• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند ایسے ’’ٹوٹے‘‘ حاضرِ خدمت کہ دل’’ ٹوٹے ٹوٹے‘‘ ہو جائے،، بظاہر ان ٹوٹوں کا آپس میںکوئی تعلق نہیں مگر سب کا end resultایک ہی، اب یہ فیصلہ آ پ کا کہ کیسا پاکستان چاہیے۔
ٹرمپ صدر بنے، ڈائریکٹر ایف بی آئی سے پہلی ملاقات ہوئی، میٹنگ کے اختتام پر امریکی صدر بولے ’’ کیا میں آپ سے وفاداری کی توقع رکھوں ‘‘ ڈائریکٹر کا جواب تھا ’’ نو سر آپ مجھ سے وفاداری نہیں، ایمانداری کی توقع رکھیں ‘‘، یہا ں دیکھ لیں، بیوروکریسی سے سیاسی مخلوق تک کسی میں یہ جرأت بھی نہ کہ اپنے باس یا قائد کے سامنے سچ ہی بول سکیں، ہاتھ باندھے، سرجھکائے اکثریت غلاموں کی، یس سرکرنے والی، ہر لمحے اور ہر گھڑی جی حضوری اور خوشامد میں لگی ہوئی اور اگر کوئی ذرا سا سر اُٹھائے تو چوہدری نثاربن جائے۔
باراک اوباما بتا ئے ’’بحیثیت صدر مجھے وائٹ ہاؤس میں اپنے مہمانوں کا خرچہ خود اُٹھانا پڑتا اور ٹوتھ پیسٹ، صابن تک اپنے پیسوں سے منگواتا‘‘ جبکہ مشعل اوباما کا کہنا’’ میں خاتون اوّل ہو کر کچن کی خریداری خود کرتی‘‘، اب یہاں نظر مار لیں، پہلے تو جو اقتدار میں آئے، بیوی بچوں، چاچوں، ماموں،بھانجوں، بھتیجوں سمیت آئے، پھر سرکار کو ایک ٹبر کیا پوری نسل کا خرچہ اُٹھانا پڑے اور حالات یہ ہوجائیں کہ صاحب کے ہر شہر میں دفتر، گھر اور خود ساختہ کیمپ آفسز، ہر جگہ شاہانہ اخراجات اور لیفٹ رائٹ کے تمام کھابے سرکار کے کھاتے میں، اپنے اوباموں، مشعلوں بلکہ لا لٹینوں کو چھوڑیں، ان کے تو سب نوکر اور نوکروں کے تمام چاکر بھی سرکار پال رہی، اب تو اخیر ہی ہو چکی کہ ہر بلاول اقتدار میں آنے سے پہلے ہی سرکاری پروٹوکول انجوائے کر رہا جبکہ ہر میاں نواز شریف اقتدار گنوا کر بھی سرکار کی میزبانیوں سے لطف اندوز ہو رہا۔
ایک طرف عام آدمی کیلئے قانون یہ کہ اگر وہ اشتہاری سے ملے یا اسے پناہ دے، وہ بھی ملزم اور ایک طرف چیف جسٹس آف پاکستان بتائیں کہ ’’ اگر کسی شہری کو اشتہاری نظر آئے تو وہ بھی اسے پکڑ سکے، حوالہ قانون کر سکے ‘‘ مگر دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی لندن جائیں، بڑے فخر سے ایک اشتہاری حسین نواز کے دفتر میں دو اشتہاریوں حسن نواز اور اسحاق ڈار کے ساتھ ملاقاتیں کر یں اور یہی نہیں موصوف یہ کر کے بھی قوم کو آئین وقانون کی بالا دستی پر بھاشن دے رہے۔
اب یہ بھی سن لیں، صاحب کا اقامہ بتائے کہ فرم کا نام ’’انٹرنیشنل مکینیکل اینڈ الیکٹر یکل کمپنی ‘‘ملازمین کی تعداد 1250، فرم میں صاحب کا ٹائٹل ’’ہنر مند مزدور ‘‘ ان کا ملازمت نمبر 303،(ذہنوں میں رہے کہ 302نمبر ایک مزدور کا اور 304کرین آپریٹر کا ) معاہدے کے تحت صاحب اماراتی فرم کے فل ٹائم ملازم، روزانہ آٹھ گھنٹے اور ہفتے میں 6دن کام کرنے کے پابند، سال میں 30چھٹیاں، ایک بونس اور گھر سمیت دیگر سہولتوں کے حقدار، ذرابوجھو تو، یہ کون۔ ۔۔حضور ِ والا یہ کوئی اور نہیں میرے اور آپکے سابقہ وفاقی وزیر خواجہ آصف، اب ٹھنڈ پڑی، یہ بحث چھوڑ دیں کہ خواجہ آصف نے انتخابی گوشوارے میں اپنا پیشہ ’’بزنس ‘‘ کیوں لکھا، یا ان کا اقامہ تب پکڑا گیا جب الیکشن کمیشن کے کہنے پر ان کواپنی 3سالہ سفری تفصیلات دینا پڑیں، یہ بھی رہنے دیں کہ انہوں نے اقامہ ڈکلیئر کیا یا نہیں، انہوں نے نیشنل بینک ابوظہبی میں اپنے اکائونٹ اور اس میں موجود رقم کا بتایا یا نہیں، اسے بھی نظر اندار کر دیں کہ نااہلی کے مقدمے میں وہ کیوں ایک پیشی پر بھی اسلام آباد ہائی کورٹ نہ آئے یا ان کی طرف سے جب اماراتی خط پیش کیا گیا تو عدالت کو کیوں کہنا پڑا کہ ’’آج تو خواجہ صاحب نے اپنا دفاع خود ہی ختم کر دیا ‘‘ اور یہ بھی بھلا دیتے ہیں کہ کیوں خواجہ صاحب کے وکلاء نے ان کا دفاع کرتے کرتے یہ کہہ کر میاں نواز شریف کے بیانیے سے ہوا نکال دی کہ ’’ اصل میں نواز شریف اقامہ پر نہیں اثاثے چھپانے پر نااہل ہوئے اور نواز شریف نے تو اثاثے چھپائے لیکن خواجہ آصف نے نہیں ‘‘یہ سب کچھ ایک طرف رکھ کر صرف اور صرف یہ سوچئے کہ یہ کیسا رہنما جس کا اخلاقی معیار یہ کہ وہ ایک آزاد ملک کا وزیرخارجہ ہو کر دوسرے ملک کی ایک کمپنی کا کل وقتی ملازم، ذرا سوچئے یہ کیسا ملک اور یہ کیسی قوم کہ جس میں یہ سب کر کے بھی دندناتے پھر رہے، کیا ایسے لوگ ووٹ یا ووٹر کو عزت دینے کے قابل ہیں !
یہ تو سب کو ہی معلوم کہ یہ صدی پانی کی اور مستقبل کی لڑائیاں پانی پر، یہ بھی ہر ایک کو ہی پتا کہ ہر سال 22ارب کا پانی ضائع کرنے اور سالانہ 21ارب کا پانی کھیتوں کے بجائے سمندر کی طرف بھجوانے والے پاکستان کو 3ڈیموں کی ایمرجنسی ضرورت اور یہ بھی سب جان ہی چکے کہ ہماری میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر زہر کا پیالہ بن چکی، کوئٹہ کی ہنہ لیک سوکھ کر پاپڑ ہوئی، کراچی کو پانی فراہم کرنے والی کلری جھیل کو ہالیجی سے میٹھا پانی فراہم کرنے والی پائپ لائن کو جگہ جگہ آلودہ پانی لے جانے والی (ایل پی او ڈی ) کاٹ چکی اور ہمارے سمندر و دریاؤں کے ساحل خام کچرے اور صنعتی فضلے کا کوڑا گھر بن چکے، اب اس صورتحال میں دن بدن کم ہوتے زیر زمین پانی کو ہم کس ’’عقلمندی ‘‘ سے استعمال کر رہے، یہ بھی ملاحظہ کر لیں، صرف ایک شہر چکوال کی سیمنٹ فیکٹریاں جتنا پانی ایک دن میں استعمال کریں، اتنا پانی پورا ضلع چکوال ایک مہینے میں بھی نہ کرسکے اور زیر زمین پانی کے بے تحاشا استعمال کا ا س سے اندازہ لگائیے کہ فرض کریں اگر پانی کی قیمت 25پیسے فی لیٹر ہو تو چکوال کی ایک سیمنٹ فیکٹری سالانہ 7ارب کا پانی استعمال کررہی اور وہ بھی مفتو مفت، خود سوچئے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ یہ ظلم کیوں کر رہے ؟
ویسے تو بھکے ننگوں، فقیروں اور مقروضوں کے کیا بجٹ، وہاں سالانہ بجٹ کی کیا وقعت، جہاں روزانہ ہی بجٹ آرہے ہوں، جہاں ایک طرف قرضہ ایک ٹریلین ڈالر کو touchکر رہا ہو، قرضہ چھوڑیں قرضے کا سالانہ سود اتارنے کیلئے قرض لینا پڑرہا ہو، کرنٹ خسارہ سوا ارب ڈالر ہو چکا ہو، ملک کے ادارے خسارے میںہوں اور حال یہ کہ مارکیٹ میں ڈالر کو مستحکم رکھنے کیلئے چین سے ایک بلین ڈالر لینا پڑیں، جبکہ دوسری طرف حکمرانوں کے بیرونی دوروں کیلئے 55لاکھ روزانہ رکھے جائیں، وزیراعظم ہاؤس پر روزانہ 25لاکھ جبکہ ایوان صدر پر 22لاکھ خرچے جائیں، وہاں بجٹ کی کیا اہمیت، جہاں بجٹ بجانے والوں اور ان کی آل اولادوں کا بجٹ سے دور دور کا کوئی واسطہ نہ ہو اور جہاں 10کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے ’’صحت اورعزت افزا‘‘مقام پر مطمئن بیٹھے ہوں اور وہاں بجٹ پر کیا بات کرنی کہ جہاں 70فیصد بجٹ ایک جیسے، جہاں ہر بجٹ میں 20فیصد جھوٹے اہداف، 20فیصد لارے لپے، 30فیصد اعداد وشمار کی ہیرا پھیریاں، 15فیصد لولی پاپ اور 10فیصد فن خطابت یعنی ہر بجٹ سے بمشکل 5فیصد سچ نکل پائے، لہٰذا بجٹ کو تو چھوڑیں، ہاں یہ سن لیں کہ بجٹ میں اصل چیزیں کیسے چھپائی جائیں، ابھی حکومت نے اسلام آباد کے 24کلومیٹر میں پھرنے کیلئے وفاقی وزراء کیلئے 24کروڑ کی گاڑیاں خریدیں اور وفاقی وزراء کی سیکورٹی کیلئے 15کروڑ کی گاڑیاں بھی منگوا لیں، لیکن بجٹ میں اس کا ذکر تک نہیں، پھر یہ بھی کہیں نہیں کہ اپنی سرکاری گاڑیاں نواز شریف کو دینے والے شاہد خاقان عباسی ایک کروڑ 41لاکھ وزیراعظم ہاؤس کے ملازمین میں بانٹ کر اپنے لیے2کروڑ کی 4گاڑیاں بھی خرید چکے، اسی طرح راولپنڈی، اسلام آباد میٹرو کا 41کروڑ کا خسارہ بھی سرکاری خزانے سے ادا ہو ااور میاں نواز شریف نے تو 4سالوں میں 100غیر ملکی دوروں پر 641لوگوں کے ہمراہ سوا ارب خرچے، اپنے شاہد خاقان عباسی نے تو صرف 9ماہ میں سرکاری دوروں پر 66کروڑ 50لاکھ اڑا دیئے، اب یہ اور اس طرح کی بیسیوں چیزوں کا بجٹ میں ذکر ہی نہیں، اب بتائیں کون اعتبار کرے بجٹ پر۔
اپنے شاہوں کی شاہی دوستیوں کے تو چارسو ڈنکے بج رہے اورحال یہ کہ نواز شریف کی منی ٹریل دے قطری شہزادہ، اسحاق ڈار کی تنخواہ کا ثبوت اماراتی شیخ دے، شاہد خاقان عباسی مشہور زمانہ ایل این جی ڈیل کریں قطر سے، خواجہ آصف نااہلی سے بچنے کیلئے لائیں اماراتی خط، شہباز شریف خصوصی طیاروں پر کبھی سعودیہ، کبھی ترکی تو کبھی چین، مگر ان شاہی یاریوں کے ہوتے ہوئے ملک کا حال یہ کہ گزشتہ 5سالوں میں ان ممالک سے 5لاکھ پاکستانی مزدوروں کو ملک بدر کیاگیا اور صرف گزشتہ ایک سال میں بیرون ملک پاکستانی لیبر میں 50فیصد کمی ہوگئی، ایسے ہی تو نہیں حسن،حسین،بلاول امیر اور ملک غریب ہوگیا !
ٹوٹے تو اور بھی، مگر رہنے دیں، کیا کرنا دل کو مزید ٹوٹے ٹوٹے کر کے، لیکن سو باتوں کی ایک بات، یہ فیصلہ آپ کا کہ کیسا پاکستان چاہیے ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین