• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑی سادہ سی بات ہے صاحب ! الفاظ کی بھول بھلیوں اور جذباتی جملوں کے پیچ و خم سے پاک، بالکل سیدھی اور عام فہم …اگر میرے گھر کی خواتین پردہ کرتی ہیں تو مجھے مبارک۔ اگر پڑوسی کے ہاں ایسا رواج نہیں تو وہ جانے اور اس کا خدا…ریاست کی منتخب پارلیمان نے اس بارےمیں اگر کوئی قانون بنایا ہے تو اس کا نفاذ بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے ۔ مجھے قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ میں پڑوسی پر تلوار سونت لوں ۔ کیا خبر کہ وہ کلین شیو مجھ سے زیادہ با ضمیر، مہذب، دیانت دار اور حقوق العباد ادا کرنے والا ہو اور کیا عجب کہ میرے نورانی چہرے کی اوٹ میں بخل ، منافقت ،حرص اور ریا پھن لہرائے بیٹھے ہوں ۔ یہ فیصلہ تو روز محشر خالق نے خود کرنا ہے کہ ہم دونوں میں سے کون جزا کا حقدار ہے اور کون سزا کا؟
اس بحث کو نہیں چھیڑتے کہ ’’طالبان نے کس کے ہاتھ مضبوط کئے ‘‘ یا ’’ طالبان کے ہاتھ کس نے مضبوط کئے ‘‘ گروہی مفادات کے تحت دونوں طبقوں نے ایک دوسرے کے حق میں یہ کارِ خیر انجام دیا۔ ہم اس موضوع پر بات کرتے ہیں جس کی طرف قابل احترام ،سینئر صحافی نے اشارہ کیا ہے کہ ایک طرف طالبان کااسلام کے بارے میں تصور صحیح نہیں تو دوسری طرف ملک کو سیکولر بنانے کی خواہش رکھنے والا ٹولہ بھی اسلام کی غلط تشریح کرتا ہے ۔ یادش بخیر ! خدا غریق رحمت کرے 2009ء میں جناب قاضی حسین احمد نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ میں اس مسئلے کی سنگینی پر بحث کرتے ہوئے کہا تھا ’’ ملک میں تیزی سے دو طبقے تہذیبی تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ دونوں طرف انتہا پسندی ہے ۔ ایک طبقہ مغرب کی عریاں تہذیب کوپاکستان میں زبردستی ٹھونسنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اس طبقے کو ملٹی نیشنل کمپنیوں ، غیر ملکی این جی اوز اور ذرائع ابلاغ کا تعاون حاصل ہے ۔ دوسری جانب ایک اور طبقہ پوری قوت سے اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے ، جس کو مسجد ، مدرسے ، دینی جماعتوں ،خطیبوں اور واعظوں کا تعاون حاصل ہے ‘‘ تب ہم نے معاصر میں اس کالم کا جواب لکھنے کی جسارت کی تھی ۔ ہمارا یہ کام خود قاضی صاحب ہی نے آسان کردیا۔ انہوں نے تہذیبوں کے اس متوقع تصادم کو ٹالنے کے لئے تجاویز دیتے ہوئے اس تصادم کے بڑے سبب سے بھی پردہ اٹھایا کہ ’’ہمارے پریس کو احتیاط برتنی چاہئے ، فیشن میگزینز کو بھی اجنبی لباس متعارف کرانے کے شوق میں اشتعال پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ مذہبی طبقے کو بھی تشدد کی بجائے ترغیب و تلقین کے ذریعے باوقار اسلامی لباس رائج کرنے اور اسلامی تعلیمات کی ترویج کی کوشش کرنی چاہئے ‘‘ …ہم نے عرض کیا کہ گویا طبقہ اول پریس کے توسط سے اپنی پسندیدہ تہذیب متعارف کرا رہا ہے اور طبقہ ثانی تشدد کے ذریعے ۔یہی اصل مقام فکر ہے ۔ جمہوری ممالک میں ہر جماعت اور طبقے کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے نظریات کا میڈیا اور ترغیب و تلقین کے دیگر قانونی ذرائع سے پرچار کرے ۔ ان ذرائع سے اپنا موقف کسی پر ’’ٹھونسا ‘‘ نہیں جاتا اور نہ ہی یہ انتہا پسندی کہلاتی ہے بلکہ یہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا مہذب ترین طریقہ ہے ۔ بے شک طبقہ ثانی کو بھی پورا حق حاصل ہے کہ وہ بھی قانونی دائرے میں رہ کر ذرائع ابلاغ ، واعظ و تبلیغ اور مکالمے کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کرے ۔ البتہ اپنی اخلاقی اور قانونی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے تلوار سونت کر دوسروں کو ہانکنے کی وحشیانہ آرزو منفی اور غیر تہذیب یافتہ رویہ ہے جو معاشرتی بگاڑ اور انتشار کا موجب بنتا ہے ۔ عریانیت کی حمایت کسی کو زیبا ہے اور نہ ہی یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ درست ہے کہ لبر ل ازم یا سیکولر ازم کا مطلب فحاشی ہے ۔ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ طبقہ اول نے کبھی ریاست کو للکارا ہے ، نہ کبھی کسی کو جینزنہ پہننے پر گولی ماری ہے اور نہ ہی برقع پہننے پر کسی کو کوڑے ۔ جب کہ جس جنونی گروہ نے اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کے لئے ریاستی رٹ چیلنج کرنےکے علاوہ وحشت و بربریت اور کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے ، طبقہ ثانی اس کے لئے آج بھی نرم گوشہ رکھتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہمیں اپنی تہذیبی اقدار پر اعتماد کیوں نہیں کہ جو چند لوگوں کے پینٹ شرٹ پہننے یا گٹار اٹھانے سے خطرے میں پڑ جاتی ہیں ؟ ہمارا ایمان اتنا کمزور کیوں ہے کہ فلموں کے سائن بورڈ یا فیشن شوز دیکھ کر ڈگمگا جاتا ہے ؟ ہمارے جذبات اتنے شتر بے مہار کیوں ہیں کہ پاکستان سپر لیگ T-20کی افتتاحی تقریبات دیکھ کر مجروح ہونے لگتے ہیں ؟ ہماری غیرت اتنی جاں بہ لب کیوں ہے کہ اپنی کسی اداکارہ کا غیر ملکی فلم میں ایک سین فلمانے سے اس کا جنازہ نکل جاتا ہے ؟ ہمارے ہاں ایک خون آشام مخلوق اور ان کے سفاکانہ نظریات کے خاتمے کی خواہش کو بے حیائی کے فروغ سے کیوں جوڑا جاتا ہے ؟ لبرل ازم اور سیکولر ازم ایسی معتبر اصطلاحات کو فحاشی کیوں قرار دیاجاتا ہے اور منطق ، دلیل اور مکالمے کو اسلام سے دوری سے کیوں تعبیر کیا جاتا ہے ؟ آخر ہمارے پاس یہ جانچنے کا کیا معیار ہے کہ خدا کے نزدیک جینز پہننا زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے یا آمریت کی چاکری؟ اپنی تہذیبی روایات سے روگردانی کرنا بڑا گناہ ہے یا اشرف المخلوقات کی تذلیل اور قتل و غارت کرنے والوں سے ہمدردی ؟ اپنے گلے میں گٹار ڈالنا قابل گرفت ہے یا دوسروں کے گلے کاٹنا؟ کیٹ واک زیادہ حیا سوز حرکت ہے یا تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑانا ؟
صحت مند اور مثبت رویہ یہ ہے کہ ہم کھلے دل سے خود کو گلوبل ویلج کا مکیں اور اس کے تقاضوں کو تسلیم کرلیں اور نان ایشوز پر اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کرنے اور کافر گری کی بجائے اپنی قوم میں جدید دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا شعور پیدا کریں ۔ آج کے جدید سائنسی ذرائع ابلاغ اور رسل و رسائل کی بدولت دنیا میں تہذیبوں کی کوئی سرحد رہی ہے اور نہ کوئی لباس اجنبی ۔ ایسے میں اگر ہمارے معاشرے کی ایک قلیل تعداد کوئی دوسری تہذیب اپنا رہی ہے تو یہ اس کا اسی طرح حق ہے جیسے کسی دوسرے ملک کا کوئی شہری ہماری تہذیب اور لباس اپنا لے ۔ ہمیں رواداری ، برداشت ،توازن ،اعتدال ،وسیع النظری ، مکالمہ ،غوروفکر اور باہمی و قانون کے احترام جیسے مہذب اور مثبت رویوں کی جانب جانا ہو گا۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم و تربیت کی کمی اور جہالت کی فراوانی ہے جس کے سبب ہم عدم برداشت اور تنگ نظری جیسے منفی رویوں کا شکار ہیں ۔ ہمارے ہاں صحت کی سہولتیں ناپید ہیں ۔
انصاف اور بنیادی حقوق ہم سے کوسوں دور ہیں ۔ شخصی آزادیوں کاہم نے منہ نہیں دیکھا۔ لاقانونیت اور کرپشن ہماری جڑوں میں بیٹھ گئی ہے ۔ عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ بے تحاشا بڑھتی آبادی ہمارے محدود وسائل کو گھن کی طرح کھا رہی ہے ۔آمریت نے ہمیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان حالات میںہمارا مسئلہ فحاشی نہیں ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا طوفان ہے ۔ ہمارے لئے فیشن شوز نہیں بلکہ پینے کا گندہ پانی زہر قاتل ہے ۔کوئی دوسری تہذیب اپنانا نہیں بلکہ شرمناک شرح خواندگی ہمارے لئے شرمناک ہے ۔ ہمیں اجنبی لباسوں پر گریہ نہیں اپنے حقوق اور وسائل غصب ہونے پر ماتم کرنا چاہئے ۔ ہمیں بے حیائی کے خاتمے سے زیادہ اشیائے خوردونوش میں ملاوٹ اور جعلی ادویات کے خاتمے کی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے ۔
معذرت: گزشتہ کالم میں ہر دلعزیز شاعر ڈاکٹر فخر عباس کا ایک شعر’’یہ جو لاہور سے محبت ہے /یہ کسی اور سے محبت ہے ‘‘ کسی اور کے نا م سے موسوم ہو گیا۔ یہ اتنا بڑا جر م ہے ،جیسے ظالم سماج کسی کے محبوب کو کسی اور سے منسوب کر دے۔ ڈاکٹر صاحب اور قارئین سے معذرت۔
تازہ ترین