• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور پانی پت کا منظر پیش کررہا ہے۔ ملکی سیاست میں لاہور کے کردار کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے۔ ہر شخص لاہور کو فتح کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے مستقبل کا فیصلہ لاہور میں مقبولیت سے ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں ہر بڑے سیاسی رہنما نے اقتدار کا سفر لاہور سے شروع کیا۔ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے بھی پی پی پی کی بنیاد لاہور میں بیٹھ کر رکھی تھی۔ پی پی پی کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت لاہور اور پھر پنجاب نے بنایا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد پہلی مرتبہ لاہور ہی پہنچی تھیں۔ لاہور میں انسانی سروں کی چھتری کے سوا کچھ نہیں تھا۔ گوالمنڈی اور موچی گیٹ کے محلوں سے پی پی پی کے جھنڈے بلند ہوئے تھے۔ بی بی سی نے لکھا تھا کہ بینظیر بھٹو کی آمد کے موقع پر لاکھوں لوگ امڈ آئے۔ پورا لاہور جام ہوا تھا۔ ہر طرف جئے بھٹو کی صدا بلند ہوئی تھی۔ اسی طرح عمران خان 90کی دہائی سے سیاسی لیڈر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مگر عمران خان کو اصل مقبولیت لاہور کے 2011کے جلسے سے ملی تھی۔ ایک بات تو طے ہے کہ لاہور کی ملکی سیاست کی نبض پر مضبوط گرفت ہے۔ لاہور جسے مسترد کرتا ہے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ اقتدار میں آسکے۔
تحریک انصاف نے 2011میں مینار پاکستان کے سائے میں عظیم الشان جلسہ کرنے کی ٹھانی تھی۔ ناقدین تنقید کرتے رہے کہ کچھ لوگوں کی سپورٹ سے تحریک انصاف بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مگر لوگ کبھی بھی کسی کے اشاروں پر نہیں نکلتے اور پھر لاہور کا ووٹر تو بہت سمجھدار سمجھا جاتا ہے۔ تحریک انصاف کو درپردہ قوتوں کی حمایت ضرور تھی مگر اہالیان لاہور اپنی مرضی سے عمران خان کے لئے 2011میں سڑکوں پر نکلے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ لبرٹی سے مین بلیوارڈ اور والٹن روڈ سے ڈیفنس تک ہر طرف تحریک انصاف کے چاہنے والے نکلے ہوئے تھے۔ لاہور نے باہر نکل کر عمران خان کی حمایت کا پیغام دیا تھا۔ وہیں سے تحریک انصاف کی اٹھان شروع ہوئی تھی اور تحریک انصاف ملک کی بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی۔ آج سات سال بعد اسی مقام پر عمران خان نے جلسہ کیا ہے۔ ایک مہینہ قبل بھرپور مہم چلائی گئی۔ پورے ملک اور خاص طور پر لاہور میں تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو پیغام دیا گیا کہ یہ جلسہ عمران خان کی سیاسی زندگی کے لئے بہت اہم ہے۔ لاکھوں لوگوں کو لانے کا دعویٰ کیا گیا مگر تحریک انصاف کے حالیہ جلسے نے عمران خان کا بھرم توڑ دیا ہے۔ 2011کے بعد جس قسم کی اٹھان بنی تھی اور عمران خان مسلم لیگ ن کے اکابرین کے لئے بڑا خطرہ سمجھے جارہے تھے۔ لاہور کے جلسے نے سب کچھ زمین بوس کردیا ہے۔ لاہور عمران خان کے لئے باہر نہیں نکلا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک بھر سے بڑے بڑے قافلے لاہور پہنچے تھے۔ ہر شہر سے آنے والے ٹکٹ ہولڈر اور ان کی بسوں کی تعداد نوٹ کرنے کا کمپیوٹرائزڈ نظام موجود تھا۔ کے پی حکومت پوری طرح فعال تھی۔ 22کروڑ کی آبادی سے 70سے 80ہزار افراد کی شرکت کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ جس شہر میں جلسہ ہورہا ہوتا ہے، اس شہر سے کتنے لوگ نکلے ہیں یہ بات بہت اہم ہے۔ کسی بھی سیاسی جلسے میں اگر لوگ شہر کے اندر سے آرہے ہوں تو اس جماعت کی مقبولیت کا اندازہ جلسے میں شریک لوگ اور شہر کی آبادی سے لگایا جاتا ہے، اگر جلسے کے لئے لوگ دیگر شہر اور صوبوں سے آرہے ہوں تو پھر ملک کی آبادی اور جلسے میں شریک لوگوں کی تعداد کا تقابل ہوگا۔ لاہور مینار پاکستان کے جلسے سے قبل خان صاحب نے لاہور میں ایک جلسہ کیا، جس میں غالباً باہر سے لوگ نہیں بلوائے گئے تھے اور لاہور بھی باہر نہیں نکلا تھا۔ خان صاحب صورتحال دیکھ کر بڑی وکٹ کا نعرہ لگا کر اسلام آباد چلے گئے۔ حالیہ جلسے میں پشاور سے بھی بسیں آئیں۔ ملک کی آبادی 22کروڑ ہے۔ ٹکٹ لینے کے لئے ہر سیاستدان کی کوشش رہی ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ لیکر جائے۔ مگر لاہور سے ریجیکٹ ہونے والے عمران خان صاحب کو ملک بھر نے بھی ریجیکٹ کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے کے دوران یہ خاکسار خود مینار پاکستان اور داتا دربار کے اردگرد گاڑی پر گھومتا رہا۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے کرتا دھرتا میرے ہمراہ تھے۔ دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار گاڑی چلا رہے تھے۔ مگر مال روڈ سے مینار پاکستان تک ہمیں کہیں پر بھی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہماری گاڑی میں جیو نیوز لائیو انٹرنیٹ اسٹریمنگ کے ذریعے چل رہا تھا۔ عمران خان کی تقریر سے پہلے اور تقریر کے دوران ہم مینار پاکستان کے ارد گرد موجود رہے مگر ٹریفک کی روانی پوری آب و تاب سے جاری تھی۔ لاہوری اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ کینال روڈ سے لے کر مینار پاکستان تک ہر چیز روٹین کی طرح نارمل تھی۔
قارئین کی معلومات کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اگر لاہور میں مینار پاکستان پر جلسہ ہو۔ پورے ملک سے لوگ بلائے گئے ہوں۔ لاہور کی تو بات ایک طرف ہے۔ اگر پورے ملک کی لاہور آمد کے باوجود مال روڈ جام نہ ہو تو پھر باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ لاہور نے جلسہ کرنے والے کو مسترد کردیا۔ تحریک انصا ف کے دوست شاید اس کالم سے شدید اختلاف کریں۔ مگر حق بات لکھنی چاہئے۔ افسوس عمران خان پر ہوتا ہے جو ہر کسی کو بیوقوف بناتے ہیں اور ایسی خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ سامنے دیوار پر لکھا ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لاہور نے عمران خان کو مسترد کیا ہے اور عمران خان انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے عمران خان کو آئندہ کی حکمت عملی اپنانی چاہئے وگرنہ عمران خان کے ساتھ ساتھ عمران کے ساتھ چلنے والوں کی بھی سبکی ہوگی۔ عمران خان کو جھوٹ اور خوش فہمی سے نکل کر حقیقت پسندانہ سوچ اپنانی چاہئے اور اپنی پوزیشن کو بہتر کرنے کے لئے عملی اقدامات کرنے چاہئیں وگرنہ باتوں سے کوئی الیکشن نہیں جیتتا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین