• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اتفاقاً وہاں موجود تھا لیکن وہا ں بیٹھک کا مقصد بڑے صاحب کی لیبر ڈے کے حوالے سے ایک شاندار اور پرُجوش تقریر تیار کرنے میں مدد کرنا تھا اوراس مقصد کے لیے انہوںنے اپنے گھرکچھ دانشورـــ صاحبان کو بلا رکھا تھا۔ بڑے صاحب نے اپنی زبان سے یہ الفاظ کہے تو نہیں لیکن ان کی باتوں سے یہ ظاہرہورہا تھا کہ جب وہ تقریر کریں تو حاضرین واہ واہ کرنے کے ساتھ ساتھ تالیاں بجانے پر مجبور ہوجائیںاور ان کو یہ باور کرادیاجائے کہ یہ صاحب ہی ان کے سب سے بڑے ہمدرد اوران کی قسمت میں تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں۔یہ دانشور صاحبان جو لیبر ڈے کے حوالے سے ان کی معاونت کرنے کے لیے بیٹھے تھے یہ غالباً ان کے ماتحت افسران تھے ۔ان میں سے ایک صاحب سامنے لیپ ٹاپ رکھ کر بیٹھے تھے اور بڑے صاحب کو یکم مئی یعنی لیبر ڈے کی تاریخ کے بارے میں آگاہ کررہے تھے کہ کس طرح شکاگو کے مزدوروں نے ہڑتال کرکے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے پوری دنیا کی لیبرز کو ان حق دلانے کے لیے عظیم قربانی دی تھی۔ بڑے صاحب جو بار بار مجھے مخاطب کرکے کہہ رہے تھے آپ بور تو نہیں ہورہے اور جب میں انکارمیں سرہلا دیتا تو وہ زور سے آواز دیتے’’شریفاں‘‘ گرمی بہت ہورہی ہے پہلے جلدی سے لیموں پانی بنا کر لائو پھر چائے، کافی کا بھی بندوبست کرنا اور شریفاں کرٹن ہٹا کے ہلکا سا کہتی اچھا صاحب جی جبکہ شریفاں کے ساتھ ایک سات آٹھ سال کی بچی بھی اندر جھانکتی اور مسکرا کر پھر شرماتے ہوئے فوراً پردے کے پیچھے غائب ہوجاتی۔بڑے صاحب ہماری بوریت کا خیال کرتے اور چائے لیموں پانی کا آرڈر دیتے ہوئے پھر اپنے دانشور افسر سے مخاطب ہوئے یار یہ تم کیا شکاگو کی ہسٹری لے کر بیٹھ گئے ہو ،ہمارے مزدوروں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں کہ شکاگو میں کیا ہوا کتنے لوگ مارے گئے اور اس کا کیا کیا فائدہ ہوا۔ہم نے تو انہیں یہ بتانا ہے کہ حکومت اپنے مزدوروں کے لیے کیا کیا کررہی ہے اور مستقبل میں کیا کیا کرناچاہتی ہے۔شکاگو کی ہسٹری بتانے والے دانشور افسر تھوڑا سا جھینپ گئے اور دوسرے افسران نے یک زبان ہو کر کہاسر آپ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ایک دوسرے صاحب بولے سر آپ یہ کہیں کہ ہم نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے کیا کیا اقدامات کئے ہیں تاکہ وہ تعلیم حاصل کریں ،وہ ٹیکنیکل کام سیکھیں تاکہ ہمیں سکلڈ لیبر ملے جن کا نہ صرف کام آسان ہو بلکہ ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔صاحب نے ان صاحب کی طرف تعریفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے۔ویری نائس تم اس طرح کرو کہ اس حوالے سے مجھے کم ازکم ایک پیج لکھ کردواور انہوںنے وہاں موجود ایک دوسرے صاحب کو مخاطب کرتے ہوئےکہا ہاں عابد تمہارے بارے میں سنا ہے کہ تمہیں شعرو شاعری بہت آتی ہے۔لیبر ڈے کے حوالے سے تمہیں کوئی شعر یاد ہے تو بتائو ، اور پھر خود ہی کہنے لگے مجھے علامہ کا بہت سارا کلام زبانی یاد ہے لیکن اس وقت کوئی شعر ذہن میں نہیں آرہا۔وہ افسر صاحب بہت ہی مودب انداز میں کھڑے ہوگئے اور کہا سر تقریر کرتے ہو ئے جب آپ نو جو انو ں کی بات کریں تو یہ اشعارپڑھیں،
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہونومید،نومیدی زوال علم وعرفان ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز خانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
بڑے صاحب واہ واہ کرکے داد دیتے جارہے تھے کہ ساتھ ہی شریفاں بھی ٹرے میں گلاس اور لیموں پانی لے کر اندر داخل ہوئی اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بچی بھی اپنی ماں کے دوپٹے کا پلو کھینچی ہوئی آگئی ،کہ شریفاں نے اپنا دوپٹہ درست کرنے کے لیے بیٹی سے دوپٹہ چھڑوانے کے لیے ایسا کھینچا کے لیموں پانی کاجگ ٹیبل پر الٹ گیا۔لیموں پانی نے ہماری پیاس کیا بجھانی تھی، گرمی کی شدت کو کیا کم کرنا تھا کہ اس لیموں پانی نے آئے ہوئے دانشور افسر کے لیپ ٹاپ کو بالکل ٹھنڈا کردیا اور بڑے صاحب کو ایسی گرمی چڑھائی کہ وہ تقریر کے انداز میں ایسے کھڑے ہوئے اور شریفاں اوراس کی بچی کے لیے ایسی ایسی گردانیں شروع کیں کہ ہم وہاں موجود سارے شرمندہ ہونے لگے۔ شریفاں بھی جہاں معافی مانگتی رہی وہاں اس نے معصوم بچی کواس زور سے دھکا دیا کہ اس کا سرصوفے کے ساتھ جا لگا اور وہ درد سے کراہتے ہوئے زور سے رونے لگی۔شعروشاعری اور تقریر کا سارا ماحول تلپٹ ہوگیا تھا۔بڑے صاحب جو لیبر ڈے کے حوالے سے موڈ بنائے ہوئے تھے، وہ سب کچھ بھول گئے ،وہ تو بس ایک ہی بات دُہرا رہے تھے کہ یہ جاہل لوگ ہیں انہیں کوئی سینس ہی نہیںہے، ایسے لوگوں کی کبھی تقدیر نہیں بدل سکتی۔ ان کے لیے جتنے مرضی اقدامات کرلو۔ ان کے لیے جتنی مرضی لیبر پالیسیاں بنالو۔کام چور،احمق جاہل………!

تازہ ترین