہ واقعات ناجائز بچوں کے ہیں یا قتل کا محرک کچھ اورہے۔
ٰیہ خبر پڑھ کر دل دہل سا گیا کہ اتنا ظلم… معاشرتی جہالت اور بے راہ روی کی یہ پستی…اور یہ بھی کہ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہیں۔ یہ خبر کسی دوسرے ملک میں شائع ہوتی تو نجانے کیا طوفان برپا ہو چکا ہوتا لیکن یہاں تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ایک طرف معاملہ انسانی جانوں کے قتل کا ہے جو بربریت اور ظلم کی انتہا ہے تو دوسری طرف وہ معاشرتی حالات ہیں جن کی وجہ سے ان واقعات میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن افسوس نہ ظلم کرنے والوں کو پکڑا جاتا ہے اور نہ ہی اُن معاشرتی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے جن کی وجہ سے ایسے واقعات یہاں رونما ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاست کے ساتھ ساتھ معاشرہ کو ایک اپنا اہم کردار ادا کرنا پڑے گا۔ ایک طرف ایسے جرائم میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اسلامی اصولوں کے مطابق اصلاح معاشرہ اور کردار سازی پر بہت زور دینے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جس طرح سے معاشرتی بگاڑ اور اس سے جڑے جرائم کی مختلف صورتیں دن بدن ہمارے سامنے آ رہی ہیں اگر انہیں نہ روکا گیا تو اس معاشرہ کو تباہی و بربادی سے کوئی نہیں روک سکتا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین