• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی عورت آج پہلے سے زیادہ باشعور ہے: ڈاکٹر وفا یزدان منش

 پاکستانی عورت آج پہلے سے زیادہ باشعور ہے: ڈاکٹر وفا یزدان منش

مغل شہنشاہ نصیرالدین ہمایوں جب اپنے بھائیوں کی بے وفائیوں کی وجہ سے ہندوستان سے جان بچا کر بھاگا تو اسے شاہ ایران نے پناہ دی۔پندرہ سال اس نے ایران میں گزارے ۔

اس قیام کے بہت گہرے اثرات اس کی شخصیت پر نمایاں ہیں۔شیر شاہ سوری کے انتقال کے بعد ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے ہندوستان پر حملہ کیا اور سلطنت مغلیہ کو دوبارہ بحال کیا۔

شہنشاہ ہمایوں اپنے ساتھ بڑی تعداد میں ایرانی ماہر تعمیرات، دانشور اور مختلف شعبوں کے ماہرین لیتا آیا۔جب مغل دربار پر ایرانی رنگ نمایاں ہوا تو آہستہ آہستہ امرا اور عوام بھی اسی رنگ میں رنگتے چلے گئے۔

اکبر کے دور میں ملکہ ہند نور جہاں کے والد کو بے حد اقتدار حاصل ہوا۔ شہنشاہ جہانگیر اس ایرانی حسینہ کی زلفوں کے ایسے اسیر ہوئے کہ شاہی مہر بھی اس کے حوالے کر دی اور سکوں پر ملکہ کا نام کندہ کیا گیا۔

 پاکستانی عورت آج پہلے سے زیادہ باشعور ہے: ڈاکٹر وفا یزدان منش

اس دور میں ملکہ کا بھائی آصف خان مغل سلطنت کا وزیر اعظم تھا اور ملکہ شہنشاہ کے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ مغل سلطنت پر بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی تھیں اور تو اور جن ارجمند بانو کی یاد میں شہنشاہ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کروایا۔ وہ بھی آصف خان کی صاحبزادی تھیں۔اس دور میں شاہان مغلیہ نے ایرانی اثرات قبول کیے تو وہی ہندوستانی معاشرے میں آہستہ آہستہ داخل ہوتے چلے گئے۔

تہران یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے تعلق رکھنے والی پروفیسر ڈاکٹر وفا یزدان منش جو ممتاز شاعرہ اور افسانہ نگار بھی ہیں، انہوں نے ہم سے ایک ملاقات میں جب یہ کہا کہ مجھے پاکستانی اور ایرانی معاشرے میں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا اور پاکستان میرا دوسرا گھر ہے تو جناب چونکہ تاریخ ہمارا پسندیدہ مضمون ہے اس لیے ہم بہت جلد اس منطقی نتیجہ پر پہنچ گئے۔

ڈاکٹر وفا آج کل پاکستان کے دورے پر ہیں۔اسلام آباد میں ہونے والی عالمی کانفرنس میں اپنا مقالہ پڑھنے کے بعد لاہور تشریف لائیں اور مختلف یونیورسٹوں کے شعبہ ہائے اردو کے دورے کیے اور ملاقاتیں کیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر وفا یزدان منش نے ایم اے اردو اور پی ایچ ڈی پنجاب یونیورسٹی اورینٹیل کالج سے کیا۔

گو وہ اسلام آباد کانفرنس میں آئی تھیں لیکن لاہور گویا ان کی زمانہ طالب علمی کی یادوں کا محور ہے، وہ اپنے اساتذہ اکرام سے ملیں اور یادیں تازہ کیں۔ہم سے ملاقات میں انہوں نے کہا کہ دس برسوں میں پاکستانی معاشرہ بہت تبدیل ہو چکا ہے۔پہلے پہل پاکستانی خواتین ایرانی خواتین کے مقابلے میں پس ماندہ تھیں لیکن اب میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستانی عورت زیادہ باشعور ہو گئی ہے اور اپنے حقوق کو سمجھنا چاہ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ بے حد مہمان نواز ،ملنسار اور ایک دوسرے کا احترام کرنے والے ہیں۔لاہور کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں کئی برس لاہور میں رہی لیکن میں اس نئے لاہور کو پہچان ہی نہیں سکی۔بڑے بڑے فلائی اوور، انڈر پاسز، عمارتیں،شاہراہیں، اورنج ٹرین اور میٹرو بس نے میرے طالب علمی کے لاہور کو تبدیل کر دیا ہے۔

انہوں نے اسکو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ قومیں اسی طرح ترقی کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان آنے سے ایک ماہ پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انہوں نے سعدی شیرازی کے حوالے سے مقالہ پڑھا۔

پاکستانی کھانوں میں انہوں نے کڑی کی بہت تعریف کی لیکن جب ڈاکٹر وفا نے گلاب جامن اور گاجر کا حلوے کو بھی پسندیدہ کہا تو ہم سے رہا نہ گیا ہم نے بتایا کہ اتفاق سے ہمیں بھی بہت پسند ہے ۔

اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا یہ تو اچھی بات ہے جب بھی آپ گلاب جامن اور گاجر کا حلوہ کھائیں گے تو میں یاد آ جاؤں گی۔

لاہور میں ڈاکٹر وفا نے ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر ناصر عباس نئیر، بیگم نیلما حسن درانی، ڈاکٹر وحید الرحمٰن خان، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اور دیگر سے ملاقات کی۔

تازہ ترین