• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال کی پستیوں اور زبوں حالی سےگزرتےہوئے کبھی کبھی عہد ِرفتہ کے روشن میناروں پر بھی نظر ڈالنی چاہئے۔ اس سے جہاں اپنی تاریخ کا شعور حاصل ہوتا ہے وہاں پژمردہ حوصلے بھی انگڑائی لے کر جوان ہوتے ہیں۔ آج کے سیاستدان جس طرح آپس میں دست و گریبان ہیں اور ایک دوسرے پر گھٹیا الزامات کی بارش کر رہے ہیں، اس سے نہ صرف سیاست سے بیزاری اور قیادت سے مایوسی جنم لیتی ہے بلکہ سیاستدانوں کی سیاسی بصیرت کے قحط کابھی احساس ہوتا ہے۔ مان لیا کہ انتخابات کی قربت سیاسی لیڈروں کو دیوانہ بنا دیتی ہے اور یہ دیوانگی نفرت کی پیامبر بن جاتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ دیوانگی سیاسی دیوالیہ پن کا راز بھی فاش کرتی ہے اور جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے بھی مایوسی پیدا کرتی ہے۔ جوںجوں انتخابات قریب آئیں گے، سیاسی لیڈروں کی باہم نفرتیں، ذاتی بغض اور عناد کھل کر سامنے آئیںگے جس سے سیاسی جماعتوں کےدرمیان نفرت کی دیواریں کھڑی ہوں گی اور سیاسی کارکن قیادت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مخالفین پر حملے کریں گے، جلسے اکھاڑیں گے اور نوبت خدانخواستہ لڑائی جھگڑے سے قتل و غارت تک پہنچے گی۔ یوں توہر بار انتخابات کی قربت اسی طرح کے حالات کا منظر پیش کرتی ہے لیکن اس بار انتخابات سے کئی ماہ قبل ہی جس طرح کی نفرتوں کے بھانبڑ اور الزامات کے طوفان نظر آ رہے ہیں، ان کی مثال ماضی کے انتخابات میں نہیں ملتی۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ منفی سیاسی مہم جماعتی کارکنوں میں دھڑے بندی، اپنے قائد سے وفاداری اور انتقام کے جذبوں کو بھڑکا کر خون ریزی کی طرف لے جائے گی جو بہرحال جمہوریت کے بیانیے کو بے حد کمزور کردے گی۔ ظاہر ہے کہ موجودہ سیاسی فضا میں شدید تلخی کا سب سے بڑا سبب میاں نواز شریف کی نااہلی ہے۔ اس تلخی اور باطنی زخم کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے چہروں پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ دوسری وجہ انتقام اور تصادم کی بنیاد پر تیار کیا گیا وہ بیانیہ ہے جس سے عوام کو متحرک اور کارکنوں کو گرمایا جارہا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اس بیانیے کی مقبولیت کے باوجود کسی بڑے فیصلے یا عدالتی سزا کے نتیجے کے طور پر عوامی بغاوت کی توقع رکھنا یا کارکنوں سے طویل عرصے تک مسلسل احتجاج کی امید لگانا فریب ِنظر ہوگا کیونکہ احتجاج کی تحریک چلانا اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنا موجودہ قیادت کے بس کا روگ نہیں لگتا۔ مراد وہ قیادت ہے جو سیاسی منظر پر باقی بچے گی اور موجود ہوگی۔ سیاسی اندازے غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیںلیکن کم از کم تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ’’کرشمہ ساز‘‘ اور مقبول عام قیادت کی غیرموجودگی میں احتجاج کے دم خم کو زیادہ عرصے تک قائم رکھنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ پھر مسلم لیگی کارکن کا نہ وہ مزاج ہے، نہ تربیت اور نہ ہی وہ جذبہ جس کے مظاہرے ہم تاریخ میں عوامی تحریکوں کے دوران دیکھتے رہے ہیں۔
عہد ِ رفتہ پر نظر ڈالتا ہوںتو موجودہ سیاست کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو ’’ذاتیات‘‘ نظرآتا ہے، جس کے تحت قائدین ایک دوسرے پر ذاتی حملے کرکے مخالفین کی سیاسی مقبولیت کو گھٹانے کی حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس صورتحال کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایک دوسرے کو عوامی نگاہوں میں ’’گندا‘‘ کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ سیاسی قائدین کے مشیران، حواری اورمیڈیا منیجرز اپنے مخالفین کو ’’گندا‘‘ کرکے اپنی کامیابیوں پر بغلیں بجاتے اور قائدین کو خوش کرتے ہوں، لیکن انہیں اس حقیقت کا احساس نہیں ہے کہ جب سب ایک دوسرے کوپوری طرح بے نقاب کرکے ’’گندا‘‘ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو عوامی نظروںمیں سیاست کا تالاب اس قدر بدبودار ہو جائے گا کہ انہیں کسی بھی سیاسی قائد پر اعتماد رہے گا نہ کسی کا احترام باقی بچے گا۔ یہی وہ دل شکن اورمایوس کن عمل ہے جورائے دہندگان کے حق رائے دہی استعمال کرنے کے ذوق و شوق کو ٹھنڈاکرتا اور ان میں انتخابات کے حوالے سے سردمہری پیدا کرتا ہے۔ جب انتخابات ’’ذاتیات‘‘ کے بجائے نظریاتی بنیادوں پر لڑے جائیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایکسپوز کرنے کے بجائے کسی منشور، کسی واضح پروگرام کی بنیاد پر لڑے جائیں اور لوگوں کو روشن مستقبل کی جھلک دکھائی جائے تو وہ متحرک ہوجاتے ہیں اور ان کا انتخابی عمل میں حصہ لینے کا ذوق و شوق دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ ہماری موجودہ سیاسی رو جس سمت میں بہہ رہی ہے اور ذاتی نفرتوںاور انتقام کی جو فضا پیدا کی جارہی ہے، مجھے خدشہ ہے کہ اس فضا میں پارٹیوں کے منشور اور ان کے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے خواب پس منظر میں چلے جائیں گے۔ اگرچہ ہماری پارٹیاں اقتدار کے حصول کے بعد منشور، وعدوں اور پروگراموں کو بھول جاتی ہیں۔ یہ انتخابات کے لئے ایک اتمام حجت ہی سہی لیکن باشعور طبقوں کو اس کا انتظار رہتا ہے۔
میں پاکستانی جمہوریت کو ’’عجب جمہوریت‘‘ کیوں کہتا ہوں؟ اگر آپ جمہوری نظام کی روح، فلاسفی، ڈھانچے اور پیغام کو دھیان سے پڑھیں تو اس نظام کی بنیاد ہی قومی اتحاد، یگانگت، برداشت، رواداری، آزادی اور مساوات پر رکھی گئی ہے۔ یعنی سادہ الفاظ میں جمہوریت کو اس لئے بہتر نظام حکومت سمجھا جاتا ہے کہ یہ نظام عام شہریوں کوحکومت میں احساس شرکت عطاکرتا ہے، قوم میں اتحاد اور یگانگت کو پروموٹ کرتا ہے، قوت ِ برداشت بڑھاتااور روادری کے جذبات کو پروان چڑھاتا ہے۔ لوگوںکو مساوی درجہ دے کرانہیں ایک دوسرے کے قریب لاتا اور ان میں قومی اتحاد کی روح بیدار کرتا ہے۔ اگر آپ اپنی جمہوریت اور خاص طور پر موجودہ جمہوری کلچر اور سیاسی فضا پر نگاہ ڈالیں تو احساس ہوگا کہ اس میں تقریباً ان تمام قدروں، اصولوں اور روایات کا خون ہو رہا ہے جنہیں جمہوریت کی روح اور ’’پھل‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود میں نہ جمہوریت کے مستقبل سے مایوس ہوں اور نہ کسی اور نظام کو اس سے بہترسمجھتا ہوں۔ فی الحال یہی امید لگائے بیٹھا ہوں کہ اسی کنفیوژن، ابتری اور انتشار سے روشنی کی کرنیں پھوٹیں گی اور اسی طرح جمہوریت بلوغت کی منزلیں طے کرکے آگے بڑھے گی۔ پیوستہ رہ شجر سے، امید ِبہار رکھ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین