• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ چند روز سے حکمراں اس بات کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں کہ 2015ء میں پاکستان میں کرپشن میں کمی ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے 175 ممالک میں سے 116 ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔ رپورٹ میں پاکستان کو 100میں سے 30 نمبر دیئے گئے ہیں جبکہ 2014ء میں 29نمبر دیئے گئے تھے جبکہ اگر کسی ملک کا اسکور 50 سے کم ہو تو یہ اس بات کا مظہر ہوتا ہے کہ اس ملک میں کرپشن کی صورت حال سنگین ہے۔ رپورٹ کے مطابق جو ملک جتنا زیادہ کرپٹ ہوتا ہے اس کا اسکور بھی اتنا ہی کم ہوتا ہے جبکہ جس ملک کے پبلک سیکٹر کو نسبتاً کم کرپٹ یا شفاف سمجھا جاتا ہے اس کا اسکور اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2015ءکی رپورٹ کے ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں جو مسرت و کامرانی نہیں بلکہ تشویش کا جواز فراہم کرتے ہیں۔
(1) پاکستان کے 30 کے اسکور کے مقابلے میں بھوٹان کا اسکور 65، بھارت کا 38 اور سری لنکا کا 37رہا یعنی جنوبی ایشیا کے ان ممالک میں کرپشن پاکستان سے کم ہے۔(2) عالم اسلام کے 27ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے، ان ملکوں میں ملائیشیا ، کویت ، ترکی ، مصر ، انڈونیشیا اور جبوتی شامل ہیں۔ (3) اسرائیل کا اسکور 61ہے۔ عالم اسلام کے صرف دو انتہائی کم آبادی والے ملکوں میں کرپشن اسرائیل سے کم ہے۔ جن برادر اسلامی ممالک میں کرپشن اسرائیل سے زیادہ ہے ان میں سعودی عرب ، ملائیشیا ، کویت ، ترکی ، مصر ، انڈونیشیا ، مراکش ، پاکستان، لبنان ، ایران ، نائجیریا ، یمن ، عراق اور لیبیا شامل ہیں۔ (4) آبادی کے لحاظ سے عالم اسلام کے 5بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا ، پاکستان، بنگلہ دیش ، نائجیریا اور مصر ہیں۔ 2014ء میں ان 5ملکوں کی مجموعی آبادی 860 ملین تھی جو 57 اسلامی ملکوں کی 1700 ملین کی مجموعی آبادی کا تقریباً 50فیصد مصر 36، انڈونیشیا 36، پاکستان 30، نائجیریا26 اور بنگلہ دیش 25کے اسکور پر براجمان ہیں یعنی ان ملکوں میں کرپشن کی صورت حال سنگین ہے۔
نیب نے 2015ء میں لوٹی ہوئی دولت کی بڑے پیمانے پر وصولی کے دعوے تواتر سے کئے ہیں جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کم ہورہی ہے مگر ہم بلاخوف تردید یہ کہتے رہے ہیں کہ نیب نے گزشتہ 14برسوں میں بینکوں کے پھنسے ہوئے قرضوں کی مد میں 121؍ ارب روپے کی وصولی کا غلط دعویٰ کیا ہے۔ یہ دعویٰ 2015ء میں کیا گیا مگر اصل وصولی اس کی ایک تہائی بھی نہیں ہے ۔ نیب کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں ہے کہ اس نے گزشتہ 15برسوں میں 265؍ ارب روپے کی وصولی کی ہے اور اس مدت میں اس کے مجموعی اخراجات اس رقم کا صرف 3.7فیصد ہیں۔ اگر صحیح صورت حال سامنے آجائے تو پاکستان کا اسکور گر سکتا ہے اور وہ کرپشن کی عالمی درجہ بندی میں مزید نیچے جاسکتا ہے۔
وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کے دستخط سے 19 اگست 2013 کو ایک خط آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کو بھیجا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا ’’ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ( آئی ایم ایف کے 6.6؍ ارب ڈالر کے قرضے کے اس پروگرام کے تحت وضع کردہ پالیسیوں کو وزیراعظم شریف ، ان کی کابینہ اور صوبوں کے رہنمائوں کی مکمل حمایت حاصل ہے جیسا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے ایک حالیہ اجلاس کے فیصلے سے واضح ہوتا ہے۔ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں مشترکہ مفادات کونسل کے کسی اجلاس میں جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ موجود ہوتے ہیں یہ معاملہ زیر غور آیاہی نہیں تھا اور نہ ہی اس مدت میں کسی اجلاس کی روئیدار میں کسی اسے فیصلے کا ذکر موجود ہے۔ یہ بات حیران کن بلکہ پریشان کن ہے کہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور حزب مخالف کے سیاستدانوں نے اس غلط بیانی پر پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں بحث کرنے و تحریک استحقاق لانے سے اجتناب کیا ہے۔ اسی طرح کسی سیاستدان کی نجکاری کے خلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے بھی اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے احتجاج کا راستہ ہی اپنایا ہے۔ وزیر خزانہ کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھے گئے اس خط کے ساتھ جو دستاویز منسلک کی گئی اس میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کے فاضل عملے کو فارغ کیا جائے گا۔ اس کے خراب حصوں کو علیحدہ کرکے حکومت پی آئی اے میں مزید سرمایہ لگائے گی اور اس ادارے کو عمدہ حالت میں لاکر اس کے 26فیصد حصص نج کاری کے ذریعے اسٹرٹیجک سرمایہ کاروں کے حوالے کردیئے جائیں گے یعنی وہی اس ادارے کو چلائیں گے۔
یہ بات دلچسپی سے پڑھی جائے گی کہ مسلم لیگ (ن) کے 2013ء کے انتخابی منشور میں پی آئی اے کی نجکاری کرنا شامل ہی نہیں تھا بلکہ اس منشور میں کہا گیا تھا ’’پی آئی اے کو منافع بخش اور خطے کی ممتاز ایئرلائن بنایا جائے گا‘‘۔ منشور میں پی آئی اے کی نجکاری نہ کرنے اور معیشت میں پائیدار بہتری لانے کی ایک موثر حکمت عملی بھی موجود تھی لیکن طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے اس حکمت عملی سے یکسر انحراف کیا جارہا ہے لیکن تواتر سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ہماری تمام پالیسیاں منشور سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور 2013ء کی کمیٹی میں موجودہ صدر مملکت کے علاوہ اسحٰق ڈار ، سرتاج عزیز ، احسن اقبال ، سردار ایاز ، صادق ، پرویز رشید ، خواجہ محمد آصف ، خواجہ سعد رفیق ، شاہد خاقان عباسی ، خرم دستگیر، اسماعیل مفتاح ، محمد زبیر ، عبدالقیوم اور عبدالقادر بلوچ شامل تھے۔ ہمیں اس امر میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ اگر اس منشور پر عمل کیا جاتا تو پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے اہم قومی اداروں کو فروخت کرنے کی ضرورت نہ پڑتی، گزشتہ ڈھائی برسوں میں پاکستان کے قرضوں کے حجم میں 4500؍ ارب روپے کا اضافہ نہ ہوتا اور معیشت کی شرح نمو 4.2فیصد سالانہ کے بجائے 7فیصد سالانہ ہوتی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 320؍ارب روپے سے زائد ہے اور یہ ادارہ ہر سال خسارہ دکھا رہا ہے۔ ہم نے اب سے 27ماہ قبل ان ہی کالموں میں کہا تھا کہ(1) حکومت پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کردے گی (2) پی آئی اے کے قرضوں کا بڑا حصہ ، فاضل عملے اور ناکارہ اثاثوں کو ’’پی آئی اے2‘‘ میں منتقل کردیا جائے گا (کئی سو ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی اور فاضل عملے کو فارغ کرنے کے لئے درکار رقوم خود حکومت فراہم کرے گی) (3) پی آئی اے کے پہلے حصے کو کامیابی سے چلانے کے لئے حکومت اس ادارے میں مزید سرمایہ کاری کرے گی جس کے بعد اس ادارے کے 26فیصد حصص اور انتظام نئے سرمایہ کاروں کے حوالے کردیا جائے گا۔
(جنگ 19؍ستمبر 2013ء)
قوم کو اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ حکومت کی جانب سے پی آئی اے میں خطیر رقوم لگانے کے بعد جب یہ ادارہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو چکا ہوگا تو پھر اس کی نج کاری کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ کچھ عرصہ قبل ایف بی آر کے چیئرمین نے سینیٹ کمیٹی کو بتلایا تھا کہ اگر (مسلم لیگ ن کے منشور کے مطابق) انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111(4) منسوخ کردی جائے تو ٹیکسوں کی وصولی کی مد میں تین ہزار ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اوورسیز انویسٹرز چیمبر نے کہا تھا کہ اگر ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کیا جائے تو ٹیکسوں کی وصولی کا حجم دگنا ہوسکتا ہے یعنی تقریباً 3100؍ ارب روپے سالانہ کا اضافہ۔ بدقسمتی سے وفاق اور چاروں صوبے اس ضمن میں اپنے منشور اور وعدوں پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کیونکہ ان فیصلوں سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ یہی ہمارا المیہ ہے۔
تازہ ترین