• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی، منشیات اور غیر قانونی اسلحے کی پیداوار و دستیابی جیسے منظم جرائم روز اوّل سے ملک میں بد امنی، لا قانونیت، انتشار اور سیاسی عدم استحکام کا بنیادی پیش خیمہ رہے ہیں۔ سات دہائیو ں پر مشتمل اِس تاریخ میں ملک کے کسی بھی حصے میںکسی بھی دور میں پیش آنے والی کسی بھی قسم کی بد امنی کا تانا بانا کسی نہ کسی سطح پر جرائم کی اِنہی تین بنیادی اقسام سے ملتاہے ۔ دنیا بھر میں اِن جرائم کی سر کردہ تنظیموں کے لئے ایک ایسی پناہ گاہ ضروری ہوتی ہے جہاں وہ طویل مدّت تک کسی حکومت، آئین یا ریاستی قوانین سے ماورا رہ کر اپنا کاروبار چلاتے رہیں ! ماضی میں کولمبیا، اٹلی اور بھارت کے علاوہ لاطینی امریکہ اور مشرق بعید میںجرائم پیشہ عناصر کو ایسی پناہ گاہیں میسر تھیں جہاں سے وہ برسوں اپنا کالا دھندا چلاتے رہے ۔ اگرچہ ایسے بین الاقوامی نیٹ ورکس کا اصل دارومدار اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ پرہوتا ہے لیکن اِس میں ملوث عناصر مختلف ملکوں میں سیاسی انتشار، سیاسی و حکومتی معاملات میں مداخلت، سیاسی سود ے بازی، انتخابی مہم جوئی، حکومت یا منظرنامے کی تبدیلی اور دہشت گردی کے واقعات میں مستقل کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ عالمگیریت کے اِس نئے دور میں البتہ ایسی بین الاقوامی تنظیموں کا زور کم ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ اِس تبدیلی کے اگرچہ بہت سے اسباب ہوسکتے ہیں لیکن بنیادی وجہ بظاہر ایسی ہی پناہ گاہوں کی عدم دستیابی ہے۔پاکستان سے باہر ایسی پناہ گاہیں طویل مدت کے لئے دستیاب ہونا شاید اب ممکن نہیں !
پاکستان میں ماضی قریب تک قبائلی علاقوں میں ایسی پناہ گاہوں کی نشانیاں ملتی ہیں ۔ اگرچہ یہ علاقے پہلے ہی ملک بھر میں غیر قانونی اسلحے کی فراہمی کا ذریعہ تھے، افغان جنگ میں امریکہ کے اتحادی کی حیثیت سے پاکستان کے کردار کی یادگار کے طور پر یہ علاقے دہشت گردی، منشیات اور اسلحے کے منظم جرائم میں ملوث عناصر کے لئے موزوں ترین پناہ گاہوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی اس صورتحال کا بھیانک ترین نتیجہ ہیں ۔
ملک کی شمالی سرحدوں سے وقتاََفوقتاََ ً مسلح مداخلت اور ان کارروائیوں میں شمالی اور جنوبی پڑوسیوں کے ملوث ہونے کے شواہد بھی ملتے رہے ہیں لہٰذا اب پاک افغان سرحد پر سخت نگرانی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ البتہ یہ پیش رفت اِن قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبرپختو ن خوا میں انضمام کے بغیر ممکن دکھائی نہیں دیتی ۔ عجب یہ کہ فوجی قیادت کی حمایت اور قومی اسمبلی میں قرار داد کی منظوری کے باوجود انضمام کا معاملہ مستقل کھٹائی میں پڑاہواہے ۔خدشہ ہے کہ افغانستان کا اِن علاقوں پر بے بنیاد دعویٰ اس پیش رفت میں بنیادی رکاوٹ ہو ۔
افغانستان کا دعویٰ تاریخی اور قانونی تناظر میں انتہائی بے بنیاد اور حق خود ارادیت کے حوالے سے انتہائی کمزور اور کھو کھلا ہے ۔انگریز راج کے خلاف ایک جنگ کے دوران محسود قبائل کی قیادت کو یہ خدشہ تھا کہ انگریز ان کے علاقوں کو افغانستان کے حوالے کردیں گے۔یعنی کوئی ایک صدی قبل بھی یہ واضح تھا کہ ملک کے دیگر قبائلیوں کی طرح محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی انگریزوں سے بار بار الجھنا توگوارا تھا لیکن افغانستان میں شمولیت ان کے لئے قابل قبول نہیں تھی ۔
ماضی کے چند افغان مفکرین پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختون خوا کو پشتون عنصر کے مشترک ہونے کے سبب افغان قوم کا اٹوٹ حصہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ نعرہ در اصل مغلوں کے دور میں اُس وقت مقبول ہوا جب افغان شاعرو مفکر خوشحال خان خٹک شاعری کے ذریعے افغانوں اورشمال مغربی ہندوستان میں آباد پشتونوں کو ایک قوم مانتے تھے ۔ شاید مغلوں کے خلاف کامیاب مزاحمت کے لئے افغانستان اورشمال مغربی ہندوستان میں آباد پشتونوں کا متحد ہونا وقت کی ضرورت تھا ۔ لیکن تاریخی سچائی یہ ہے کہ تقسیم ہندکے وقت صوبے کے پشتونوں نے افغانستان میں انضمام یا خود مختاری کا نعرہ بلند کرنے کے بجائے ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شمولیت کو ترجیح دی ۔ یعنی کم و بیش نصف صدی کے اس طویل عرصے میں پاکستان کی پشتون کمیونٹی نے دوسری بار افغانستان میں شامل ہونے کے امکانات کو یکسر مسترد کردیا۔ لہٰذا افغانستان کا یہ دعویٰ قانونی، سیاسی اور تاریخی حوالوں سے بے بنیاد ہے۔لیکن اِس دعوے پر افغان حکومتوں کا اٹل رہنا دونوں ملکوں کے درمیان بہتر سفارتی تعلقات کی راہ میں مستقل رکاوٹ ہے۔
سال 1893میں قائم کی گئی ڈیورنڈ لائن سے متعلق افغانستان کے روایتی تحفظات کے سبب دونوں ملکوں کے درمیان ڈھائی ہزار کلومیٹرز طویل سرحدپرموثر نگرانی کا معاملہ روز اوّل سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے ۔ شاید اِسی لئے افغانستان کی سمت سے کی جانے والی در اندازی کی روک تھام کے لئے اب تک موثر اقدامات نہیں کئے جا سکے ۔ لیکن حال ہی میں پاک افغان سر حد پر خاردار تاروں کی تنصیب اور سرحدی چوکیوں پر سخت ہوتی ہوئی نگرانی کی خبریں یقیناً خوش آئند ہیں ۔ ممتاز تجزیہ کار حسن نثار اِس پہلی، موثر اور بے باک پیش رفت کا سارا کریڈٹ جنرل جاوید قمر باجوہ کو دیتے ہیں۔ اس تاریخی پیش رفت کو درست طور پر محفوظ کر نے کے لئے حسن نثار کی یہ بات مان لینا بھی ضروری ہے۔
منظم جرائم کے مکمل قلع قمع کے لئے پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں قائم چوکیوں پر سخت نگرانی نہ صرف علاقے کے باسیوں بلکہ پورے ملک میں امن کی بتدریج بحالی میں موثر کردار ادا کررہی ہے۔ علاقے کے لوگوں کے تعاون ہی سے امن کی بحالی ممکن ہوگی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین