• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اٹھارہ سالہ پاکستانی ابومغیرہ (محمد اعتزاز) 9/11 کے بعد جہاد کی غرض سے افغانستان پہنچ کر یکم نومبر 2001ء کو کابل سے اسلام آباد میں مقیم اپنے والدکو خط لکھتا ہے او ر کچھ یوں کہتا ہے:
”میں خیریت سے افغانستان کی سرزمین پر پہنچ گیا ہوں۔ میں اس وقت یہ خط اس جگہ سے لکھ رہا ہوں جہاں سے پورا کابل شہر نظر آ رہا ہے۔ اللہ اکبر، بڑی سخت سردی پڑ رہی ہے۔ یہاں سنگلاخ چٹانوں کے سوا کچھ نہیں۔ پھر بھی یہاں سے واپسی کا دل بالکل نہیں کرتا........ یہاں سارا دن امریکی جہاز گزرتے رہتے ہیں جو تھوڑی بہت بمباری بھی کرتے ہیں۔ ہم توکابل شہر کے پہاڑی علاقے میں روس کی بنائی ہوئی غاروں میں رہتے ہیں۔ یہاں سردی ایسی خطرناک ہے جو جسم کو کاٹتی ہے۔ آفرین ہے طالبان پر جو یہاں خالی قمیض شلوار پہن کر پھرتے ہیں اور پیروں میں صرف چپل ہے........ یہاں سب سے آگے عربی مجاہدین رہتے ہیں۔ وہ رات کے ٹائم سب سے سخت پیرا دیتے ہیں۔ اگر آپ ان میں سے ایک عربی کو دیکھ لیں تو آپ کو اللہ یاد آ جائے۔ بڑے عظیم لوگ ہیں۔ اگر ان سے پوچھو کہ گھر کب جاؤ گے تو کہتے ہیں کہ اللہ کا دین غالب ہو یا شہادت۔ گھر کا نام بھی نہیں لیتے........ میرے ہاتھ یقین کریں اس قابل نہیں کہ میں کچھ لکھوں۔ ہاتھ شل ہو رہے ہیں۔ اگر آپ نے دور صحابہ کے مناظر دیکھنے ہیں تو افغانستان آ جائیں........“
والد کو ملنے والا ابو مغیرہ کا یہ پہلا اور آخری خط تھا۔ کچھ عرصے کے بعد والد کو بیٹے کی شہادت کی خبر ملی جو والد کے لئے آج بھی فخر کا باعث ہے۔ ابومغیرہ کے والد ایک جانے پہچانے وکیل ہیں۔ چند سال قبل ایک نامور خاتون دانشور نے ام مصعب کے نام سے اپنے ساڑھے سترہ سالہ نوجوان بیٹے کی افغانستان میں کفر کی افواج سے جہاد کرتے ہوئے شہادت پر کچھ یوں لکھا:
”کامیابی کی نوید گھر پہنچی۔ پہلے مصعب کا ایک پرانا خط ملا جس میں اس نے کفر کی فوج کے خلاف معرکوں میں شمولیت اور کامیابیوں کا تذکرہ کیا تھا۔ تربیت کی سختی کا بھی ذکر تھا۔ وہ جو کھانے پینے کا دلدادہ تھا۔ سفر شوق میں آدھی روٹی دن بھر میں کھا کر سنگلاخ پہاڑوں، چٹانوں میں سعد بن ابی وقاص اور خالد بن ولید کے نقش پا ڈھونڈ رہا ہے۔ تربیت کی سختی میں پھٹ جانے والے جوڑے پر اپنے ہاتھوں سے ٹانکے بھرنے کا تذکرہ بھی تھا۔ وعدے کی مدت ختم ہو رہی تھی۔ اسے ابھی لوٹنا تھا لیکن خط میں واپسی کے آگے اس نے سوالیہ نشان ڈال کر چھوڑ دیا تھا........ اس سوالیہ نشان کا جواب دینے والا خط بھی ساتھ ہی تھا۔ اسے کھولا تو چہرے پر پھیلی مسکراہٹ ایک لمحہ کے لئے زلزلے کی نذر ہو گئی۔ ’آپ کو مبارک ہو اللہ تعالیٰ نے آپ کا بیٹا قبول کر لیا۔ کفر کی فوجوں سے لڑتے ہوئے مصعب شہید ہو گیا‘........ موت اور شہادت کا فرق صرف شہید ہونے والے کے لئے نہیں پیچھے رہ جانے والے بھی چشم سر اس فرق کو سمجھتے ہیں۔ صبر و سکینت کی ایک ایسی ٹھنڈک جس میں تڑپ کا نام و نشان بھی نہ ہو........ جوان بیٹے کا مستقبل محفوظ ہو گیا اور اس کا کیریئر بن گیا........“ ابومغیرہ اور مصعب ان ہزاروں مجاہدین اسلام کی ترجمانی کرتے ہیں جو صرف اور صرف اپنے دین کے ناطے اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے 9/11 کے بعد امریکی و نیٹو افواج کے افغانستان پر حملے اور قبضے کے خلاف جہاد میں شریک ہوئے اور شہادت کا درجہ حاصل کیا۔ ان مجاہدین اسلام اور شہداء نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی جس میں مومنوں سے کہا گیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو کمزور پا کر دبا لئے گئے (النساء)۔ ابومغیرہ اور مصعب نے اپنے رب کے حکم کے آگے اپنا سر جھکا دیا۔ بے شک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں یہ شہید ”دہشت گرد“ اور ”عسکریت پسند“ ٹھہرے۔ اپنے اللہ کا حکم ماننے والے ان مومنوں کے برعکس پاکستان کے حکمرانوں نے افغانستان کے خلاف یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا اور اللہ کے حکم کے خلاف اپنے ہی بے بس افغان مسلمان بھائیوں، بچوں اور بہنوں پر امریکا و نیٹو افواج کی مدد کی اور یہی وہ فتنہ کی جڑ ہے جس نے پاکستان کے مسلمانوں کو تقسیم کر دیا اور جس کی وجہ سے یہاں عسکریت پسندی، دہشت گردی اور خودکش بمباری کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا جو رکنے کا نام نہیں لیتا۔ فتنہ کی اس پالیسی کو بدلنے کی بجائے ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے اندر بھی امریکی فوج کو حملے کرنے کی اجازت دے دی اور ایسے لوگ جو اللہ اور اللہ کے رسول کی پیروی کرتے ہوئے افغان جہاد میں شرکت کرتے اُن کو چن چن کر ڈالروں کے عوض امریکا کو بیچا گیا یا بے دردی سے مارا گیا۔
سارا جھگڑا اس امریکی جنگ میں ہماری حصہ داری کا ہے جس کا نشانہ بے بس مسلمان اور اسلامی ریاستوں کے اثاثہ جات بشمول پاکستان کا اسلامی (ایٹم) بم ہیں۔ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ جس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کو مارا جا چکا ہے اور 9/11 کے بعد ہمارے گھناوٴنے کردار کا ذرا سورة المائدہ کی آیت 51 کے تناظر میں جائزہ لیں تو مسلمانوں میں تقسیم کی اصل وجہ سمجھ آ جائے گی اور یہ بھی سمجھ آجائے گا کون حق پرہے اور کون باطل کے ساتھ۔ سورة المائدہ میں اللہ سبحان تعالیٰ فرماتے ہیں ”اے ایمان والو تم یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ یہ تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بے شک انہی میں سے ہے.......“ ذرا غور فرمائیے کہ اللہ کے اس حکم کے برعکس ہم نے یہود و نصاریٰ سے پارٹنر شپ کی ایسی جنگ میں جو اب تک لاکھوں مسلمان کی جان لے چکی۔ اللہ کے حکم کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بننے اور اپنے ہی لاکھوں مسلمان بھائیوں، بہنوں اور بچوں کو مروانے پر ہم ایک ایسے عذاب میں پکڑے گئے جس کا پاکستان کی قوم کو آج سامنا ہے۔ اگر ہمیں اس عذاب سے نکلنا ہے تو اس کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ہے امریکا کی نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ سے کنارہ کشی کا اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کا۔ امریکا تو چاہے گا کہ ملالہ یوسفزئی کے واقعہ کو لے کر اُس کی نام نہاد جنگ کو اور آگے بڑھایا جائے مگر کاش ہمارے حکمراں اور فوج سمجھ سکیں کہ امریکا کی جنگ ہماری نہیں بلکہ ہمارے ہی خلاف ہے۔اگر ہمیں پاکستان میں امن چاہیے تو اُس فتنہ سے جان چھڑانی ہو گی جسے دنیا War on terror کے نام سے جانتی ہے۔
تازہ ترین