• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کون ہے؟میں نے نوجوان سے پوچھا، وہ بولا بودی شاہ صاحب آئے ہیں اور انہیں الگ کمرے میں بٹھا دیا گیا ہے، پانی پلا دیا گیا ہے،اس سے آگے ہم کچھ نہیں پوچھ سکتے کیونکہ ہمارے پر جلتے ہیں، کون شاہ صاحب کے جلال کے سامنے ٹھہر سکتا ہے ۔ خیر اس جواب کے بعد میں خود شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے پوچھا اور پھر خاطر مدارت کے بندوبست کے لئے کہہ دیا۔ اس مرتبہ شاہ صاحب مجھے پوچھنے لگے کہ سنائو کیا ہو رہا ہے؟میں نے عرض کیا کہ شاہ جی!ابھی تو میں وہ تمام معافی نامے دیکھ رہا ہوں جو مجھے دنیا بھر سے لوگوں نے بھجوائے ہیں، ان معافی ناموں کے لئے کو ئی ڈاک سروس استعمال نہیں ہوئی بلکہ یہ لوگوں نے اپنے موبائل فونوں کے ذریعے بھیجے ہیں۔ اب میں اس سوچ میں مبتلا ہوں کہ کیا معافی نامہ بھیجنے والے نے پوسٹ بنانے سے پہلے نوافل ادا کئے تھے؟پھر سوچتا ہوں کہ کہیں اس نے بنی بنائی پوسٹ تو شیئر نہیں کر دی۔ میرے لئے مشکل مرحلہ یہ ہے کہ کیا شب برأت کو انہی لوگوں کو معافیاں ملیں گی جن کے پاس وٹس ایپ یا ایس ایم ایس کی سہولت ہے، ان لوگوں کا کیا بنے گا جن کے پاس یہ سہولت نہیں ہے۔پھر ایک سوال اور جنم لیتا ہے کے موبائل فون کے حامل افراد نے میرے علاوہ اور کس کس سے ڈیجیٹل معافیاں مانگی ہوں گی ، کہیں معافی پوسٹ بھیجنے کا یہ سلسلہ رات بھر تو جاری نہیں رہا، بعض افراد نے تو یہ معافی پوسٹ بڑے خشوع و خضوع سے بھیجی ہو گی۔ میرے لئے ایک اور مشکل ترین مرحلہ ہے کہ میں ان ساری معافیوں کو اوپر کیسے بھیجوں ؟
میری یہ باتیں سننے کے بعد بودی شاہ فرمانے لگے کہ نواز شریف سے رابطہ کرو۔ میں نے عرض کیا نواز شریف سے رابطہ کیوں کروں؟ بودی شاہ نے مجھے نالائق ہونے کا طعنہ دیا اور پھر کہنے لگا کہ ’’سنو!میں یہ کہتا ہوں کہ تمہیں کچھ پتہ نہیں،میں نے تمہیں اس لئے کہا ہے کہ نواز شریف سے رابطہ کرو کیونکہ آج کل نواز شریف وہ واحد لیڈر ہے جو خلائی مخلوق کی باتیں کر رہا ہے لہٰذا وہ یہ ساری جمع شدہ معافیاں خلائی مخلوق تک پہنچا سکتا ہے، چلو کسی اور کا نہیں تو کم از کم اپنا معافی نامہ تو پہنچا سکتا ہے‘‘ میں نے عرض کیا کہ او پیارے بودی شاہ جی! نواز شریف کسی اور خلائی مخلوق کا ذکر کر رہا ہے، آپ حالات پر کوئی بات کریں۔ اس پر بڑے نخرے سے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے بودی شاہ کہنے لگا’’تو لو پھر سن لو، خلائی مخلوق کو نواز شریف سے بہتر کوئی نہیں جانتا ، شاید آپ کو یاد ہو کہ اسی مخلوق کے طفیل نواز شریف پہلے چیئر مین سپورٹس بورڈ پھر مشیر اور پھر 25اپریل 1981کو پنجاب کے وزیر خزانہ بن گئے تھے۔ یہ محبت جاری رہی۔ پھر اس مخلوق نے نواز شریف کو وزیر اعلیٰ بنا دیا پھر پیسے بھی دئیے ، جس کا مقدمہ اصغر خان مرحوم عدالت میں لے گئے تھے،اسی مخلوق نے آئی جے آئی نامی اتحاد بھی بنوایا تھا، اسی خلائی مخلوق نے میاں صاحب کو وزیر اعظم بنوایا، ایک دفعہ پھر وزیر اعظم بنوایا، جب انہوں نے امیر المومنین بننے کی کوشش کی تو خلائی مخلوق نے اقتدار سے الگ کر دیا مگر پھر اسی مخلوق نے کمال مہربانی کرتے ہوئے نواز شریف کو باہر بھجوادیا، اسی خلائی مخلوق کی مہربانی سے 2013کا الیکشن عمران خان سے چھین کر نواز شریف کو دے دیا گیا۔ اب نواز شریف سچے ہیں کہ ان کا مقابلہ پہلی مرتبہ خلائی مخلوق سے ہو گا ، شاید وہ اس لئے کہہ رہے ہوں کہ ان کی پارٹی کے ایک صوبائی صدر نے سوات میں جلسے کے دوران منظور پشتین کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال رکھے تھے، انہی کی پارٹی کے کچھ افراد نے اس بگڑے بچے کو لاہور بلوایا تھا،آپ کو نواز شریف کے رونے دھونے سے سمجھ آ جانی چاہئے کہ انہیں پہلی مرتبہ اس طرح الیکشن لڑنا پڑے گا جس طرح پیپلز پارٹی لڑتی رہی ہے یا جس طرح اور پارٹیاں لڑتی رہی ہیں، پہلی مرتبہ میاں صاحب خلائی مخلوق کی مدد کے بغیر الیکشن میں اتریں گے۔ میاں صاحب اور ان کی تجربہ کار ٹیم کی کئی کرپشن کہانیاں ہیں، میں یہ تمہیں پھر کسی دن بتائوں گا۔ آصف زرداری اور نواز شریف میں جو اینٹوں والی بات کا قصہ چھڑا ہوا ہے اس کی حقیقت اس طرح ہے کہ اخوندزادہ چٹان نے ای الیون اسلام آباد میں یہ فنکشن کروایا، فنکشن میں یوسف رضا گیلانی اور آصف زرداری ایک ساتھ گئے ایف ایٹ زرداری ہائوس سے نکلنے سے پہلے آصف علی زرداری کو ایک فون آیا۔ انہوں نے راستے میں یوسف رضا گیلانی سے اس فون کے متعلق کوئی بات نہ کی اور وہاں جا کر ’’اینٹ سے اینٹ ‘‘ بجا دینے والی بات کر دی۔ جو خواجہ آصف نے جیو پر کہا ہے اس میں سچائی ہے مگر وہ ٹائمنگ غلط بتا رہے ہیں۔ آصف زرداری نے ان سے اور نواز شریف سے اس وقت مدد لی تھی جب وزیر اعظم بنانے کا مرحلہ آیا تھا کیونکہ مخدوم امین فہیم کو راستے سے ہٹانا آسان نہیں تھا۔ یہ جو شہباز شریف نے نیب کے حوالے سے بات کی ہے کہ اس کا سورج پنجاب پر چمک رہا ہے۔ اگر آپ نے کرپشن نہیں کی تو سورج کے چمکنے کی فکر نہیں ہونی چاہئے بلکہ ایماندار لوگ تو کہتے ہیں کہ احتساب ہونا چاہئے۔ پوری مسلم لیگ ن اکیلے فواد چودھری سے بہت تنگ ہے کہ وہ ان سب کی باتوں کا جواب بہت اچھے طریقے سے دیتا ہے، میاں صاحب کی ساری دہائی شکست کے خوف کے باعث ہے مگر میرا خیال ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہو گی، ویسے بھی ابھی تو ایک بڑے موسیقار خواجہ خورشید انور کے بھتیجے خورشید حارث روزانہ نیب کورٹ میں لمبے راگ الاپتے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں بھی ایک دوسرے پر الزامات لگا کر نئے وعدے کر رہی ہیں مثلاً یہ کریں گے ، ساری بات گا، گی اور گے پر ہے اوپر سے لطیفہ یہ ہے کہ نواز شریف کہتے ہیں کہ اگر مجھے بیس سال مل جائیں تو مسائل حل ہو جائیں گے ۔ جن لوگوں کو الیکشن میں تاخیر کی سمجھ نہیں آ رہی ان کے لئے دو مثالیں ہیں کہ بے نظیر بھٹو شہید کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے مطالبے کے بغیر الیکشن ملتوی کر دئیے گئےتھے۔ ضیاء الحق نے 77میں 90دن میں الیکشن کروانے کا وعدہ کیا، الیکشن مہم دیکھی، پیپلز پارٹی کی مقبولیت دیکھی تو الیکشن ملتوی کر دئیے، پھر 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کا رسک لیا، بے نظیر بھٹو نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا، یہاں مرضی کا گرائونڈ تیار کیا جاتا ہے، اس میں ابھی دیرہے‘‘۔
خواتین و حضرات!یہ تھیں بودی شاہ کی عجیب و غریب باتیں، ان باتوں میں مجھے ناصرہ زبیری کے شعری مجموعے ’’ کانچ کا چراغ‘‘ میں سے ایک غزل کے دو چار اشعار یاد آ رہے ہیں کہ
خطا سے پاک ہوتی جا رہی ہے
نظر چالاک ہوتی جا رہی ہے
فلک کے سائباں جیسی تمنا
رِدائے خاک ہوتی جا رہی ہے
نئے طوفان سے لڑنے کی ہمت
خس و خاشاک ہوتی جا رہی ہے
نئی سوہنی سے شکوہ ہے گھڑے کو
یہ خود تیراک ہوتی جا رہی ہے
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین