• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پھیلنے، سُکڑنے والی عمارت

کارنیل یونیورسٹی کی آرکیٹیکچر ماہر،کالج آف آرکیٹیکچر آرٹ اینڈ پلاننگ جینی سابن نے تعمیر، عمارات اور آرکیٹیکچر کے بارے میں لاگو تصورات اور سوچ کو تبدیل کرتے ہوئے مستقبل کی ایسی تعمیرات کا تصور پیش کیا ہے جو انسانی خلیے کی مانند پھیل اور سکڑسکتی ہیں ۔یہ ایسی عمارات ہوں گی جنہیں کھول کر رہائش اختیارکی جاسکتی ہے اور جب دفتر جائیں تو اپنے گھر کو لفافےکی طرح ملفوف اور بستر کی مانند تہہ کر سکتے ہیں۔انہیں سانس لیتی عمارات کا نام دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔یہ اختراعی جدت پسندی حیاتیات اور فن تعمیر کا حسین سنگم ہے۔جسے جینی خلیےاور عمارت کے مابین ہم زیستانہ تعلق کے طور پر دیکھتی ہیں۔سابن کا کہنا ہے کہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس طرح کے ڈیزائن سائنس میں تیزی سےاپنے ماڈیولنگ رویے اور حیاتیاتی عمل میں دلچسپی کی وجہ سے مقبولیت پارہے ہیںجن میں بڑے اعداد و شمار کے رجحانات،اثر پذیری، فلٹرنگ اور احساس کی شناخت جیسے عناصرِ اربعہ پائے جاتے ہیں۔

ان خیالات کوسائنسدانوں سے مستعار لیکر عمارات کے ڈیزائن میں لاگو کرسکتے ہیں، جس میں ہم تعمیر، عمارات اور آرکیٹیکچر کے کردار کے بارے میں سوچتے ہوئے انہیں تبدیل کرنے کے امکان کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔اور ایسی عمارات کی بنا ڈال سکتے ہیں جو آپ کی ہم مزاج ہم نوا ہوں گی۔اس طرح یہ محاورہ حقیقت کا روپ دھار لے گا کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔

قبل ازیںپینسلووینیا یونیورسٹی میںمالیکیولر بائیولوجسٹ پیٹر للائڈ جونس نے انہیں میٹرکس حیاتیات میں ان تصورات کے اطلاقات سے متعارف کرایا تھا۔ سابن کا کہنا ہے کہ میٹرکس حیاتیات کے اندر بڑا خیال یہ ہے کہ زندگی کا نصف خفیہ خلیےسے باہر رہتا ہے۔آپ کے پاس ڈی این اے کوڈہے، ، لیکن یہ کوڈ extracellular میٹرکس کے اندر پروٹین کے واقعات سے متحرک ہوکر کام کرتا ہے۔ میں ماحول اور شکل کے درمیان دوطرفہ تعلق و وابستگی کے ضمن میں واقعی اس ماڈل کو شروع کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔

دوسرے الفاظ میں، کیا عمارتیں خلیات کی طرح کام کرتے ہوئے اپنے ماحول کے مطابق خود کو ڈھال سکتی ہیں؟ کیا ہوتا اگر ہم ان کے ساتھ بات چیت کرنے میں کامیاب ہوتے؟ جینی کا یہ دعویٰ ہے کہ اس طرح کے فن تعمیر کا ڈیزائن مطابقت پذیر فن تعمیر اور سوچ کی ایک نئی بنیادر کھتے ہوئے زیادہ ورسٹائل، محیط، توانائی کی اثر انگیزی اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہوسکتا ہے۔

پھیلنے، سُکڑنے والی عمارت

ماحول کے مطابق ڈھل جانے والا مواد اور ای اسکنز

مطابقت پذیر فن تعمیرکی موجودہ مثال منتقل کرنے والے پینل کے ساتھ ایک عمارت میں روشنی کے داخلے پر مبنی ہے،جو اکثر میکینیکل ہوتے ہیں اور ان میں مین فریم کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت زیادہ توانائی کا استعمال بھی ہوتا ہے جو اکثر تعطل کا شکار رہتا ہے۔ اس ضمن میںسابن کے ذہن میں کچھ اور ہے:’’ہم کہتےہیں، اگر ہم مواد کو بذاتِ خود پروگرام کریں تو ہمیں روایتی طریقہ کار کی ضرورت نہیں پڑے گی!؟‘‘

نیشنل سائنس فاؤنڈیشن گرانٹ کی جانب سے امداد کردہ eSkin کی ترقی ایک ایسا منصوبہ تھا،جسے آپ اردو میں برقی جلد کہہ سکتے ہیں جو عمارات کو حرارت دینے اور ان میں حرکت لانے کا وہ جاودانی تصور ہے جس پر ہم اکثر گنگناتے :’’دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘یہ سابن کے منصوبوں میں سے تجارتی حقیقت کے قریب ترین ہے۔مٹیریل سائنسدانوں شو یانگ (یونیورسٹی آف پنسلوانیا)، اینڈریو لوسیا ، جو اب میونسوٹا یونیورسٹی میں ہیں، کے ساتھ سابن نے آرکیٹیکچرل مواد پرکام شروع کیا،جونامیاتی پولیمر کے ڈیزائن کو متاثرکرے جسےانسانی خلیوں پر چڑھایاجائے۔سابن کا کہنا ہے کہ ــ’’ہم عمارتوں پر انسانی خلیات ڈالنے کی تجویز نہیں کررہے ہیں، بلکہ ہم نے جیومیٹری اور مٹیریل کے پیٹرن کو تبدیل کیا۔اور دیکھا کہ انہوں نے خلیوں پر کیسے اثرات مرتب کیے۔‘‘

ان مشاہدات کے نتائج نےسابن اور ان کے رفقا کی بہت مدد کی جن سے انہوں نے سینسر اور عکاس گر تیار کیے جو نظام میں بہت کم توانائی کے ساتھ ماحولیاتی مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کرسکتے ہیں۔یہ نتیجہ ایک مادی پروٹوٹائپ ہے، جواپنے ماحول کے ساتھ تبادلہ خیال کرسکتا ہے۔اس بارے میں سابن کا کہنا ہے:’’جب آپ اس طرف چلتے ہیں یا ہاتھ سے چھوتے ہیں، تو سینسر روشنی کی شدت میںتبدیلی کا پتہ لگاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت کم وولٹیج خرچ ہوتاہے، جس کے بعدمواد کی نمائش میں تبدیلی ہوتی ہے،جس سے ہم رنگ یا شفافیت میں تبدیلی دیکھتے ہیں. یہ سب سورج کے استعمال کے بغیر ہوتا ہے جس کو ساختی رنگ کہا جاتا ہے۔‘‘

مستقبل میں اس eSkin کےاستعمال میں ایک عمارت کا ٹکڑا شامل ہوسکتا ہے جو روشنی میں تبدیلیوں یا دوسری صورت میں غیر متوقع گلاس کی ایک دیوار میں کہیں بھی آپ کو ایک ونڈو بنانے کی صلاحیت کاحامل بنا سکتا ہے۔سابن کا کہنا ہے کہ ہمارے ذاتی فن تعمیر کی سوچ میں یہ مضبوط تبدیلی اور دلچسپی کا محرک بن سکتا ہے۔میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ سب کچھ غیر فعال طور پر منسلک ہوسکتا ہے۔منصوبوں کو انسانی جسم کے ساتھ روانگی کے نقطہ نظر کے ساتھ شروع کیا جاسکتا ہے، اور اس کے بعد جسم کی طرف سے حوصلہ افزائی کی صورت میں بات چیت کرنے کے لئے راہیںہموار کی جاسکتی ہیں۔یعنی ایک ایسا جیتا جاگتا مکان تیار کیا جاسکتا ہے جو آپ کی طرح حرکت کرسکتا ہے۔یہ سب ڈیجیٹل سرامکس کی راہ ہموار کرتا ہے جسے آپ برقی سیارے کا لازمی جزو کہہ سکتے ہیں۔

آرکیٹیکچربطور موجد

سابن کے نئے نقطہ نظر میں تبدیلیاں صر ف عمارت تک محدود نہیں ہیں،بلکہ وہ ڈیجیٹل طور پراینٹوں کی تعمیر سازی پربھی توجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں۔وہ روایتی عمل میں ڈیزائن اور عمارت سازی کے آرکیٹیکچرل کردار کو بڑھانے اور عمل کو متحرک کرنے کی خواہاں ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اب ٹیکنالوجیز ہمیں ہماری پیچیدہ چیزیں تیار کرنے میں ہماری مدد کر رہی ہیں۔اب تین جہتی پرنٹنگ جیسی ٹیکنالوجیزسابن کو اپنے غیر معیاری مواد کو ڈیزائن اور تیار کرنے کے لیے اوزار فراہم کرتی ہیں۔

سابن کا کہنا ہے کہ سہہ جہتی طباعت سے ہم اینٹوں کی تیاری کو زیادہ پائیدار اور تیز رفتار کرسکتے ہیں، تعمیر کے لیے درکار تمام مٹیریل فوٹو اسٹیٹ کی طرح تیزی سے نکال سکتے ہیں۔ سیلولر فن تعمیر میںیہ اس استعمال انقلابی تبدیلیوں سے ہم کنار کرسکتا ہے،جس میں لچکدار فائبرگلاس کا بازو،ہائی ٹیک فوٹوولیمینٹس، شمسی فعال یارن کے ساتھ ہر چیز کو ڈیجیٹل طور پر اس طرح ڈیزائن کرسکتے ہیں جیسے اعلیٰ درجے کے مکمل لباس کی بنائی مشینوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔

یوں جانیے کہ مستقبل میں تعمیراتی صنعت ٹیلر ماسٹر کے مساوی ہوجائے گی ۔ادھر سے ڈیزائن تیار کیا سہہ جہتی زاویہ طباعتی مشین میںڈالا اور ادھر سے مکمل گھر اپنی رعنائیوں کے ساتھ آپ کے سامنے جگمگاتا نکل آئے گا۔

تازہ ترین