• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک وقت تھا جب لڑکی کو بیاہتے ہوئے سیانی عورتیں مشورہ دیتی تھیں کہ مرد کے دل تک پہنچنے کا راستہ معدے سے ہو کر گزرتا ہے ،مراد یہ کہ اچھے پکوان کھلا کر مردکا دل جیتا جا سکتا ہے ۔اب نیادور ہے، سو مرد کے دل تک پہنچنے کا راستہ تبدیل ہو گیا ہے ۔ اب عورت کی نظر میں مرد کے دل تک پہنچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خنجر سے اس کا سینہ ہی چیر دو۔ممکن ہے آپ میں سے کچھ لوگ یہ بات مبالغہ آمیز مزاح کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو جائیں، بالکل ویسے جیسے آج کل ہم پاکستان کے ہر مسئلے کو کرپشن کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ feminismکے اِس دورمیں عورتوں کے بارے میں ہو میو پیتھک قسم کالطیفہ سناتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے کہ کہیں بندہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو جائے۔بعض اوقات تو مجھے یوں لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارے اخبارات میں ــ’’مذہبی مسائل اور اُن کا حل ‘‘ کے سلسلے کی طرح ’’Feminismکے مسائل اور اُن کا حل ‘‘ کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا جس میں اس قسم کے سوالات پوچھے جائیں گے کہ:
’’کل ایک مرد نے میرے حسن کی تعریف کی ، یہ جنسی ہراسگی کے قانون کی کس شق کی خلاف ورزی میں آئے گا ؟ نیز کیا مجھے قانونی چارہ جوئی سے پہلے اسے ہیرے کی انگوٹھی واپس کرنی پڑے گی ؟‘‘
’’خوبصورت دکھنا عورت کا بنیادی حق ہے مگر میرا دوست کبھی میری خوبصورتی کی تعریف نہیں کرتا ،کیا یہ میرے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟‘‘
’’میں اپنے شوہر سے سخت بیزار ہوں ، وہ مجھے نا مناسب انداز میں چھیڑتا ہے ، کیا میں اس کے خلاف #MeTooکی مہم شروع کر سکتی ہوں؟‘‘
’’میری دوست انیلہ کی جمشید سے بہت دوستی ہے ، انیلہ اُس سے شادی کرکے ہمیشہ کے لئے اپنی آزادی ختم کروا لے گی ، کوئی طریقہ بتائیں جس سے میں انیلہ کو شادی سے بچا سکوں..... انیلہ کی جگہ میں یہ قربانی دینے کو تیار ہوں۔‘‘
’’کچھ لوگ مجھے عورت سمجھتے ہیں ، کیا یہ میری پرائیویسی میں مداخلت نہیں ؟‘‘
ویسے تو مجھے عورتوں کی حس مزاح پر کوئی شبہ نہیں مگر اس کے باوجود اگر کوئی خاتون ان سوالات کو میرے ’’اصل خیالات ‘‘کی ترجمانی سمجھ بیٹھی تو میںکالم نگاری چھوڑ کر سبزی منڈی میں پیاز کی آڑھت شروع کر دوں گایابرانڈرتھ روڈ پر ڈنکی پمپ کی دکان کھول لوں گا۔بے شک یہ کہیں زیادہ باعزت اور منافع بخش کام ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں یہ بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ عورتوں کی نفسیات کو سمجھنا ممکن نہیں ،یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ infinityکے معمے کو حل کرنے کی کوشش کریں ،پاکستانی عورتیں البتہ infinityسے بھی کچھ آگے کی چیز ہیں ، جہاں infinityختم ہوگی وہا ں سے یہ شروع ہوں گی۔حالانکہ ہمارا معاشرہ عورتوں کو جتنی عزت دیتا ہے اس بات کا اندازہ حکیموں ، پیروں، فقیروں اور عامل بابوںکے اشتہارات سے لگایا جا سکتا ہے ۔کیا کبھی کسی عامل بابے کے اشتہار میں آپ نے یہ پڑھا ہے کہ ’’محبوبہ آپ کے قدموں میں؟ ‘‘ہر اشتہار میں محبوب کو قدموں میں لانے کا وعدہ کیا جاتاہے۔وجہ بے حد سادہ ہے کہ پاکستانی محبوبہ کو رام کیا ہی نہیں جا سکتا ۔آپ آسمان سے تارے بھی توڑ لائیں تو محبوبہ کہے گی میں نے یہ والا نہیں اس کے ساتھ والا تارا توڑ کر لانے کو کہا تھا ۔اب اِس کے بعد بندے کے پاس یہی چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ بھی #MeTooکیمپین شروع کردے۔
کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے پاکستانی لڑکیوں کے قبضے میں کوئی خلائی مخلوق ہے جو انہیں ہر بات پہلے سے بتا دیتی ہے ، اسی لئے ان کے پاس لڑکوں کی ہر بات کا جواب ہوتا ہے ، کبھی کسی موقع پر لڑکیاں اِن سے زچ نہیں ہوتیں، لڑکیوں کو بحث میں کوئی ہرا نہیں سکتا اور محبت میں اِن سے کوئی جیت نہیں سکتا بشرطیکہ لڑکے کی ماہانہ آمدن لڑکی کے کپڑوں، زیور اور شاپنگ کے ماہانہ اخراجات سے کم ازکم تین گنا یا لڑکی کے بھائی کی تنخواہ سے بیس گنا زیادہ ہو۔whichever is higher۔واضح رہے کہ اگر لڑکی کا بھائی بے روزگار ہو تو اسے میز کرسی والی سرکاری نوکری لگوانا بھی محبوب کی ذمہ دار ی ہے چاہے سالے صاحب نے میٹرک بھی نہ کیا ہو۔
پاکستانی لڑکیاں اِس خلائی مخلوق سے کزن کا کام بھی لیتی ہیں ، مثلاً اگر لڑکا پوچھے گا کہ اس وقت رات کے پونے بارہ بجے تم کہاں ہو، جواب ملے گا کزن کی طرف ، بات ختم ۔لڑکا اگر پوچھے کہ پچھلے ایک گھنٹے سے تمہارا فون کیوں مصروف تھا، کس سے بات کر رہی تھی ، جواب ملے گا ،کزن سے،بات ختم۔لڑکا اگر پوچھے کہ میں نے تمہیں وٹس ایپ پر میسیج کیا لیکن تم نے جواب نہیں دیا جبکہ تمہارا اسٹیٹس آن لائن تھا، جواب ملے گا، کینیڈا میں کزن سے چیٹ کر رہی تھی،بات ختم۔یاد رہے کہ لڑکا یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ کزن مرد ہے یا عورت۔دوسری صورت میں لڑکی اگر اس قسم کے سوال کرے اور جواب میں لڑکا کزن کا استعمال فقرے میں کرے تو یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ لڑکے کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔
دوسری طرف یہ بات بھی سچ ہے کہ پاکستانی لڑکیاں کسی قدر لبرل ہو گئی ہیں، اب وہ تنگ نظر یا possessiveنہیں رہیں،ثبوت اس بات کا یہ ہے کہ اُن کے فیس بک یا انسٹا گرام پر اب ایسی تصویریں بھی ہوتی ہیں جن میں وہ اپنے یونیورسٹی کے دوستوں یا دفتر کے مرد کولیگز کے ساتھ نظر آ رہی ہوتی ہیں،لڑکا اگر ڈرتے ڈرتے سوال پوچھ لے کہ، یہ کون لوگ ہیں تو جواب میں لڑکی بے پروائی سے کہے گی کہ یہ صرف اچھے دوست ہیں اور کچھ نہیں۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی جواب میں کہے کہ’’ کیا تم مجھ پر شک کر رہے ہو؟ ‘‘تو پھرایسی صورت میں لڑکے کی خیر نہیں اور اِس فقرے کا ڈسا ہوا تو پانی بھی نہیں مانگتا کہ ’’مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم اتنے narrow minded‘‘ ہو۔یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیںکہ ایسے لڑکوں کا ٹھکانہ بھی دوزخ ہے۔’’اچھے دوستوں ‘‘ والی یہ سہولت البتہ لڑکوں کو حاصل نہیں، کوئی لڑکا یہ کہہ کر تو دیکھے کہ اُس کی ’’ڈی پی ‘‘ میں نظر آنے والی لڑکی محض ایک اچھی دوست ہے اور کچھ نہیں ، اِس کے بعد لڑکے کی آنکھوں اورچراغوں ،دونوں میں روشنی نہیں رہے گی۔
پاکستانی لڑکے بحث میں لڑکیوں سے نہیں جیت پاتے کیونکہ ایک تو پاکستانی لڑکیاں بہت سمارٹ ہیں جبکہ لڑکے سخت سست اور نالائق ، لڑکوں میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ لڑکیوں کے سامنے ڈھنگ سے بات کرسکیں، انہیں یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اتنی مشکل سے ہاتھ آئی لڑکی (feministsسے معذرت کے ساتھ) اگر ناراض ہو گئی تو نئی کہاں ڈھونڈتا پھروں گااور سب سے بڑھ کر یہ کہ لڑکوں کے پاس وہ خلائی مخلوق نہیں جو لڑکیوں کے پاس ہے ،لیکن وقت بدل رہا ہے ، اب لڑکوں نے بھی پر پُرزے نکالنے شروع کر دئیے ہیں ،لڑکوں نے ٹھان لیا ہے کہ جو بھی ہو وہ لڑکیوں اور اُن کی خلائی مخلوق کے ہاتھوں مزید رسوا نہیں ہوں گے۔ ’’کزن ‘‘اور ’’ہم محض اچھے دوست ہیں ‘‘ والی باتیں اب برداشت نہیں کی جائیں گی۔لیکن لڑکوں کے لئے یہ کام آسان نہیں ہوگا، اس کے لئے انہیں اپنی عزت بحال کروانی ہوگی اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر وہ ایک مہم چلائیں جس کا ہیش ٹیگ ہو ’’لڑکوں کو عزت دو۔‘‘
نوٹ:پاکستان رائٹرز کونسل ، لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ محفل مزاح میں پڑھا گیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین